ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات کے تناظر میں ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 538 انتخابی حلقوں میں کل 589691 ووٹوں میں فرق پایا گیا۔ 362 سیٹوں پر ڈالے گئے ووٹوں کے مقابلے میں گنے گئے ووٹوں کی تعداد کم تھی، جبکہ 176 سیٹوں پر یہ تعداد زیادہ تھی۔
اے ڈی آر اور نیشنل الیکشن واچ کی رپورٹ کے مطابق، 28 وزراء نے حلف ناموں میں اپنے خلاف مجرمانہ معاملوں کا اعلان کیا ہے، ان میں سے 19 کے خلاف سنگین نوعیت کے جرائم کے الزام ہیں، جن میں خواتین کے خلاف جرائم بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بنگال کے دو بی جے پی ممبران پارلیامنٹ پر قتل کے الزام ہیں۔
لوک سبھا انتخابات 2024 کے کل 8337 امیدواروں میں سے صرف 797 خواتین ہیں، جو سات مرحلوں میں لڑنے والے کل امیدواروں کا محض 9.5 فیصد ہے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی رپورٹ کے مطابق، 2022-23 میں چھ قومی پارٹیوں کی طرف سے آمدنی کے طور پر اعلان کیے گئے 3076.88 کروڑ روپے میں سے 59 فیصد سے زیادہ نا معلوم ذرائع سےآئے تھے۔ اس میں الیکٹورل بانڈ سے ہونے والی آمدنی کا حصہ 1510.61 کروڑ روپے یا 82.42 فیصد تھا۔ بڑا حصہ بی جے پی کو ملا۔
گزشتہ 15 فروری کو الیکٹورل بانڈ اسکیم کو رد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو حکم دیا تھا کہ وہ اپریل 2019 سے اب تک خریدے گئے الیکٹورل بانڈز کی تفصیلات 6 مارچ تک فراہم کرے، جسے الیکشن کمیشن 13 مارچ تک اپنی سرکاری ویب سائٹ پر شائع کرے گا۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کے ایک تجزیہ کے مطابق، پانچ الیکٹورل ٹرسٹوں کو مالی سال 2022-23 میں کل 366.49 کروڑ روپے موصول ہوئے، جس میں بی جے پی کو سب سے زیادہ 259.08 کروڑ روپے ملا۔ بی آر ایس کو 90 کروڑ روپے اور وائی ایس آر کانگریس، عآپ اور کانگریس کو مجموعی طور پر 17.40 کروڑ روپے ملے۔
نفرت انگیز پیغامات پھیلانے میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے سوشل میڈیا ڈپارٹمنٹ کا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ 2014 کے انتخابات کے دوران ہی ہندوستان نے اس فن میں مہارت حاصل کر لی تھی جس نےنریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو اقتدارمیں لانے میں اہم رول ادا کیا۔ تب سے لے کر اب تک ہندوستان میں نفرت کی سیاست نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اب یہ ہندوستانی پارلیامنٹ تک پہنچ چکی ہے۔
اے ڈی آر اور نیشنل الیکشن واچ نے پچھلے پانچ سالوں میں ملک میں ہوئے اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں ناکام امیدواروں کے علاوہ تمام موجودہ ایم پی اور ایم ایل اے کے حلف ناموں کا تجزیہ کیا ہے۔ اس کے مطابق ہیٹ اسپیچ سے متعلق اعلانیہ معاملوں میں 480 امیدوار ریاستی اسمبلیوں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کو دی گئی انتخابی اخراجات کی تفصیلات میں بی جے پی نے بتایا ہے کہ اس سال پانچ ریاستوں کے انتخابات میں اس نے 344.27 کروڑ روپے خرچ کیے، جبکہ پارٹی نے پانچ سال پہلے انہی ریاستوں میں 218.26 کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔ تاہم، کانگریس نے بھی ان ریاستوں میں 2017 کے مقابلے 80 فیصد زیادہ 194.80 کروڑ روپے خرچ کیے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز اور اتر پردیش الیکشن واچ نے کہا ہےکہ یوپی میں حلف لینے والے 45 نئے وزیروں میں سے 22 نے اپنے خلاف مجرمانہ معاملوں کا اعلان کیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر پر سنگین الزامات ہیں۔
سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔
سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔ یعنی فی ووٹر 700روپے خرچ کیے گئے ہیں اور ایک پارلیامانی حلقہ میں 100کروڑ یعنی ایک بلین روپے خرچ کیے گئے۔ تقریباً200بلین روپے ووٹروں میں بانٹے گئے، 250بلین روپے پبلسٹی پر خرچ کیے گئے اور 50بلین روپے لاجسکٹکس وغیرہ پر خرچ کیے گئے۔
انتخابی اصلاحات کی سمت میں کام کرنے والی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹکٹ ریفارمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2016 سے 2020 کے دوران ہوئے انتخابات میں کانگریس کے 170ایم ایل اے دوسری پارٹیوں میں شامل ہوئے جبکہ بی جے پی کے صرف 18ایم ایل اے نے دوسری پارٹیوں کا دامن تھاما۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس اور دہلی الیکشن واچ کی رپورٹ کے مطابق، دہلی میں صرف 8 ایم ایل اے ہیں، جن کے خلاف کوئی کیس درج نہیں ہے اور انہوں نے ان امیدواروں کو ہرایا، جن کے خلاف مجرمانہ معاملے درج ہیں۔
لوک سبھا انتخابات کے دوران اس معاملہ کو لےکر ہو رہی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی رہنمائی والی ایک بنچ نے ہی انتخابی بانڈ اسکیم پر روک لگانے سے منع کر دیا تھا۔
انتخابی اصلاحات سے متعلق ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رفارمس کی رپورٹ کے مطابق، بی جے پی نے انتخاب میں 1141.72 کروڑ روپے خرچ کیے، وہیں کانگریس نے لوک سبھا انتخاب میں 626.36 کروڑ روپے خرچ کیے۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس نے اپنے تجزیے میں بتایا ہے کہ 12 مرحلوں کے دوران بیچے گئے 12313 بانڈس میں سے 6524 بانڈس (45.68 فیصدی)ایک کروڑ کی قیمت کے تھے جبکہ 4877 بانڈس (39.61 فیصدی) 10 لاکھ روپے کی قیمت کے تھے۔
انتخابی بانڈ اسکیم کو نافذ کرنے کے لئے مودی حکومت نے سال 2017 میں مختلف قوانین میں ترمیم کی تھی۔ اس کے بعد اے ڈی آر نے عرضی دائر کرکے ان ترمیمات کو چیلنج کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کو دی گئی آڈٹ رپورٹ میں بی جے پی نے بتایا ہے کہ مالی سال2018-19 میں پارٹی کی کل آمدنی 2410 کروڑ روپے رہی۔ پچھلے مالی سال کےمقابلے اس میں 134 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔
اس کو لےکر دائر کی گئی آر ٹی آئی پر صحیح سے کارروائی نہیں کرنے کو لےکر سی آئی سی نے مرکزی وزارت خزانہ کے محکمہ مالیاتی امور، محکمہ معاشی امور اور محکمہ ریونیو اور الیکشن کمیشن کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے راجیہ سبھا کی پارلیامانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ یہ وقت میں پیچھے جانےوالا قدم ہے اور اس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سے جڑی شفافیت پر اثر پڑےگا۔ نئی دہلی: الیکشن کمیشن نے صرف وزارت قانون ہی نہیں بلکہ راجیہ سبھا کی […]
پارٹی نے اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو خط لکھکرکہا تھا کہ الیکٹورل بانڈ کو بنا کسی سیریل نمبر یا کسی پہچانکے نشان کے جاری کیا جانا چاہیے، تاکہ بعد میں چندہ دینے والوں کا پتہ لگانے کے لئے اس کا استعمال نہ کیا جا سکے۔
آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب الیکٹورل بانڈ منصوبہ کا ڈرافٹ تیار کیا گیا تھا تو اس میں سیاسی جماعتوں اور عوام کے ساتھ صلاح اورمشورے کا اہتمام رکھا گیا تھا۔ حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد اس کو ہٹا دیا گیا۔
اس کے علاوہ ایک مارچ 2018 سے 24 جولائی 2019 کے بیچ خریدے گئے کل الیکٹورل بانڈ میں سے 99.7 فیصدی بانڈ 10 لاکھ اور ایک کروڑ روپے کے تھے۔ تقریباً 80 فیصدی الیکٹورل بانڈ نئی دہلی میں بھنائے گئے ہیں۔
حالاں کہ وزارت خزانہ نے ان اعتراضات کو درکنار کیا اور یہ اہتمام رکھا کہ وہ رجسٹرڈ سیاسی پارٹیاں ہی الیکٹورل بانڈ کے ذریعے چندہ لینے کے اہل ہو ں گے جنہوں نے پچھلے لوک سبھا یا اسمبلی انتخاب کے دوران ایک فیصدی ووٹ حاصل کیا ہو۔
ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں فیس میں اضافے کے خلاف چل رہے مظاہرے اور آر بی آئی کے ذریعے الیکٹورل بانڈ کی مخالفت سے متعلق خبر پر سی پی آئی (ایم ایل)کی پولت بیورو ممبر کویتا کرشنن، قلمکار سہیل ہاشمی اور سینئر صحافی نتن سیٹھی سے سینئر صحافی ارملیش کی بات چیت۔
آر بی آئی نے کہا تھا کہ الیکٹورل بانڈ اور آر بی آئی ایکٹ میں ترمیم کرنے سے ایک غلط روایت شروع ہو جائےگی۔ اس سے منی لانڈرنگ کو بڑھاوا ملےگا اور م سینٹرل بینکنگ قانون کے بنیادی اصولوں پر ہی خطرہ پیدا ہو جائےگا۔
ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ2 مالی سالوں میں سیاسی پارٹیوں کو کارپوریٹ سے ملنے والے چندے میں 160 فیصدی کا اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی الیکشن کمیشن کو سیاسی پارٹیوں کے ذریعے چندہ دینے والوں کے پین کارڈ سمیت کئی ضروری جانکاریاں نہیں دی گئیں۔
انتخابی کارروائی سے متعلق ریسرچ ادارہ اے ڈی آر کے مطابق، سب سے زیادہ امیر شیرومنی اکالی دل کی ہرسیمرت کور بادل ہیں، جن کی جائیداد 217 کروڑ روپے ہے۔ پیوش گوئل کی جائیداد 95 کروڑ روپے ہے۔ گروگرام سے منتخب راؤاندرجیت سنگھ تیسرے سب سے امیر وزیر ہیں اور ان کی جائیداد 42 کروڑ روپے ہے۔
اڑیسہ کے گورنر گنیشی لال نے وزیراعلیٰ نوین پٹنایک کے ساتھ ان کے 11 ایم ایل اے کو کابینہ وزیر اور 9 کو ریاستی وزیر کا حلف دلایا۔ پٹنایک نے اڑیسہ میں لگاتار پانچویں بار وزیراعلیٰ بننے کا ریکارڈ بنایا ہے۔
دی وائر کی خصوصی رپورٹ: سی جے آئی پر لگے جنسی استحصال کے الزامات کی جانچکر رہی کمیٹی میں ایک باہری ممبر شامل کرنے کی مانگ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کےکے وینو گوپال نے سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو خط لکھا تھا۔اس پر مرکزی حکومت کے ذریعے ان کو وضاحت دینے کو کہا گیا کہ یہ ان کی’ذاتی رائے ‘ہے نہ کہ مرکز کی۔
ایس بی آئی نے بتایا کہ مارچ 2018 سے 24 جنوری 2019 کے درمیان کل 1407.09کروڑ روپے کے بانڈ خریدے گئے تھے، جس میں سے1403.90 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ 10 لاکھ اور 1 کروڑ روپے کے تھے۔
سپریم کورٹ نے سبھی پارٹیوں کو ہدایت دی ہے کہ 30 مئی تک وہ الیکٹورل بانڈ کی رقم اور اس کے چندہ دینے والوں کے نام سمیت تمام جانکاری سیل بند لفافے میں الیکشن کمیشن کو دیں۔ کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں آخری فیصلہ تفصیلی سماعت کے بعد لیا جائےگا۔
سپریم کورٹ میں الیکٹورل بانڈ کے خلاف عرضی کی سماعت پوری، آج آئےگا فیصلہ۔ شنوائی میں مرکزی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا کہ الیکٹورل بانڈ بلیک منی پر روک لگانے کے لئے ایک تجربہ ہے اور لوک سبھا انتخاب تک عدالت کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے،’جن521موجودہ ایم پی کے حلف نامہ کا تجزیہ کیا گیا،ان میں 430 (83 فیصد)کروڑ پتی ہیں۔ان میں بی جے پی سے 227،کانگریس سے 37 اور اے آئی اے ڈی ایم کے سے 29 ایم پی ہیں۔‘
کمیشن نے کہا کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم اور کارپوریٹ فنڈنگ کو محدود نہ کرنے سے سیاسی جماعتوں کو ملنے والے چندے کی شفافیت پر سنگین اثر پڑےگا۔ سیاسی جماعتوں کو غیر منضبط غیر ملکی فنڈنگ کی اجازت ملےگی اور اس سے ہندوستانی پالیسیاں غیر ملکی کمپنیوں سے متاثر ہو سکتی ہیں۔
الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فار ڈیمو کریٹک رفارمس کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے 72 رہنماؤں کی ملکیت میں 7.54 کروڑ روپے کا اوسط اضافہ ہوا ہے ، جبکہ کانگریس کے 28 رہنماؤں کی ملکیت میں اوسط 6.35 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ 26 مئی 2017 کو وزارت قانون کے سکریٹری کو خط لکھکر اپنی تشویش کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد وزارت قانون نے کمیشن کے اعتراضات کو شامل کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے محکمہ اخراجات کو تین خط بھیجا تھا۔
ملک میں ارب پتیوں کی تیزی سے بڑھتی تعداد کے درمیان آپ روتے رہیے کہ سیاست کا زوال ہو گیا ہے اور اب وہ سماجی خدمت یا ملک کی خدمت کا ذریعہ نہیں رہی،ان اکثریت والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نے اس حالت کو سماجی و ثقافتی پہچان بھی دلا دی ہے۔
ملک میں 48 منظور شدہ علاقائی پارٹیاں ہیں۔ 16نے انتخابی کمیشن کو اپنی آڈٹ رپورٹ نہیں سونپی ہے۔17-2016 میں سماجوادی پارٹی کی کمائی 32 پارٹیوں کی کل کمائی کا 25.78 فیصد ہے۔