ashoka university

ہریانہ پولیس نے محمود آباد کی گرفتاری پر نوٹس کا اب تک جواب نہیں دیا: ہیومن رائٹس کمیشن

این ایچ آر سی نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کا از خود نوٹس لیتے ہوئےاسے پہلی نظر میں استاد کے انسانی حقوق اور آزادی کی  خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ اب کمیشن نے بتایا ہے کہ ہریانہ پولیس نے ایک ہفتہ کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے باوجود اس کے نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اس ادارے سےامید کر سکتے ہیں کہ یہ ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے اٹھ کرکھڑا ہوجائے؟ شاید وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس بار پھر سے اس ادارے کے آقا بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی دے دیں گے۔

اشوکا کے پروفیسر کو عبوری ضمانت، پہلگام اور آپریشن سیندور پر تبصرہ کرنے سے روکا گیا

سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دیتے ہوئے ان کے سوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس کیس سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بات کر سکتے ہیں۔

آپریشن سیندور: سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں اشوکا کے پروفیسر گرفتار، بی جے پی لیڈر نے کی تھی شکایت

محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ اس سے قبل ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے محمود آباد کو ان کی سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں طلب کیا تھا۔

ہریانہ: فیس بک پوسٹ کے لیے خواتین کمیشن کے نوٹس کو اشوکا پروفیسر نے سینسرشپ قرار دیا

ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد پر سوشل میڈیا پر اپنے تبصروں کے ذریعے’مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی توہین’ کا الزام لگایا ہے۔ علی نے الزامات کی تردید کی ہے اور کمیشن کے نوٹس کو سینسر شپ کا نیا طریقہ قرار دیا ہے ۔

یونیورسٹی کی دہلیز پر ’وشو گرو‘ کے جاسوس

کیا حکومت کی جانب سے دانشوروں کو پالتو بنائے رکھنے کی جد و جہد یا دانش گاہوں میں انٹلی جنس بیورو کو بھیجنے کی ان کی حماقت ان کی بڑھتی ہوئی بدحواسی کا ثبوت ہے، یا ان کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ ہندوستان ایک بڑی عوامی تحریک کی دہلیز پر بیٹھا ہے۔

’جمہوریت کی پسپائی‘ کے موضوع پر لکھے گئے تحقیقی مقالے کی تحقیقات کے لیے اشوکا یونیورسٹی پہنچا انٹلی جنس بیورو

ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی میں پڑھانے والے سبیہ ساچی داس نے اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ‘ہیرا پھیری ‘ کا خدشہ ظاہر کیا تھا، جس پر تنازعہ کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔سوموار کو انٹلی جنس بیورو کے افسران ان سے بات کرنے کے مقصد سے یونیورسٹی پہنچے تھے۔

سال 2019 کے انتخابات میں ممکنہ ’ہیرا پھیری‘ سے متعلق تحقیقی مقالے کے محقق کا اشوکا یونیورسٹی سے استعفیٰ

ہریانہ کے سونی پت میں واقع اشوکا یونیورسٹی میں معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر سبیہ ساچی داس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہ ایک تحقیقی مقالے کے لیے سرخیوں میں ہیں، جس میں انہوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ‘دھاندلی’ کے امکان کا الزام لگایا تھا، جس کے بعد بی جے پی 2014 کے مقابلے میں زیادہ فرق کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی تھی۔