نریندر مودی کی قیادت میں مرکز میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت کو بنے بہ مشکل دو مہینے ہوئے ہیں، لیکن اتنے کم عرصہ میں ہی اسے اپنی مختلف پالیسیوں پر اتحادی جماعتوں کے اختلاف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی کے چراغ پاسوان اس معاملے میں مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں۔
راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے کہا کہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے ذات پر مبنی سروے اور آبادی کے تناسب میں حصے داری کے تصور کو ریاست میں آگے بڑھایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں پتہ ہو کہ کس ذات کی آبادی کتنی ہے تو ہم جان سکتے ہیں کہ ہمیں نے ان کے لیے کیا منصوبہ بندی کرنی ہے۔
ویڈیو: بہار کی ذات پر مبنی مردم شماری کو لے کر سیاسی بحث بڑھتی جا رہی ہے، اس کا کیا اثر ہوگا؟ اس حوالے سے سینئر صحافی جاوید انصاری سے بات چیت۔
ویڈیو: بہار میں ذات پر مبنی سروے رپورٹ کے حوالے سے راشٹریہ جنتا دل کے ایم پی منوج جھا سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
بہارحکومت کی جانب سے جاری ذات پر مبنی سروے کے مطابق، ریاست کی کل آبادی 13 کروڑ سے زیادہ ہے، جس میں پسماندہ طبقہ 27.13 فیصد، انتہائی پسماندہ طبقہ 36.01 فیصد اور جنرل 15.52 فیصد ہے۔
ذات پر مبنی مردم شماری کے مخالفین کا اصرار ہے کہ یہ ایک تفرقہ انگیز اقدام ہے کیونکہ اس سے نسلی تفاخر کے احساس کو بڑھاوا ملےگا اور یہ معاشرے میں نسلی تعصب کا موجب بھی بنے گی۔ یہ دلیل صدیوں پرانی ہے اور جدوجہد آزادی کے زمانے سے ہی مقتدرہ حلقوں نے اس کا سہارا لیا ہے۔ یہ نام نہاد ‘اشرافیہ’ کا نظریہ ہے، خواہ اس پر ترقی پسندی کا لبادہ ڈال دیا گیا ہو۔
بہارمیں ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا عمل 6 اگست کو مکمل ہو چکا ہے۔ پرائیویسی کے حق کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ پبلک ڈومین میں ڈیٹا جاری یا اپ لوڈ کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ عدالت نے اس سے انکار کر دیا۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کا ریاست میں ذات پر مبنی مردم شماری کرانے کا فیصلہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر قومی سیاست کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے کا مادہ رکھتا ہے۔
دیہی ہندوستان میں کاشت کار خاندانوں کی صورتحال کو لےکر حال ہی میں این ایس او کی جانب سے جاری کیے گئے ایک سروے کے مطابق، ملک کے 17.24 کروڑ دیہی خاندانوں میں سے 44.4 فیصدی او بی سی کمیونٹی سے ہیں۔
ویڈیو: ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کی مانگ تیز ہو گئی ہے۔اس موضوع پر سی ایس ڈی ایس میں پروفیسر ابھے دوبے،سینئر صحافی ارملیش، دہلی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر لکشمن یادو اور ستیش دیش پانڈے سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
وقت وقت پر ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کامطالبہ زور پکڑتا ہے،لیکن یہ پھر سست پڑ جاتا ہے۔ اس بار بھی ذات پر مبنی مردم شماری کو لےکرعلاقائی پارٹیاں کھل کر سامنے آ رہی ہیں اور مرکزی حکومت پر دباؤ بنا رہی ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے۔
مودی سرکار نے اپنی پچھلی مدت کار میں قومی پسماندہ طبقات کمیشن کو آئینی درجہ دیا تھا۔ سرکار نے دہلی ہائی کورٹ کی سابق چیف جسٹس جی روہنی کی سربراہی میں او بی سی برادری کی ذیلی درجہ بندی کے لیے ایک کمیشن کا قیام کیا ہے، تاکہ کمزور طبقات تک ریزرویشن کی رسائی میں اضافہ کیا جا سکے۔
مرکزی داخلہ نے کہاکہ بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ جیسا منصوبہ،کم جنسی تناسب والی ریاستوں میں لوگوں میں بیداری لانا، اسقاط حمل کے قانون کو سخت بنانا جیسی کئی کوشش مردم شماری سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
آدیواسیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے مذہب کو پہچان دی جانی چاہیے اور مذہب کے کالم میں ان کو ٹرائبل یا Aboriginal Religion چننے کا اختیاربھی دیا جانا چاہیے۔
اب صرف چند گھنٹوں کا انتظار اور! انتخابات کے نتائج یہ بات صاف کردیں گے کہ کیا اردو بولنے والے اب بھی اپنی پرانی سیاسی بساط پر تکیہ کریں یا اب وقت آگیا ہے کہ ایک نئی قیادت کو سامنے لانا ہوگا۔