پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے لیے پانی ایک اہم ایشو کی صورت اختیار کر گیا ہے، مگر جھیل ولر کی صحت کے حوالے سے کبھی بھی دونوں ممالک نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی ہے۔ ہندوستان کے لیے شاید اس کی اتنی اقتصادی اہمیت نہیں ہے، مگر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے لیے اس کی حیثیت شہ رگ سے بھی زیادہ ہے۔
راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کووڈ-19مہاماری کے دوران پہلے سال یعنی سال 2020 میں بے روزگار لوگوں کے بیچ خودکشی کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی گئی اور گزشتہ چند سالوں میں پہلی بار یہ تعداد 3000 سے تجاوز کر گئی۔
خصوصی رپورٹ:جس وقت کسانوں کااحتجاج شروع ہوا، اس وقت وزارت خزانہ نے زراعت سے متعلق قومی غذائی تحفظ مشن، سینچائی، قومی زرعی ترقیاتی اسکیم جیسے کئی اہم منصوبوں کے بجٹ کو کم کرنے کو کہا تھا۔ محکمہ اخراجات نے ریاستوں کو دال مختص کرنے والی اسکیم کووزارت زراعت کے بجٹ میں شامل کرنے پر سوال اٹھائے تھے۔
ویڈیو:موجودہ کسانوں کےاحتجاج اوردوسری تحریکات کے تئیں نریندر مودی سرکار کے ردعمل پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کی دی وائر کے بانی مدیرسدھارتھ وردراجن سے بات چیت۔
اورنگ آباد ضلع کے گنگاپور اسمبلی حلقہ سے بی جے پی ایم ایل اے پرشانت بامب گنگاپور کوآپریٹو شوگر مل کے چیئرمین بھی ہیں۔ الزام ہے کہ انہوں نے 15 لوگوں کے ساتھ مل کر چینی مل سے وابستہ ایک معاملے میں کسانوں کے ذریعےجمع کی گئی نو کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم مبینہ طور پردیگر لوگوں کے بینک کھاتوں میں جمع کی۔
مرکز کی مودی سرکار کا دعویٰ ہے کہ نئے زرعی قوانین کے ذریعےاے پی ایم سی منڈیوں کے باہر بھی زرعی پیداوار بیچنے اور خریدنے کا سسٹم تیار کیا جائےگا۔ حالانکہ کسانوں اور ماہرین کو اس بات کی فکرہے کہ اگریہ قانون نافذ کیا جاتا ہے تو اے پی ایم سی اور ایم ایس پی کا سسٹم ختم ہو جائےگا۔
کسانوں کے مظاہروں کے بیچ تین زرعی آرڈیننس کو لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا کی بھی منظوری مل گئی ہے۔ صحافی پی سائی ناتھ نے کہا کہ ان قوانین کی وجہ سےہرطرف انتشار کی حالت ہو جائےگی۔ کسان اپنے پیداوارکی مناسب قیمت چاہتا ہے لیکن اس کے لیے جو بھی تھوڑا بہت سسٹم بنا ہوا تھا سرکار اس کوبھی ختم کر رہی ہے۔
دی وائر کی جانب سےآرٹی آئی کے تحت حاصل کیے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مرکزی حکومت نے ربیع 2020خریداری سیزن میں20ریاستوں سے کل58.71 لاکھ ٹن دال اور تلہن خریدنے کا ہدف رکھا تھا، حالانکہ اس میں سے صرف 29.25 لاکھ ٹن پیداوار کی خریداری ہو پائی ہے۔
مدھیہ پردیش کے گنا ضلع کا معاملہ۔معاملہ سامنے آنے کے بعدگنا ضلع کلکٹراورایس پی کو عہدے سے ہٹایا گیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کالج بنانے کے لیے مختص زمین پر کسان نے قبضہ کیا ہوا تھا۔
مدھیہ پردیش کے سونی میں کسانوں نے امپورٹ کی وجہ سے مکئی کی فصل کی واجب قیمت نہ ملنے پر ایک آن لائن مظاہرہ شروع کیا ہے، جس کو کسان ستیاگرہ کا نام دیا گیا ہے۔ کو روناانفیکشن کے دور میں یہ لوگ متاثرہ کسانوں کی مانگوں اور پریشانیوں کو آن لائن شیئر کرتے ہوئے اپنے لیےحمایت جمع کررہے ہیں۔
معاملہ اتر پردیش کے باندہ ضلع کا ہے۔ 52 سالہ کسان رام بھون شکلا دو دن سے فصل کاٹنے کے لیے گاؤں میں مزدور ڈھونڈ رہے تھے، مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدور نہیں مل رہے تھے۔
آرٹی آئی کے تحت سامنے آئی جانکاری کے مطابق تقریباً2.51 کروڑ کسانوں کو کسان یوجنا کی دوسری قسط بھی نہیں ملی ہے۔
پی ایم کسان یوجنا کے تحت کسانوں کو ایک سال میں 2000 روپے کی تین قسطوں کے ذریعے کل 6000 روپے دینے تھے۔ حالانکہ آر ٹی آئی کے تحت حاصل کی گئی جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً25 فیصد کسانوں کو ہی اس کا پورا فائدہ مل پایاہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آربی) کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2018 میں اوسطاً 35 بے روزگاروں اور نجی کاروبار سے جڑے 36 لوگوں نے ہر دن خودکشی کی۔ اس سال 12936 بے روزگاروں اور نجی کاروبار سے جڑے 13149 لوگوں نے خودکشی کی۔
حالانکہ، یہ قرض معافی اصل کے بجائے کاغذات پر ہی زیادہ ہوئی ہیں۔ ان میں سے 60 فیصد سے زیادہ قرض معاف نہیں کئے جا سکے ہیں۔ سب سےخراب مظاہرہ مدھیہ پردیش کا رہا ہے۔ مدھیہ پردیش میں محض 10 فیصد قرض معاف کئے گئےہیں۔
کسان کی تعداد کاپتہ نہیں ہونے اور اس کی صحیح تعریف نہیں طے کئے جانے کی وجہ سے مودی حکومت کی پی ایم-کسان جیسی اسکیموں پر کافی برا اثر پڑ رہاہے اور لوگوں کو اس کا فائدہ نہیں مل پا رہا ہے۔
راجیہ سبھا میں وزیر زراعت پرشوتم روپالا نے کہا کہ سرکار کی جانب سے کسانوں کی معاشی حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے کئی پروگرام عمل میں لائے جا رہے ہیں لیکن خودکشی کرنے والے کسانوں کو معاوضہ دینے کا اہتمام موجودہ وقت میں چلائی جا رہی کسی پالیسی میں نہیں ہے۔
مالی سال 2019-20 کے لیے پی ایم -کسان کے تحت 75000کروڑ روپے مختص کیا گیا ہے۔کم خرچ کی وجہ سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مختص کی گئی رقم کا بڑا حصہ مرکزی حکومت خرچ نہیں کر پائے گی۔
کسانوں کی خودکشی کے معاملے میں مہاراشٹر لگاتار پہلے مقام پر ہے۔ سال 2016 میں اس ریاست میں سب سے زیادہ3661 کسانوں نے خودکشی کی۔ اس سےپہلے 2014 میں یہاں4004اور 2015 میں4291 کسانوں نے خودکشی کی تھی۔
وزارت زراعت نے شروع میں اندازہ لگایاتھا کہ پی ایم کسان یوجنا کے تحت کل 14.5 کروڑ کسان فیملی کو فائدہ مل سکتا ہے۔حالانکہ صحیح اعداد و شمار نہیں ہونے کی وجہ سے یہ تعداد گھٹکر 10 کروڑ تک آنے کا امکان ہے۔
خصوصی رپورٹ : مرکزی وزارت زراعت نے اس کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لئےریاستی حکومتوں کے ساتھ ملکر جانچ شروع کی ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کے 5000 کروڑ روپے سے زیادہ کے دعوے کی ادائیگی نہیں کی جا سکی ہے، جبکہ دعوے کی ادائیگی کی معینہ مدت کافی پہلے ہی پوری ہو چکی ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان کی مانگ پوری ہو جاتی ہیں تو وہ لوٹ جائیںگے، نہیں تو وہ د ہلی کی طرف مارچ کریںگے۔
ویڈیو: ہریانہ میں آئندہ اسمبلی انتخابات کو لے کر دی وائر کے ڈپٹی ایڈیٹر گورو وویک بھٹناگر کی ریاست کے بی جے پی صدر سبھاش برالا سے بات چیت۔
جب تک گلوبلائزیشن کی اقتصادی پالیسیوں میں کوئی فیصلہ کن تبدیلی نہیں ہوتی، ہندوستان وشوشکتی بن جائے توبھی، حکومت کا سارا بوجھ ڈھونے والے نچلے طبقے کی یہ تقدیر بنی ہی رہنے والی ہے کہ وہ تلچھٹ میں رہکر عالمی سرمایہ داری کے رساؤ سے گزر بسر کرے۔
راجستھان کے سری گنگا نگر ضلع میں ایک کسان نے قرض کی وجہ سے مبینہ طور پر سلفاس کی گولیاں کھاکر خودکشی کر لی۔ حالانکہ، ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ سچن پائلٹ کا دعویٰ ہے کہ مرنے والے کسان پر قرض نہیں تھا۔
دیتاری نایک کا کہنا ہے کہ جب سے ان کو پدم شری ایوارڈ ملا ہے، لوگ ان کی شہرت کا حوالہ دےکر ان سے کوئی کام کرانے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ چینٹیوں کے انڈے کھانے کو مجبور ہیں۔ اڑیسہ کے تال بیترنی گاؤں کے رہنے والے نایک کو پہاڑ کھودکر نہر بنانے کے لئے پدم شری ایوارڈ سے اسی سال نوازا گیا تھا۔
گزشتہ سال اسی مدت میں 896 کسانوں نے خودکشی کی تھی۔
یہ غلط فہمی پھیلائی گئی کہ ایف سی-5 آلو کا ایسا پیٹنٹ پیپسی کو کے پاس ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسان اس آلو کی پیداوار ہی نہیں کر سکتے۔ یہ سچ نہیں ہے۔
آلو کی ایک خاص قسم کی پیداوارکی وجہ سے پیپسی کو انڈیا نے گجرات کے چار آلو کسانوں کے خلاف پیٹنٹ حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاکر عرضی دائر کی تھی۔ ساتھ ہی ہر ایک کسان سے معاوضہ کے طور پر 1.05 کروڑ روپے کی مانگ کی […]
آر ٹی آئی کے تحت اسٹیٹ بینک آف انڈیا، بینک آف مہاراشٹر، یوکو بینک، سنڈکیٹ بینک، کینرا بینک جیسے نیشنلائزڈ بینکوں نے قبول کیا ہے کہ کسانوں کے اکاؤنٹ میں ڈالے گئے کروڑوں روپے واپس لے لئے گئے ہیں۔
بی جے پی اور میڈیا کے کچھ طبقے نے جنون اور دایونگی کا ایسا ماحول بنا دیا ہے، جیسے فوجیوں کی موت پر گھڑیالی آنسو بہانا اور بات بات پر جنگ کی بات کرنا-دیکھ لینا اور دکھا دینا ہی راشٹرواد کی اصلی نشانی رہ گئی ہے۔
یہ معاملہ ہریدوار کے لکسر کا ہے۔ 65 سالہ کسان ایشور چند شرما نے سوسائڈ نوٹ میں بینک سے 5 لاکھ کا لون دلانے والے ثالثی پر پیسے کے لیے ان کو بلیک میل کرنے کا الزام لگایا ہے۔
کانگریس کا انتخابی منشور کم از کم یوں بامعنی ہے کہ فوری طور پر ہی سہی، ملک کے سیاسی ڈسکورس میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں۔
انتخابی منشور میں سرکاری نوکریوں کو ایک لفظ کے لائق نہ سمجھکر بی جے پی نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے لئے نوجوان اور روزگار دونوں کا مطلب بدل گیا ہے۔
کانگریس نے اپنا انتخابی منشور جاری کرتے ہوئے غریبوں کو 72 ہزار روپے سالانہ دینے اور کسانوں کے لئے الگ بجٹ کے اہتمام کا وعدہ کیا ہے۔ پارٹی نے قرض نہ چکا پانے والے کسانوں کے خلاف فوجداری نہیں بلکہ سول کیس درج کرنے کی بات کہی ہے۔
وارانسی سے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے 111 کسانوں کامنصوبہ ہے کہ وہ اپنا پرچہ نامزدگی داخل کریں گے اور اگھوری سادھوؤں کے بھیس میں مودی کے خلاف تشہیر کریں گے۔
گنا کسانوں کا10074.98کروڑ روپے میں سے4547.97 کروڑ روپے یعنی 45 فیصدی سے زیادہ اتر پردیش کے صرف 6 انتخابی حلقوں میرٹھ، باغپت، کیرانہ، مظفرنگر، بجنور اور سہارن پور کے کارخانوں پر بقایہ ہے۔
وزیر اعظم مودی پر وعدہ نہیں پورا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کسان رہنما ایّاکنّو نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بی جے پی اپنے منشور میں ہماری مانگوں کو شامل کرے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم اپنا فیصلہ واپس لے لیںگے۔
اتر پردیش کے آگرہ ضلع کے کسان کا کہنا ہے کہ مجھ پر 35 لاکھ روپے کا قرض ہے اور اگر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مدد نہیں کر سکتے تو کم سے کم مجھے مرنے کی اجازت تو دے ہی سکتے ہیں۔
آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق؛2018-2014 کے دوران ریاست میں ہر دن اوسطاً 8 کسانوں نے خودکشی کی۔