شکیل رشید لکھتے ہیں: گلزار اعظمی کی موت سے جو ‘خلا’پیدا ہو گیا ہے، بھرنے کا کام شروع ہوگیا، یا شروع کر دیا گیا، ذرا انتظار نہیں کیا گیا۔ لیکن ایک سوال یہ تو اٹھتا ہی ہے کہ کیا فوری طور پر تبدیلیاں ضروری تھیں ؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ گلزار صاحب نے جن افراد کو مامور کر رکھا تھا مرکز کو اُن پر اعتبار نہیں تھا، یا مرکز انہیں کام کا نہیں سمجھ رہا تھا ؟ یہ اہم سوال ہیں۔ ابھی مزید سوال سامنے آئیں گے جب جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے صدر کا انتخاب ہوگا۔ایک بات یہ بھی کہ؛ مولانا محمود مدنی کا کوئی تعزیتی بیان یا مراسلہ میری نظر سے نہیں گزرا، کیوں؟
سوشلسٹ ذہنیت کے گلزار اعظمی نے نوے سال کی عمر پائی جس میں سے انہوں نے پینسٹھ سال جمعیۃ علماء میں گزارے اور ان ایام میں ان کا شیوہ صرف مظلوموں اور بے قصوروں کی داد رسی کرنا ہی تھا۔
اعظمی کی نگرانی میں جمعیۃ علماء ہند ایک سماجی اور مذہبی تنظیم سے قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم میں بدل گئی۔
شاہد اعظمی کی طرح احتشام بھی کورٹ روم کے اندر اور باہرانصاف کی لڑائی کے لیے پرعزم تھے۔مظلوموں کے لیے لڑنے کی خواہش، ہندوتوا عناصر کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور مسلمانوں کے ساتھ ہی دیگرکمزور طبقات کے خلاف ہونے والے مظالم کے سامنے سینہ سپر ہونے کی جرأت نے انھیں اقتدار میں بیٹھے لوگوں اور ان کے اتحادیوں کی آنکھ کا کانٹا بنا دیا تھا۔
ان گنت ایسے واقعات بتاتے ہیں کہ پولیس اصل ملزمین کو گرفتار کرنے کے بجائے معصوم مسلم نوجوانوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہے، اس لیے عدالت کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے فسادات کا انتقام لینے کے لیے یہ دھماکے کیے گئے تھے۔
قومی راجدھانی میں ہوئے سلسلےوار بم دھماکوں کے چھ دن بعد 19 ستمبر 2008 کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انسپکٹر موہن چند شرما کی قیادت میں سات رکنی ٹیم نے جنوبی دہلی کے جامعہ نگر علاقے میں واقع بٹلہ ہاؤس میں انڈین مجاہدین کے مبینہ دہشت گردوں کی تلاش میں چھاپہ مارا تھا۔ اس دوران انسپکٹر شرما شہید ہو گئے تھے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ شاہد یہ جان کر بہت خوش ہو ں گے کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ہے۔آج دس سال بعد بھی انہیں یاد رکھنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ان سے متاثر ہوئے بنا رہنا ایک نہایت ہی مشکل کام تھا۔
غفران کے چچا زاد بھائی نےکہا- تڑپا تڑپا کر مارنے سے اچھا تھا پولیس اس کو تلوار سے کاٹ دیتی۔اس معاملے میں قتل کے ملزم ڈمرا تھانہ انچارج سمیت آٹھ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیاگیا ہے۔ فرار تھانہ انچارج اور پولیس اہلکاروں کی تلاش جاری ہے۔
شاہد اعظمی کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جاچکا ہے لیکن ان کی خدمات کی اصل اہمیت وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے مقدمات انہوں نے اس وقت لڑنا شروع کئے تھے جب ان کے اہل خانہ اور دوست احباب بھی ان سے دور ہوگئے تھے۔
گزشتہ 10 سالوں میں پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔یہ ابھی تک ثابت ہونا باقی ہے کہ 13 ستمبر کے بلاسٹ میں ان ملزموں کا ہاتھ تھا،جن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
غنڈوں نے مسلم نوجوان کو دکان میں رکھی کرسی سے باندھ دیا۔ اور پھر نائی سے اس کی داڑھی زبردستی کٹوا دی۔
پولیس نے نامعلوم لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 147،323،504اور506کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔
سیاست اور میڈیا کی ملی بھگت نے اپنی چالاکی سحر بیانی اور منصوبہ بندی سے ایک مشکوک انکاؤنٹر کو اکثریتی عوام کے ذہن کا مستقل اور طبعی حصہ بنا دیا ہے۔اس کتاب نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے پولیس اور میڈیا کی کہانی پر بڑی ہی ماہرانہ انداز میں کئی پیشہ ورانہ سوالات کھڑے کئے ہیں۔مصنف نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر نیشنل میڈیا کی متعصبانہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ کے مد نظر بایو سائنس کے کیریئر سے صحافت کی طرف رخ کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ شاہد جیسا بننا مشکل ہے کیونکہ شاہد نے جو کارنامہ صرف سات سال کی مدت میں انجام دیا وہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ شاہد نے محض سات سال کی مدت میں 17 بےگناہ مسلم نوجوانوں کو آزاد کروایا، جن میں سے زیادہ تر لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
اس مقدمہ میں ملزمین کو منظم طریقے سے مدد پہنچائی گئی جیسے تحقیقات این آئی اے کوسونپنا پھر اس کے بعد سرکاری وکی ملزمین کے تعلق سے نرمی برتنے کا دباﺅ بنانا اور پھر بعد میں یہ اعتراف کرنا کہ تحقیقات میں خامیاں ہیں ۔
’بے گناہ قیدی‘ کیوں لکھی گئی ؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس کے مصنف عوامی عدالت میں اپنا بھی اور اپنے جیل کے ساتھی قیدیوں کا بھی مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ لوگ یہ دیکھ لیں […]
حال ہی میں مبینہ انکاؤنٹر میں مارے گئے منفید کے والد اسلام حسین کا کہنا ہے کہ پولیس افسروں نے ان کے بیٹے کے خلاف سازش کی اور قتل کردیا۔ نئی دہلی :16ستمبر2017کومنفیدنامی ایک شخص کوپولیس کے ذریعہ مبینہ انکاؤنٹر میں ماردیا گیا ہے ۔بتایا جارہا ہے کہ […]
بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر معاملہ کاسياه پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کے نام پر اگر مسلم لڑکےپولیس کی گولی کا شکار ہوئے تو انصاف دلانے کا وعدہ کرنے والے ‘اپنوں’ نے بھی انہیں جم کر ٹھگا۔ 19ستمبر2008کودہلی کےجامعہ نگر میں بٹلہ ہاؤس کے ایل 18 فلیٹ میں […]