پنجاب کی تین درجن سے زیادہ جمہوری تنظیموں نے 21 جولائی کو جالندھر میں ایک مشترکہ کانفرنس کرتے ہوئے نئے فوجداری قوانین کے نفاذ اور دہلی کے ایل جی کی جانب سے ارندھتی رائے اور پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔
پین پنٹر ایوارڈ ایسے لکھاری کو دیا جاتا ہے جو اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں اور اکثر اپنی جان کی پراوہ کیے بغیر اپنی آزادی کو جوکھم میں ڈالتے ہیں۔ ایک جیوری نے کہا کہ ارندھتی رائے آزادی اور انصاف کی توانا آواز ہیں، جن کی تحریریں تقریباً تیس سالوں سے بڑی وضاحت اور استقامت کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔
معروف ادیبہ اور سماجی کارکن ارندھتی رائے اور کشمیر سینٹرل یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف یو اے پی اے کا یہ معاملہ 2010 میں ایک پروگرام میں دیے گئے بیان سے متعلق ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر کے اس فیصلے کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
سخن ہائے گفتنی: پوری دنیا میں لاکھوں یہودی، مسلمان، عیسائی، ہندو، کمیونسٹ اور ملحد غزہ کے خلاف فوراً جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ لیکن وہ ملک جو کبھی فلسطین کا خیرخواہ اور سچا دوست تھا، جہاں کبھی لاکھوں لوگوں کے جلوس نکلے ہوئے ہوتے، وہاں کی سڑکیں آج خاموش ہیں۔
فلسطین اور اسرائیل کی خاطر، جو زندہ ہیں ان کی خاطر اور جو مارے گئے ان کے نام پر، حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے لوگوں کی خاطر اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کی خاطر، ساری انسانیت کی خاطر، غزہ پر حملہ فوراً بند ہونا چاہیے۔
کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے ہیٹ اسپیچ سے متعلق 2010 کےایک معاملے میں ارندھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کے لیے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کے اقدام کی تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تقاریر کی جاتی ہیں، بھلے ہی دوسرے لوگ ان سے کتنے ہی اختلاف رکھتے ہوں، حکومت کو تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
معروف قلمکار اور کارکن ارندھتی رائے نے نیوز کلک سے وابستہ صحافیوں کے یہاں چھاپے ماری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اگر 2024 میں بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو ملک میں جمہوریت کا نام ونشان نہیں رہے گا۔
جو لوگ یقین کرتے ہیں کہ ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے، انہیں گزشتہ چند مہینوں میں منی پور سے مظفر نگر تک رونما ہونے والے واقعات پر نگاہ کرنی چاہیے۔ وارننگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے عوام الناس کے ایک حصے سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے اپنے رہنماؤں سے۔
ویڈیو: ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی، جمہوریت کی زبوں حالی، اڈانی گروپ پر لگے الزامات اور اپوزیشن سمیت مختلف موضوعات پرمعروف ادیبہ اور سماجی کارکن ارندھتی رائے سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
سخن ہائے گفتنی: ایک مسلمان وہ نہیں کہہ سکتا جو ایک ہندو کہہ سکتا ہے؟ ایک کشمیری وہ نہیں کہہ سکتاہے جو دوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں۔آج یکجہتی، بھائی چارہ اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے ،لیکن ایسا کرنا نہایت خطرناک اور جان جوکھم میں ڈالنے کی طرح ہے ۔
عالمی شہرت یافتہ ادیبہ اور سماجی کارکن ارندھتی رائے نے کہا کہ اپوزیشن وزیر اعظم کو روک سکتی ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں اکیلے بی جے پی کو شکست نہیں دے سکتیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جے ڈی یوجیسی دیگر جماعتوں کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ایک ساتھ آنا ضروری ہے۔
عمر قید کی سزا کاٹ رہےانسانی حقوق کے کارکن جی این سائی بابا کی نظموں اور خطوط کے مجموعے کے اجرا کے موقع پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے جی این سائی بابا کی فوراً رہائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا، موجودہ حکومت سوچتی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو ‘اربن نکسل’، ‘دیش دروہی’، ‘دہشت گرد’ قرار دے کراور انہیں جیل میں ڈال کر کامیاب ہو سکتی ہے۔
دی وائر کے لیے کرن تھاپرکو دیےاپنے انٹرویومیں ارندھتی رائے نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے، لیکن مجھے ہندوستان کے لوگوں پر بھروسہ ہے اور امید ہے کہ ملک ایک دن اس اندھیرے غار سے باہر نکلےگا۔
سخن ہائے گفتنی: محبت کی خاطر کی جا رہی اس جنگ میں یہ ضروری ہے کہ اس کو فوجی کی طرح لڑا جائے اور خوبصورت طریقے سے جیتا جائے۔
ایم سندرنر یونیورسٹی کے وی سی نے بتایا کہ انہیں اے بی وی پی سے شکایت ملی تھی کہ بی اے کے نصاب میں شامل بکر ایوارڈیافتہ ارندھتی رائے کی کتاب ‘واکنگ ود دی کامریڈس’ میں مصنفہ کے ماؤنوازعلاقوں میں جانے کو لےکر متنازعہ مواد ہے، جس کے بعد اس کونصاب سے ہٹا دیا گیا۔
کیرل کےگورنرعارف محمد خان کو لکھے گئے خط میں ریاستی بی جے پی صدرکے سریندرن نے کہا کہ ارندھتی رائے کی‘ملک مخالف’تقریرمیں ملک کی سالمیت اورخودمختاریت پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
معروف ہندوستانی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارن دھتی رائے نے الزام لگایا ہے کہ ملکی حکومت اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلمانوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
ارندھتی رائے نے 25 دسمبر کو دہلی یونیورسٹی میں این پی آرکو لےکر کہا تھا کہ یہ بھی این آر سی کا ہی حصہ ہے۔ جب سرکاری ملازم این پی آر کے لیے جانکاری مانگنے آپ کے گھر آئیں تو انہیں اپنا نام رنگا بلا بتا دیں اور اپنے گھر کا پتہ دینے کے بجائے وزیر اعظم کی رہائش کا پتہ لکھوا دیں۔
بی جے پی کے بانی نے مخالفین کو اینٹی نیشنل کہنے پر اعتراض کیا ہے، جو مودی-شاہ کی حکمت عملی اور مہم کا اہم حصہ رہا ہے۔ ایسا ہی کچھ لال کرشن اڈوانی نے 1970 کی دہائی کے وسط میں ایمرجنسی کے وقت جیل میں بند ہونے کے دوران بھی لکھا تھا۔
ایک مشترکہ بیان میں ان فنکاروں نے کہا کہ بی جے پی وکاس کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لیکن ہندوتوا کے غنڈوں کو نفرت اور تشدد کی سیاست کی کھلی چھوٹ دے دی۔ سوال اٹھانے، جھوٹ اجاگر کرنے اور سچ بولنے کو ملک مخالف قرار دیا جاتا ہے۔ ان اداروں کا گلا گھونٹ دیا گیا، جہاں عدم اتفاق پر بات ہو سکتی تھی۔
اس سے پہلے 100 سے زیادہ فلم سازوں اور 200 سے زیادہ مصنفین نے ملک میں نفرت کی سیاست کے خلاف ووٹ کرنے کی اپیل کی تھی۔
انڈین رائٹرس فورم کی طرف سے جاری اس اپیل میں قلمکاروں نے کہا کہ اس بار ووٹنگ ہندوستان کے تنوع اور مساوات کے حقوق کے لئے ہوگی۔
گڑگاؤں لگاتار نشانے پر ہے۔ انجان لوگوں سے بسا یہ شہر ہر کسی کو اجنبی سمجھنے کی فطرت پالے ہیں، اس لئے وہ مذہب کی بنیاد پر شک کئے جانے یا کسی کو پیٹ دئے جانے کو برا نہیں مانتا۔ ہندوستان کا یہ سب سے جدید شہر سسٹم سے لےکر ایک صحت مند سماج کے فیل ہونے کا شہر ہے۔ اس شہر میں دھول بھی سیمنٹ کی اڑتی ہے، مٹی کی نہیں۔
سوشل میڈیا پروائرل ویڈیو میں وشو ہندو دل کے ممبر یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ وہ ان کو کشمیری ہونے کی وجہ سے مار رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آئے ایک ویڈیو میں اتر پردیش کی راجدھانی میں وشو ہندو دل کے ممبر سڑک کنارے بیٹھنے والے کشمیری دکانداروں سے مارپیٹ کرتے دکھ رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے دکھے کہ ان کو کشمیری ہونے کی وجہ سے مار رہے ہیں۔
حملہ کتنا بھی افسوس ناک کیوں نہ ہو، نریندر مودی کےلیے یہ ایک شاندار سیاسی موقع تھا ایسا کچھ کرنے کا جس میں وہ ماہر ہے—شاندار نمائش۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مہینوں پہلے پیش گوئی کرکے آگاہ کر دیا تھا کہ بی جے پی ، جس کے پیروں سے سیاسی زمین کھسک رہی ہے، انتخابات سے ٹھیک پہلے آسمان سے آگ کا گولہ اتار لائے گی۔
اگر دونوں ممالک ایک ودسرے کو پچھاڑنے اور نیچا دکھانے کے شغل میں عوامی فلاح وبہبود مثلاً تعلیم ، صحت، روزگار کوہی اپنا مقصود بنالیں، تو یہ خطہ ایک بار پھر اقتصادی طاقت بن سکتا ہے۔
وزیر اعظم اسکالرشپ کے تحت ملک بھر کے کالجوں، اداروں اور یونیورسٹیوں میں جموں و کشمیر کے ذہین طلبا کو داخلہ دیا جاتا ہے۔
برانچ مینجر کا کہنا ہے کہ، مظاہرہ کرنے والوں کو لگا کہ ہم پاکستانی ہیں۔ہم اس نام کا استعمال تقریباً 53 سالوں سے کر رہے ہیں۔ اس کے مالک ہندو ہیں۔
24 سالہ جبران نظیر کا الزام ہے کہ ٹریفک سگنل پر تنازعہ ہونے کے دوران جب انھوں نے بتایا کہ وہ جموں و کشمیر کے ہیں تب دو لوگون نے مل کر ان کی پٹائی کر دی۔
جموں و کشمیر کے پلواما میں دہشت گردانہ حملے کے بعد کشمیریوں کے ساتھ بد سلوکی کی خبروں پر این ایچ آر سی نے مرکزی وزارت داخلہ ،ایم ایچ آر ڈی اورمغربی بنگال ،اتراکھنڈ ،اتر پردیش کی ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔
کشمیری طلبا نے کہا کہ حملہ آوروں نے ہم سے کمرے خالی کر 4 دنوں کے اندر کشمیر لوٹ جانے کو کہا۔ ہمیں وارننگ دی گئی کہ اگر ہم واپس نہیں گئے تو وہ ہمیں مار ڈالیں گے۔
سپریم کورٹ نے مرکز اور 10 ریاستوں کو نوٹس جاری کیا ہے ۔ کورٹ نے کہا ہے کہ ریاستوں کے نوڈل افسر کشمیری اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کو روکیں۔
عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ پلواما دہشت گردانہ حملے کے بعد کشمیری طلبا پر ملک بھر کے مختلف تعلیمی اداروں میں حملہ کیا جارہا ہے اور متعلقہ اتھارٹی کو اس طرح کے حملے کے خلاف قدم اٹھانا چاہیے۔
گروگرام کی ایس جی ٹی یونیورسٹی میں پلواما حملے میں شہید ہوئے جوانوں کو لےکر مبینہ طور پر قابل اعتراض پوسٹ پر ایک کشمیری طالبہ کو برخاست کر دیا گیا ہے۔ وہیں، نوئیڈا کے ایک ہوٹل میں کشمیریوں کی مخالفت میں ایک بورڈ لگایا گیا تھا۔
ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے حال ہی میں ہوئے پلواما دہشت گردانہ حملے اور ان حملوں کا آئندہ انتخابات پر کیا اثر ہوگا، اس بارے میں سینئر صحافی آشوتوش اور سمتا شرما سے ارملیش کی بات چیت۔
جموں و کشمیر کے پلواما میں سی آر پی ایف جوانوں پر حملے بعد دہرادون میں اے بی وی پی ، بجرنگ ال اور وشو ہندو پریشد جیسی ہندتوادی تنظیموں کے مطالبے پر دو کالجوں نے آئندہ سیشن میں کشمیریوں کو داخلہ نہ دینے کی بات کہی ہے۔
کشمیری طلبا نے الزام لگایا ہے کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور ان کے مکان مالکوں نے ان کو مکان خالی کرنے کے لیے کہا۔
دہرادون واقع بابا فرید انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی اور الپائن کالج آف مینجمنٹ اینڈ ٹکنالوجی نےخط جاری کر کے کہا ہے کہ وہ آئندہ سیشن سے کسی بھی کشمیری طلبا کو داخلہ نہیں دیں گے۔
اگر جذباتی ہو کر نعرے لگانے اور گالیاں بکنے سے فرصت مل جائے تو اپنے حکمرانوں سے پوچھیے کہ کشمیر کو لے کر ان کی پالیسی کیا ہے؟ کیوں کشمیر آج بھی’جنازوں کا شہر‘ بنا ہوا ہے؟ کیا آپ پوچھ سکتے ہیں؟ شاید نہیں کیونکہ آپ کے اندر ہندو مسلم کا اتنا زہر بھر دیا گیا ہے کہ آپ اس سے اٹھ کر سوچ ہی نہیں سکتے۔