ویڈیو: کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے حوالے سے ٹی وی میڈیا میں تقریباً دو دہائی تک کام کر چکے دیاشنکر مشرا کی کتاب کے رسم اجرا کی تقریب میں دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کا اظہار خیال۔
ویڈیو: تقریباً دو دہائیوں تک ٹی وی میڈیا میں کام کرنے والے دیا شنکر مشرا کا کہنا ہے کہ کانگریس کے رکن پارلیامنٹ راہل گاندھی پر کتاب لکھنے کا ان کا فیصلہ جس صحافتی ادارے میں وہ کام کرتے تھے اسے پسند نہیں آیا، جس کی وجہ سے انہوں نے یہ نوکری چھوڑ دی۔ ان سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ میڈیا، جو جمہوریت کے سب سے زیادہ تسلیم شدہ اداروں میں سے ایک ہے، دلتوں، آدی واسیوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کو نہ صرف نیوز رومز میں نوکریاں دینے بلکہ ان کے ایشوز کو بھی جگہ دینے میں ناکام رہا ہے۔
اڈانی گروپ کے ذریعے این ڈی ٹی وی کی حصہ داری خریدنے کے بعد این ڈی ٹی وی انڈیا کے گروپ ایڈیٹر رویش کمار نے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو چونی سمجھنے والے جگت سیٹھ ہر ملک میں ہیں۔ اگر وہ دعویٰ کریں کہ وہ صحیح معلومات پہنچاناچاہتے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی جیب میں ڈالر رکھ کر آپ کی جیب میں چونی ڈالنا چاہتے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم ‘آکسفیم انڈیا’ اور نیوز ویب سائٹ ‘نیوز لانڈری’ کی جانب سے اپریل 2021 سے مارچ 2022 کی مدت کے لیےتیارکی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی دھارے کے کسی بھی میڈیا گھرانے میں ایس سی–ایس ٹی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد قائدانہ رول میں نہیں تھے۔
کیرالہ کی سابق وزیر صحت اور کمیونسٹ پارٹی آف مارکسسٹ کی سینئر لیڈر کے کے شیلجا نے کہا کہ انہوں نےاس ایوارڈکو لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اسے حاصل کرنے میں انفرادی طور پر کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔
یوپی، مدھیہ پردیش، گجرات اور اب دہلی میں بلڈوزر کا استعمال ہر دن کے جوش کو بنائے رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہندوؤں میں مسلمانوں کو اجڑتے، روتے، بدحواس دیکھنے کی پرتشدد خواہش بیدار کی جا رہی ہے۔ اب بی جے پی، میڈیا، پولیس اور انتظامیہ میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ ایک راستہ دکھا رہا ہے، ایک بلڈوزر کا قانون بتا رہا ہے، ایک ہتھیارکے ساتھ اس کو گھیرا دے کر چل رہا ہے، تو کوئی للکار رہا ہے۔
سیاست، ثقافت اور معاشرت ہر موضوع پر کمال باتیں کرتے تو اپنا الگ نقش چھوڑ جاتے۔ ان کی قصہ گوئی کا اندازمسحور کن تھا اور ان میں خبروں کو سونگھنے کی فطری صلاحیت تھی۔
سینئر صحافی اور این ڈی ٹی وی انڈیا کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کمال خان کاجمعہ کو لکھنؤ میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ وہ اپنی نفاست، شگفتہ بیانی، شائستہ گوئی اور زبان وبیان پرعبورکےلیے معروف تھے۔
دی وائر نے اپنی متعدد رپورٹ میں بتایا ہے کہ کس طرح اسرائیل واقع این ایس او گروپ کے تیار کردہ ملٹری گریڈاسپائی ویئر پیگاسس کا استعمال کرکے ہندوستان کے صحافیوں، کارکنوں، سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو نشانہ بنایا گیا۔
پولیس کی جانب سےیہ کارروائی سخت یو اے پی اے قانون کے تحت پچھلے سال درج ایک معاملے کو لےکر کی گئی ہے، جو کشمیر کے صحافیوں اور کارکنوں کو جان سے مارنے کی دھمکی سے متعلق ہے۔
انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر باربرا ٹرونفی نے کہا کہ دی وائر ہندوستان کے ڈیجیٹل نیوزکے شعبے میں آئی تبدیلی کا رہنما نام ہے ۔اس کی معیاری اورآزادانہ صحافت سے وابستگی دنیا بھر کے آئی پی آئی ممبران کے لیےباعث تحریک ہے۔
رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس نے پریس کی آزادی کو کنٹرول کرنے والے 37ممالک کے سربراہوں یاقائدکی فہرست جاری کی ہے، جس میں شمالی کوریا کے کم جونگ ان اور پاکستان کے عمران خان کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کا نام شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ سب وہ ہیں جو ‘سینسرشپ کا میکانزم بناکر پریس کی آزادی کو روندتے ہیں،صحافیوں کو من مانے ڈھنگ سے جیل میں ڈالتے ہیں یا ان کے خلاف تشددکو ہوا دیتے ہیں۔
دی وائر سے بات چیت میں دینک بھاسکر کی طرف سے کہا گیا، ہم اپنے فری لانس صحافی سدھارتھ راج ہنس کے دھوکےکا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے ہم سے جعل سازی کی ہے۔ہم ان کے خلاف قانونی قدم اٹھا رہے ہیں۔ ساتھ ہی فن لینڈ کے وزیر اعظم دفتر اورسفارت خانہ کو معافی نامہ بھی بھیج رہے ہیں۔
ایشیا کا نوبیل مانا جانے والا میگسیسے ایوارڈ رویش کمار کو ان کی صحافتی خدمات کے لیے دیا گیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ، دنیا صحت اور معاشی بنیادوں پر عدم مساوات کو دیکھتی ہے ، مگر اب وقت آگیا ہے کہ ہم علم کی بنیاد پر بھی عدم مساوات کودیکھیں ۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ: اس ویڈیو میں ہندوستانی معیشت کے 2013 اور موجودہ حالات پر رویش کمار کی رپورٹنگ کا موازنہ کیا گیا ہے اور ویڈیو کے آخری حصے میں کسی تیسری ویڈیو کی کلپ لگا دی گئی ہے۔
حکومت کی مداخلت یا انتظامیہ کے دباؤ کا الزام لگانا ایک کمزور بہانہ ہے-میڈیا پیشہ وروں نے خود ہی خود کو اپنے اصولوں سے دور کر لیا ہے۔ وہ بےآواز کو آواز دینے یا حکمراں طبقے سے جوابدہی کی مانگ کرنے والے کے طور پر اپنے کردارکو نہیں دیکھتے ہیں۔ اگر وہ خود سسٹم کا حصہ بن جائیںگے، تو وہ ان سے سوال کیسے پوچھیںگے؟
کیا ہے رویش کی طاقت؟ زمین پر لگے ان کے کان؟ وہ ہے! خبر کی پہچان؟ وہ تو ہے ہی! لیکن ان سب سے بڑھکر محنت! کسی موضوع پر بات کرنے کے پہلے اس کو سمجھنے کی خاکساری۔ سطحی پن سے جدو جہد! گہرائی میں جانے کی کوشش!
ویڈیو: صحافی رویش کمار کو سال 2019 کے ریمن میگسیسے ایوارڈ سے نوازا کیا گیا ہے۔ایشیا کا نوبیل مانا جانے والا میگسیسے ایوارڈ رویش کمار کو صحافت میں ان کے اہم رول کے لئے دیا گیا ہے۔ ایوارڈ فاؤنڈیشن نے ان کے پروگرام کو عام لوگوں سے جڑا بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آپ بےآوازوں کی آواز بنتے ہیں، تب آپ ایک صحافی ہیں۔
ایشیا کا نوبیل مانا جانے والا میگسیسے ایوارڈ رویش کمار کو صحافت میں ان کے اہم رول کے لئے دیا گیا ہے۔ ایوارڈ فاؤنڈیشن نے ان کے پروگرام کو عام لوگوں سے جڑا بتاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ بےآوازوں کی آواز بنتے ہیں، تب آپ ایک صحافی ہیں۔
ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں کچھ میڈیا ہاؤس کو سرکاری اشتہار نہ دینے کے مودی حکومت کے فیصلے پر سینئر صحافی راجیو رنجن ناگ، ستیہ ہندی ویب سائٹ کے مدیر آشوتوش اور دی وائر کے بانی مدیران میں سے ایک ایم کے وینو سے ارملیش کی بات چیت۔
مجموعی طور پر 2.6 کروڑ ماہانہ ر یڈرس والے تین بڑےاخبار گروپ کا کہنا ہے کہ مودی کے پچھلے مہینے لگاتار دوسری بار بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ان کے کروڑوں روپے کے اشتہارات کو بند کر دیا گیا۔
انوپم کھیر جیسے کچھ فنکار تختی لےکر میڈیا کو مدعا دیتے ہیں۔ ان کی تصویر اسکرین پر دکھاکر گھر بیٹھے لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا جاتا ہے۔ اس عمل میں مسلمان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جن کے ذہن میں یہ کچرا بھرا جاتا ہے ان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جا چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وسیع ہندو مفاد میں یہ ضروری ہے کہ تمام نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ کیونکہ چینلوں میں مذہب کے نام پر ہندوؤں سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
صحافیوں کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن رپورٹنگ کرتے وقت ان کو اس سے دور رہنا ہوتا ہے-کیونکہ رپورٹنگ ان کی حب الوطنی کا آئینہ نہیں ہے، بلکہ اپنے قارئین کے ساتھ پیشہ ورانہ ڈیل کا حصہ ہے۔
کیا آپ پبلک کے طور پر ان چینلوں میں پبلک کو دیکھ پاتے ہیں؟ ان چینلوں نے آپ پبلک کو ہٹا دیا ہے۔ کچل دیا ہے۔ پبلک کے سوال نہیں ہیں۔ چینلوں کے سوال پبلک کے سوال بنائے جا رہے ہیں۔
ہندوستان کے زیادہ تر صحافی آزاد نہیں ہیں بلکہ مالک کے انگوٹھے کے نیچے دبے ہیں۔ وہ مالک، جو سیاستدانوں کے سامنے سجدے میں رہتا ہے۔
2019 کا انتخاب عوام کے وجود کا انتخاب ہے۔اس کو اپنے وجود کے لئے لڑنا ہے۔جس طرح سے میڈیا نے ان پانچ سالوں میں عوام کو بے دخل کیا ہے، اس کی آواز کو کچلا ہے، اس کو دیکھکر کوئی بھی سمجھ جائےگا کہ 2019 کا انتخاب میڈیا سے عوام کی بے دخلی کا آخری دھکا ہوگا۔
ایک کامیاب اور مایہ نازصحافی ہونے کے باوجود آج کل کے اینکروں اور ایڈیٹروں کے برعکس ان میں تکبر کا شائبہ تک نہیں تھا۔
مدیران کا کام اقتدار کے لحاظ سےمواد کو بنائے رکھنے کا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ اقتدار کے موافق تشہیر کی ایک ہوڑ مچی ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ حالات یہ بھی ہو چلے ہیں کہ اشتہار سے زیادہ تعریف نیوز رپورٹ میں دکھائی دے جاتی ہے۔
ایمرجنسی کے دوران اس کی مخالفت کرنے کی وجہ سے جیل گئے ۔تقریباً 15کتابیں لکھنے والے کلدیپ نیئر تمام مؤقر اخباروں کے مدیر رہے۔
درخواست گزار نےمنسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کے ذریعے جاری اس سرکلر کا حوالہ دیا تھا جس میں مرکز اور ریاستی حکومتوں کو ‘ دلت ‘ لفظ کا استعمال کرنے سے بچنے کی صلاح دی گئی تھی۔
میڈیا مالک اخباروں اورنیوزچینلوں کی اصلاح کے لئے کچھ کریں یا نہ کریں، لیکن یہ تو طے ہے کہ جب تک ہرروز، ہر نیوزروم میں مزاحمت ہوتی رہے گی،تب تک ہندوستانی صحافت بنی رہےگی۔
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے حال ہی میں کئی صحافیوں پر حملے کی دھمکیوں اور سوشل میڈیا پر ان کے لئے نامناسب زبان کے استعمال کی پرزور مذمت کی ہے۔
کوبراپوسٹ کے اسٹنگ آپریشن میں ٹائمس گروپ کے ایم ڈی ونیت جین کہتے نظرآ رہے ہیں کہ ایک کارپوریٹ کے طور پر ہمیں غیر جانبدارا دکھنا ہے، مطلب دیکھنے میں غیر جانبدار لگنا چاہئے۔
کوبرا پوسٹ کے دوسرے حصے کو آج پریس کلب آف انڈیا میں جاری کیا جانا تھا۔ لیکن اس اسٹنگ آپریشن میں شامل میڈیاگروپ دینک بھاسکرنے دہلی ہائی کورٹ کی پناہ لے لی۔
خفیہ کیمرے کی مدد سے کئے گئے کوبراپوسٹ کے ’آپریشن 136 ‘میں ملک کے کئی مشہور میڈیا ہاؤس حکمراں جماعت کے لئے انتخابی ہوا تیار کرنے کو راضی ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
شور کے اس دور میں سمجھ دار، خاموش لیکن نیلابھ جیسی توانا آواز کا خاموش ہو جانا بہت بڑا خسارہ ہے لیکن زندگی میں لطف لینے اور اس کو قبول کرنے والے دوست کا نہ رہنا جو شکایتی نہ ہو، زیادہ بڑا نقصان ہے۔
ورلڈ اکانومک فورم کے اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جو کچھ کہا وہ سب وہ تین سال سے بول رہے ہیں۔ آپ کو برا لگےگا لیکن آپ وزیر اعظم کی تقریر میں ہندوستان کی وضاحت دیکھیںگے تو وہ دسویں کلاس کے مضمون سے زیادہ کا نہیں ہے۔
جن گن من کی بات کے اس ایپی سوڈ میں سنیے میڈیا میں غیر ضروری موضوعات کی رپورٹنگ پر ونود دوا کا تبصرہ
عالمی ادارہ رپورٹرس وداؤٹ بارڈرس کا کہنا ہے کہ 2015 سے اب تک حکومت کی تنقید کرنے والے نو صحافیوں کا قتل کر دیا گیا۔ نئی دہلی : میڈیا اور صحافیوں کی آزادی پر نگرانی رکھنے والے عالمی ادارہ رپورٹرس وداؤٹ بارڈرس کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں […]