خاتون کا الزام ہے کہ ان کی شادی سال 2019 میں جبراً کرائی گئی تھی۔انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ میکہ والوں کی طرف سے اس کے جنسی رجحان کا علاج کرانے کے لیے دباؤ بنایا جا رہا ہے۔
محمود پراچہ دہلی فسادات سے متعلق کئی معاملوں میں وکیل ہیں۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل ٹیم نےاس سے پہلے بھی دسمبر 2020 میں بھی پراچہ کے دفتر پر چھاپےماری کی تھی۔ اس دوران سرچ ٹیم نے ان کے کمپیوٹر اورمختلف دستاویزوں کو ضبط کرنے پر زور دیا، جن میں کیس کی تفصیلی جانکاری تھی۔
ویڈیو: شہریت قانون (سی اے اے )کے خلاف ہوئے احتجاج میں شامل صفورہ زرگر کو یواے پی اےکے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ گرفتاری اس وقت ہوئی تھی جب وہ حاملہ تھیں۔ اس کو لے کر ان کی گرفتاری پر سوال کھڑے ہوئے۔ صفورہ زرگر سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
دہلی فسادات کے ایک ملزم کے بیان سےمتعلق دستاویز لیک ہونے پر دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر آپ کے افسر نے اس کو لیک کیا تو یہ اختیارات کا غلط استعمال ہے اور اگر اسے میڈیا نے کہیں سے لیا ہے تو یہ چوری ہے۔ اس لیے کسی بھی صورت میں یہ جرم ہے۔
ویڈیو: ایک سال پہلے فرقہ وارانہ فسادات میں شمال-مشرقی دہلی میں جان ومال کا کافی نقصان ہوا تھا۔ تب دی وائر نے شیو وہار کے متاثرین سے اس موضوع پر بات کی تھی۔ ایک سال بعد انہی لوگوں سے دوبارہ بات چیت۔
گراؤنڈ رپورٹ: شمال – مشرقی دہلی کے موج پور علاقے میں پچھلے سال ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران تمام دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ دکانداروں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جتنے نقصان کا دعویٰ کیا تھا، اس سے کافی کم معاوضہ انہیں دیا گیا۔
خصوصی رپورٹ: سال 2020 کے دہلی فسادات کو لےکردی وائر کی سیریز کے پہلے حصہ میں جانیے ان ہندوتووادی کارکنوں کوجنہوں نےنفرت پھیلانے، بھیڑجمع کرنے اور پھر تشددبرپا کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
ویڈیو: دہلی فسادات کے ایک سال بعد بھی لوگ خوف میں جی رہے ہیں۔ فسادات میں ہوئے جان ومال کے نقصان کی بھرپائی ہو پانا ناممکن ہے۔ د ی وائر نے شیو وہار کے لوگوں سے بات کر کے ان کی پریشانی کو جاننے کی کوشش کی ۔
دہلی پولیس کے مطابق دنگے کو لےکرقل 755 کیس درج کیے گئے تھے، جس میں سے 400 معاملوں کو نمٹایا جا چکا ہے۔ اب تک 1753 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جس میں 933 مسلم اور 820 ہندو ہیں۔
گراؤنڈ رپورٹ:شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں میں متاثرہ موج پور،اشوک نگر جیسے علاقوں کے55 دکانداروں نے نقصان کی بھرپائی کے لیےکل 3.71 کروڑ روپے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن دہلی سرکار نے اس میں سے 36.82 لاکھ روپے کی ہی ادائیگی کی ہے۔ جودعوے کے مقابلے9.91 فیصدی ہی ہے۔
سال 2019 میں سابق سی جےآئی رنجن گگوئی پر سپریم کورٹ کی ایک اسٹاف نے جنسی استحصال کے الزام لگائے تھے جس کے بعد عدالت نے از خود نوٹس لیتے ہوئے انہیں پھنسانے کی کسی‘ گہری سازش ’ کی جانچ شروع کی تھی۔ اب اسے بند کرتے ہوئے کورٹ نے کہا کہ دو سال بعد جانچ کے لیے الکٹرانک ریکارڈ ملنا مشکل ہے۔
گزشتہ 10 فروری کو دہلی کے منگول پوری علاقے میں رنکو شرما نام کے نوجوان کا قتل کر دیا گیا تھا۔ اہل خانہ اور بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ رنکو رام مندر کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں حصہ لے رہے تھے، اس لیے ان کا قتل ہوا۔ حالانکہ پولیس کا کہنا ہے کہ کاروباری رنجش کی وجہ سے ہوئے جھگڑے کے بعد یہ واقعہ رونما ہونے کی بات سامنے آئی ہے۔
سپریم کورٹ نےاکتوبر 2020 میں اپنے فیصلے میں سی اے اے کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں تین مہینے سے زیادہ عرصےتک ہوئے احتجاج کو غیرقانونی بتاتے ہوئے اس کو ناقابل قبول بتایا تھا، جس کے خلاف کچھ کارکنوں نےنظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی، جس کو عدالت نے خارج کر دیا۔
ویڈیو: ملاقات اس نوجوان کسان سے جو سرکار سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرتا ہے، جو بھگت سنگھ کی بات کرتا ہے، جس کوامید ہے کہ معاشرےمیں برابری آئے گی ۔
دہلی کی ایک عدالت نے سماجی کارکن ہرش مندر کی جانب سے دائر اس شکایت پر دہلی پولیس کو کارروائی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے جس میں پچھلے سال فروری میں لوگوں کو دنگے کے لیےمبینہ طو رپر اکسانے کے الزام میں بی جے پی رہنما کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔
مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی کسان تنظیموں کی مانگ کی حمایت میں 26 جنوری کو کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ کے دوران بہت سے مظاہرین لال قلعہ تک پہنچ گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ایکٹر سے کارکن بنے دیپ سدھو نے وہاں ایک ستون پر مذہبی جھنڈا لگایا تھا۔
گزشتہ 26 جنوری کو دہلی میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران غیرمصدقہ خبریں شیئر/نشر کرنے کے الزام میں کانگریس رہنماششی تھرور،سینئر صحافی راجدیپ سردیسائی، مرنال پانڈےاور چار دیگر صحافیوں کے خلاف سیڈیشن کی دفعات میں معاملہ درج ہوا۔
ویڈیو: دہلی کے سنگھو بارڈر پر کسانوں کے احتجاج کو کور کر رہے آزاد صحافی مندیپ پنیا کو گزشتہ30 جنوری کو دہلی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ رہا ہونے کے بعد ان سے دی وائر کے سراج علی نے بات چیت کی۔
تہاڑ جیل میں آزاد صحافی مندیپ پنیا کو ایک کسان نے کہا،سرکار کو کیا لگتا ہےکہ وہ ہمیں جیل میں ڈال کر ہمارے حوصلے توڑ دےگی۔ وہ بڑی غلط فہمی میں ہے۔ شاید اس کو ہماری تاریخ کاعلم نہیں۔ جب تک یہ تینوں زرعی قوانون واپس نہیں ہو جاتے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
دسمبر2019 میں سی اے اے کے خلاف ایک احتجاج میں ہوئے جھڑپ کے بعد دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ کیمپس میں گھس کر لاٹھی چارج کیا تھا، جس میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ یونیورسٹی نے بنا اجازت کیمپس داخل ہونے اور طلباا ورسکیورٹی گارڈز پر حملے کے الزام میں پولیس پر ایف آئی آر درج کرنے کی عرضی دائر کی تھی۔
ڈیجیٹل میڈیا آزادآوازوں کی جگہ ہے اور اس پر ‘سب سے بڑے جیلر’ کی نگاہیں ہیں۔اگر یہی اچھا ہے تو اس بجٹ میں پردھان منتری جیل بندی یوجنا لانچ ہو، منریگا سے گاؤں گاؤں جیل بنے اور بولنے والوں کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ منادی کی جائے کہ جیل بندی یوجنا لانچ ہو گئی ہے،برائے مہربانی خاموش رہیں۔
جے این یو کے سابق اسٹوڈنٹ لیڈرعمر خالدنےالزام لگایا ہے کہ شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں میں ان کے خلاف بدنیتی کے ساتھ میڈیا مہم چلائی گئی۔ عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میڈیا رپورٹس میں ان کے ایک مبینہ بیان سے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انہوں نے دنگوں میں اپنی شمولیت کی بات قبول کر لی ہے۔ یہ غیرجانبدارانہ شنوائی کے ان کے حق کے تئیں تعصب ہے۔
شمال-مشرقی دہلی فسادات معاملوں میں یو اے پی اےکے تحت مقدمے کا سامنا کر رہے کئی ملزمین نے دعویٰ کیا کہ آرڈر کے باوجود جیل میں انہیں چارج شیٹ تک رسائی نہیں دی گئی۔ کچھ ملزمین نے دعویٰ کیا کہ اسے پڑھنے کے لیے انہیں مناسب وقت نہیں دیا گیا۔
گزشتہ سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئےتشددکے دوران گوکل پوری اوردیال پوری علاقوں میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ کے معاملوں کے تین ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے مقامی عدالت نے کہا کہ ان کے نام نہ ایف آئی آر میں ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی خصوصی الزام ہیں۔
ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے ذریعے کی گئی شناخت کا بہ مشکل کوئی مطلب ہے، کیونکہ بھلے ہی وہ واقعہ کے وقت علاقے میں تعینات تھے، پر انہوں نے ملزمین کا نام لینے کے لیے اپریل تک کا انتظار کیا، جبکہ انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ انہوں نے ملزمین کو 25 فروری 2020 کو دنگے میں مبینہ طور پر شامل دیکھا تھا۔
سال2021 میں جاتے ہوئے کیا ان سب سے نجات پانا ممکن ہوگا، جن میں ہم نے سال 2020 بتایا ہے؟
دہلی ہائی کورٹ نے دہلی دنگے کے دوران 23 سالہ فیضان کی موت کے معاملے میں عدالت کی نگرانی میں جانچ کی مانگ سےمتعلق عرضی پر دہلی سرکار اور کرائم برانچ کو نوٹس جاری کیا ہے۔ دنگوں کے دوران ایک ویڈیو میں کچھ پولیس اہلکار زمین پر فیضان سمیت کچھ زخمی نوجوانوں سے قومی ترانہ گانے کو کہتے دکھ رہے تھے۔ فیضان کی اسپتال میں موت ہو گئی تھی۔
سینئرایڈوکیٹ محمود پراچہ دہلی فسادات کے ملزمین کی عدالت میں پیروی کر رہے ہیں۔پراچہ کے اسسٹنٹ وکیلوں کا الزام ہے کہ پولیس کی یہ چھاپےماری تمام ریکارڈ اور دستاویز کو ضائع کرنے کی کوشش تھی۔
ویڈیو: سی اےاے، این آرسی اور لو جہاد کو لےکر مسلم مخالفت کی سیاست پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند سے دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کی بات چیت۔
دہلی پولیس نے لکھا ہے کہ عمر خالد سیکولرازم کا نقاب اوڑھ کر شدت پسندی کو بڑھاوا دیتا ہے۔آپ کو بھی یہی لگتا ہے تو کم سے کم یہ مطالبہ تو کر ہی سکتے ہیں کہ دہلی پولیس کے افسروں کو فلم ہدایت کار بن جانا چاہیے کیونکہ وہ لوگوں کے اندر چھپے اداکار کو پہچان لیتے ہیں۔
ویڈیو: اتر پردیش میں بھی 19 دسمبر 2019 کو شہریت قانون یعنی سی اے اے کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں اور شہری حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا تھا۔پرتشدد مظاہروں سے ریاست بھر میں 20 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے خلاف لکھنؤ کے گھنٹا گھر (حسین آباد)میں خواتین نے دھرنا شروع کر دیا۔ ان سے بات چیت۔
ویڈیو: حکومت ہند کی جانب سے لائے گئے شہریت قانون کی مخالفت11دسمبر 2019 سے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہوئی تھی۔ اس قانون کے پاس کیے جانے اور اس کی مخالفت کے ایک سال مکمل ہونے پر تحریک کی ضرورت اوراہمیت پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔
جے این یواسٹوڈنٹ یونین کے سابق رہنما عمر خالد کو شمال-مشرقی دہلی فسادات معاملے میں گزشتہ ستمبر میں گرفتار کیا تھا۔انہوں نے الزام لگایا کہ پچھلے تین دن سے دانت درد کی شکایت کے بعد بھی تہاڑ جیل انتظامیہ نے کوئی علاج مہیا نہیں کرایا ہے۔
ویڈیو:گزشتہ سال دسمبر میں شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہرہ کے بعد دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں گھس کر لاٹھی چارج کیا تھا، جس میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ وہیں ، ایک اسٹوڈنٹ کے ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی تھی۔
گزشتہ سال دسمبر میں شہریت قانون کے خلاف ہوئے مظاہرہ کے بعد دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں گھس کر لاٹھی چارج کیا تھا، جس میں تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ وہیں، ایک اسٹوڈنٹ کے ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی تھی۔
دہلی فسادات میں ملزم ایک شخص نے اپنے پڑوسیوں کے ذریعے ان کے گھر پر حملہ کرنے کاالزام لگایا تھا۔ پولیس نے ایسا کوئی جرم ہونے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ خود کو بچانے کے لیےملزم یہ الزام لگا رہا ہے۔
پانچ جنوری کو جے این یو کیمپس میں نقاب پوشوں کے ذریعے ہوئے حملے کے واقعات اور مقامی پولیس کی لاپرواہی کو لےکر بنی دہلی پولیس کی ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس دن کیمپس میں ماحول ٹھیک نہیں تھا، لیکن پولیس کی دخل اندازی کے بعد حالات قابو میں آ گئے تھے۔
معاملہ جنوب-مشرقی دہلی کا ہے، جہاں ایک کشمیری خاتون نے الزام لگایا ہے کہ ان کی غیرموجودگی میں مکان مالکن نے گھر میں گھس کر فرنیچر ہٹائے، پیسے اورسامان چوری کیا۔ساتھ ہی پولیس اہلکار کی موجودگی میں ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ معاملے میں دہلی ویمن کمیشن نے پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر بے قصور ہوگا تو اپنے آپ باہر آ جائےگا، ان کو میں کہہ دوں، کیوں نہ آپ کو سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے؟ کیوں نہ ملک کے ہر شہری کو 18سال کا ہوتے ہی سال بھر کے لیے جیل میں بند کر دیا جائے۔ ہم سب بے قصور ہیں، باہر آ ہی جائیں گے۔
مرکز اورریاستی سرکاروں میں کام کر چکےسابق ملازمین کے ایک گروپ‘کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ’کے زیر اہتمام بنی اس کمیٹی کےصدر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکر ہیں۔ یہ دہلی فسادات کے سلسلے میں سرکار، پولیس اور میڈیا کے رول کی بھی کی جانچ کرےگی۔