بہادرگڑھ سیٹ سے کانگریس کے باغی راجیش جون نے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی، جبکہ 11 دیگر سیٹوں پر جہاں بی جے پی نے جیت درج کی، وہاں کانگریس کے باغی آزاد امیدوار دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔
کانگریس نے جموں خطے کی 43 میں سے 29 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے، لیکن وہ اس خطے میں صرف ایک سیٹ جیت پائی۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، جموں و کشمیر ریاست میں 1967 میں پہلا الیکشن لڑنے کے بعد سے جموں خطے میں پارٹی کی یہ اب تک کی بدترین کارکردگی ہے۔
فیروز پورجھرکا سیٹ سے کانگریس لیڈر مامن خان نے بی جے پی امیدوار نسیم احمد کے خلاف سب سے زیادہ 98441 ووٹوں کے فرق سے جیت درج کی ہے۔ خان کو گزشتہ سال تشدد بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
لوک سبھا انتخابات 2024 میں ملنے والی برتری (دس میں سے پانچ سیٹ) کی وجہ سے کانگریس پُر اعتماد تھی۔ اس کے پاس کسانوں کی تحریک، پہلوانوں کی توہین اور اگنی پتھ اسکیم جیسے ایشوز بھی تھے، ووٹ کا فیصد بھی بڑھا، لیکن وہ اسے جیت میں تبدیل نہیں کر پائی۔
انتخابی میدان میں یہ فتح ونیش کی لڑائی کا خاتمہ نہیں ہے۔ یہ دراصل شروعات ہے۔ جن عزائم کے ساتھ انہیں ایک کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کو عروج پر خیرباد کہتے ہوئے سیاست کا رخ کرنا پڑا، ان کی تکمیل کی راہیں اب یہاں سے شروع ہوتی ہیں۔
کانگریس کی قیادت والی ہماچل پردیش حکومت نے ریاست کے تمام کھانے پینے کی دکانوں کو گراہکوں کے لیے ‘شفافیت’ کے نام پر اپنے مالکان کے نام اور پتے ڈسپلے کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وزیر وکرمادتیہ سنگھ نے کہا کہ یہ فیصلہ کسی دوسری ریاست سے متاثرہوکر نہیں لیا گیا ہے۔
ونیش اسٹیڈیم کو خیرباد کہہ کر ایک نئی راہ پر چل پڑی ہیں۔ ان سے پہلے بھی کھلاڑی سیاست میں آئے ہیں، لیکن ان سب نے اپنی مکمل پاری کھیلنے کے بعد پارلیامنٹ کا رخ کیا تھا۔ کیا ایک دم سے چنا گیا یہ راستہ ونیش کے لیے ثمر آور ہوگا؟
بی جے پی ایم پی کنگنا رناوت نے کہا تھا کہ سال بھر کی کسانوں کی تحریک کے بعد رد کیے گئے متنازعہ زرعی قوانین کو واپس لایا جانا چاہیے۔ بی جے پی نے خود کو ان کے تبصروں سے الگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کنگنا پارٹی کی جانب سے اس طرح کے بیان دینے کی ‘مجاز’ نہیں ہیں۔
پونے کی ایک کمپنی میں کام کرنے والی سی اے اینا سیبسٹین کی 20 جون کو دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی۔ ان کی ماں کا دعویٰ ہے کہ زیادہ دیر تک کام کرنے اور کام کے زیادہ دباؤ کی وجہ سے ایسا ہوا۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالجوں کو طالبعلموں کو اسٹریس مینجمنٹ سکھانا چاہیے۔
سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سربراہی والی کمیٹی کی سفارش پر مرکزی کابینہ نے ‘ون نیشن، ون الیکشن’ کی تجویز کو منظور کر لیا ہے۔ تاہم، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی بعض اہم سفارشات میں خامیاں ہیں۔
ہریانہ میں جولانا امیدوار ونیش پھوگاٹ کے عوامی اجلاس کے لیے بھلے ہی کانگریس نے ہریجن بستی کا انتخاب کیا تھا، لیکن جلسے کی تیاری کے لیے ہدایات برہمن دے رہے تھے اور دلت ان کی پیروی کر رہے تھے۔ مایاوتی کی بے عملی کے باوجود محروم سماج اب بھی اپنی قیادت بی ایس پی میں ہی تلاش کر رہا ہے اور سماجی انصاف کے کانگریس کے دعوے پر انہیں بھروسہ نہیں ہے۔
’ون نیشن، ون الیکشن‘ کی تجویز میں لوک سبھا، ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی گئی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ ناقابل عمل اور جمہوریت کے خلاف ہے۔
وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی سرکاری رپورٹ، پرائیویٹ اداروں کے جاری کردہ لیبر فورس کے اعداد و شمار اور روزگار بازار کے رجحانات سے اپوزیشن پارٹیوں، بالخصوص کانگریس کو یہ اعتماد ملا ہے کہ وہ بے روزگاری کا مسئلہ اٹھا کر بی جے پی کو اقتدار میں واپسی کرنے سے روک سکتی ہیں۔
کانگریس اگر ہندو بیلٹ میں بی جے پی کے رتھ کو روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا ٹرم مکمل کرنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔
بی جے پی نے آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کی اور بعد میں اس کو واپس لے لیا، کیوں کہ نئے امیدواروں اور حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے والے لوگوں کے انتخاب پر پرانے قائدین میں عدم اطمینان کی بات کہی جا رہی ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں خطے میں حقیقی امن قائم ہو سکے گا؟ ویسے تو مودی حکومت بغلیں بجا رہی ہے کہ اس نے کشمیر میں پچھلے پانچ سالوں میں امن قائم کیا ہوا ہے۔ مگر یہ قبرستان کی خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا منتخب انتظامیہ لوگوں کے حقوق، فلاح و بہبود اور عوامی شراکت پر پالیسی کو دوبارہ مرکوز کرکے سابق ریاست کے لوگوں کی بیگانگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے گی؟
مرکز میں حکمراں این ڈی اے کی اتحادی پارٹی جنتا دل (متحدہ) نے شروع میں وقف ترمیمی بل کی حمایت کی تھی۔ اس کے بعد سے ہی جے ڈی یو کے اندر عدم اطمینان کی بات کہی جا رہی ہے۔ اس سے قبل بی جے پی کی دیگر اتحادی جماعتوں، چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) اور آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرابابو نائیڈو کی تیلگو دیشم پارٹی نے بھی بل پر سوال اٹھائے تھے۔
مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ کی 20 ویں سالگرہ کے موقع پر کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے کہا کہ منریگا کے بجٹ میں کٹوتی کرکے حکومت اس اسکیم کے تحت کام کی مانگ کو دبانے کا کام کر رہی ہے۔
وقف ترمیمی بل کے توسط سے اس حکومت کا مسلم دشمن چہرہ ایک بار پھر سے بے نقاب ہو گیا ہے۔
جمعرات کو اپوزیشن کی جانب سے لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل کے خلاف شدید احتجاج دیکھنے کو ملا، جس کے بعد اسے جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی کے پاس بھیجے جانے کی تجویز پیش کی گئی۔
راجستھان کے سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے رواں تعلیمی سال میں ساورکر جینتی کے علاوہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کی یاد میں جشن کا اعلان کیا ہے۔ کانگریس نے کہا کہ یہ ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت اسکولی تعلیم پر سیاست کرنے کی کوشش ہے۔
راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ ‘ہم نے رام مندر تحریک کو ہرا دیا ہے، وہی لال کرشن اڈوانی نے جس کی قیادت کی تھی’، آئیڈیالوجیکل وارننگ ہے۔ اصل لڑائی اس نظریے سے ہے جس نے رام جنم بھومی تحریک کو جنم دیا۔ یعنی لڑائی آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے تصور سے ہے۔
موجودہ لوک سبھا میں مسلم ممبران پارلیامنٹ کی مجموعی تعداد پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ 2024 کے عام انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بنی بی جے پی میں فی الحال مسلم کمیونٹی کا کوئی پارلیامانی نمائندہ نہیں ہے۔ وہیں کانگریس کے مسلم ممبران پارلیامنٹ کی حصےداری میں اضافہ ہوا ہے۔
انٹرویو:امیٹھی لوک سبھا سیٹ کانگریس کے لیے اہم رہی ہے، جہاں سے اس بار پارٹی نے مقامی لیڈر کشوری لال شرما کو مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی کے خلاف غیر متوقع امیدوار کے طور پر کھڑا کیا تھا۔ شرما کہتے ہیں کہ یہ عوام کی لڑائی تھی اور جیت پارٹی کی نہیں عوام کی ہوئی ہے۔
جہاں بی جے پی ایس پی (اور کانگریس) کی جانب سے اتر پردیش میں دی گئی گہری چوٹ کو ٹھیک سے سہلا تک نہیں پا رہی، اس کے بہی خواہ دانشور اور تجزیہ کار مدعی سست گواہ چست کی طرز پر اس چوٹ کو معمولی قرار دینے کے لیے یکے بعد دیگرے ناقص اور بودی دلیل لا رہے ہیں۔
آزاد امیدوار اور خالصتان حامی کارکن امرت پال سنگھ نے کھڈور صاحب پارلیامانی حلقہ سے اور سربجیت سنگھ خالصہ نے فرید کوٹ (ریزرو) لوک سبھا سیٹ سے جیت درج کرکے پنجاب کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
ایگزٹ پول ایک فی الفور واقعہ ہوتا ہے، مثلاً آپ نے کس کو ووٹ دیا؟ کیوں ووٹ دیا؟ آپ کا تعلق کس برادری سے ہے؟ یہ سوال رفتہ رفتہ ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ نہیں کر پاتے۔ اتر پردیش میں ایسی ہی تبدیلیوں نے وزیر اعظم مودی کے ‘400 پار’ کے نعرے کی ہوا نکال دی۔
فیض آباد لوک سبھا سیٹ کے رائے دہندگان نے واضح طور پر جواب دیا ہے کہ وزیر اعظم کی پارٹی ایودھیا کی نمائندگی کرنے کی اہل نہیں ہے۔
چار جون کے بعد برسر اقتدار آنے والی پارٹی پر لازم ہے کہ مسلم آبادی کے لیے ایسے پروگرام تیار کرے، جس سے وہ بھی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ملک کی اقتصادیات میں اپنا حصہ ڈالیں۔
گراؤنڈ رپورٹ: 2020 میں فسادات کی زد میں آنے والے پارلیامانی حلقہ شمال-مشرقی دہلی کے رائے دہندگان منقسم ہیں۔ جہاں ایک طبقہ بی جے پی کا روایتی ووٹر ہے، وہیں کئی لوگ فرقہ وارانہ سیاست سے قطع نظر مقامی ایشوز پر بات کر رہے ہیں۔ یہاں بی جے پی کے منوج تیواری اور ‘انڈیا’ الائنس کے کنہیا کمار کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔
گزشتہ 13 مئی کو نیوز 18 کو دیے ایک انٹرویو میں نریندر مودی سے پوچھا گیا تھاکہ انہوں نے کیوں کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وہ رام مندر کے فیصلے کو پلٹ دے گی، تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا بیان نہیں ہے۔ تاہم، 7 مئی کو مدھیہ پردیش کے دھار میں ہوئے ایک انتخابی اجلاس کے ویڈیو میں وہ صاف طور پر یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ مودی کو چار سو سیٹیں اس لیے چاہیےکہ کانگریس ایودھیا کے رام مندر پر بابری تالہ نہ لگا دے۔
راجستھان میں نریندر مودی کی نفرت انگیز تقریر کی بڑے پیمانے پر تنقید کے بعد الیکشن کمیشن نے تقریباً ایک جیسے دو خط 25 اپریل کو بی جے پی اور کانگریس صدور – جے پی نڈا اور ملیکارجن کھڑگے کو بھیجے ہیں۔ کانگریس صدر کو ملا خط بی جے پی کی جانب سے راہل گاندھی کے خلاف درج کرائی گئی شکایت پر مبنی ہے۔
وزرائے اعظم کے انتخابی حلقوں کے رائے دہندگان وی آئی پی سیٹ کے گمان میں بھلے جیتے رہیں، لیکن اس سے ان کے سماجی و سیاسی شعور پر کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔ اور نہ ہی وزیر اعظم کی موجودگی ایسے علاقوں کے مسائل کو حل کر پاتی ہے۔
سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے 21 ریٹائرڈ ججوں نے سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ کو لکھے ایک خط میں بعض گروپوں کی طرف سے منصوبہ بند دباؤ اور غلط جانکاری کے ذریعے عدلیہ کو کمزور کرنے کی بڑھتی ہوئی کوششوں کے بارے میں بات کی ہے۔ کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے اس بارے میں کہا کہ عدالتی آزادی کو سب سے بڑا خطرہ بی جے پی سے ہے۔
ویڈیو: آئندہ 19 اپریل کو اروناچل پردیش میں لوک سبھا کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ تاہم، سی ایم پیما کھانڈو سمیت بی جے پی کے دس امیدوار ایسے ہیں جن کے انتخابی حلقوں میں ان کے خلاف کوئی پرچہ نامزدگی داخل نہیں کیا گیا ہے اور انہیں ووٹنگ سے پہلے ہی ‘جیتا’ ہوا مانا جا رہا ہے۔ کیا یہ جمہوریت میں عوام کے اپنے نمائندوں کے انتخاب کرنے کے حق کے لیے خطرہ ہے؟ ریاستی سیاست پر دی وائر کی سینئر صحافی سنگیتا بروآ پیشاروتی سے بات چیت ۔
گاندھی اور نہرو کا ماڈل ٹوٹ چکا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں نریندر مودی کے عروج کے ساتھ دلدل مزید گہری ہو گئی ہے۔ اگر کانگریس یا اس کے لیڈران واقعی ملک کو اس دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں یا اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو ان کو ہندوتوا نظریات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے سوشلسٹوں کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔
محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے کانگریس کو 1823 کروڑ روپے کا نوٹس بھیجے جانے کے بعد سی پی آئی نے کہا کہ اسے پرانے پین کارڈ استعمال کرنے کے لیے محکمہ سے نوٹس موصول ہوا ہے۔ وہیں، سی پی آئی (ایم) کو 2016-17 کے ٹیکس رٹرن میں بینک اکاؤنٹ کا اعلان نہ کرنے پر 15.59 کروڑ روپے کا وصولی نوٹس بھیجا گیا ہے۔
محکمہ انکم ٹیکس سے ملے حالیہ نوٹس پر کانگریس کا کہنا ہے کہ اگر یکساں پیرامیٹر استعمال کیے جائیں تو بی جے پی کے ذریعے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی 4617.58 کروڑ روپے کی بنتی ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس اور الیکشن کمیشن نے بی جے پی کی کوتاہیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور انہیں صرف کانگریس ہی نظر آ رہی ہے۔
کیجریوال کی گرفتاری پر بیان کے معاملے میں ہندوستان کے امریکی سفارت کار گلوریا بربینا کو طلب کرنے کے چند گھنٹے بعد ہی امریکہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ان کارروائیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور منصفانہ، شفاف، بروقت قانونی عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق بڑے جلسوں یعنی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہر جلسے پر 50 کروڑروپے کی لاگت آتی ہے، اس میں ان کی نقل و حمل کی لاگت شامل نہیں ہے، کیونکہ اس کا خرچہ ہندوستانی فضائیہ اور ان کی حفاظت پر مامور اسپیشل پروٹیکشن گروپ کو اٹھانا پڑتا ہے۔