ویڈیو: دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے کام کرنے کے انداز پر کئی سوال اٹھائے۔
صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنےان کےایک وزیر اور گوا کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بدعنوانی کے معاملات اٹھائے تھے، جن پر انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے بجائے آناً فاناً میں ان کا تبادلہ کر کے میگھالیہ بھیج دیا۔
دی وائر کو دیےایک انٹرویو میں جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے کام کرنے کے طریقے پر کئی سنگین سوال اٹھائے۔
ہندوستان میں ایم پی اور ایم ایل اے بننے کے لیے کسی قسم کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایم پی اور ایم ایل اے اپنے انتخابی حلف نامے میں فرضی ڈگری پیش کریں تو یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ نریندر مودی کی ڈگری سے متعلق گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ اسی طرح کے خدشات اور شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ دنوں اپوزیشن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘جب کورٹ کوئی فیصلہ سناتا ہے تو کورٹ پر سوال اٹھایا جاتا ہے…(کیونکہ) کچھ پارٹیوں نے مل کر بھرشٹاچاری بچاؤ ابھیان (بدعنوانی کرنے والے کو بچانے کی مہم)چھیڑا ہوا ہے۔’ تاہم یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ جمہوریت کا کوئی بھی تصور ‘عدالت پر سوالوں’ سے منع نہیں کرتا۔
راہل گاندھی کی رکنیت ختم ہونے کے بعد سے بننے والے ماحول میں کانگریس اس نئی اور مثبت شبیہ کی مدد سے صرف اپنے آپ کو اور مضبوط کر سکتی ہے۔ ملک کی سب سے پرانی پارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کے لیے جگہ بنائے اور کسی بھی اپوزیشن محاذ میں خود کو مرکزی رول دیے جانے کے مطالبے کو آڑے نہ آنے دے۔
ویڈیو: بھوپال گیس سانحہ کے بعد کے سالوں میں متاثرین کی تعداد میں اضافہ اور گیس کے سنگین مضر اثرات کو دیکھ کر سال 2010 میں اس وقت کی مرکزی حکومت نے اضافی معاوضے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ حال ہی میں، سپریم کورٹ نے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا۔بھوپال کے گیس متاثرین کی تنظیمیں بھی اس معاملے میں فریق تھیں، اس فیصلے کے حوالے سے ان کے نمائندوں سے بات چیت۔
دستور ساز اسمبلی میں آئین کا پہلا مسودہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ،’ایک نوزائیدہ جمہوریت کے لیےعین ممکن ہے کہ وہ جمہوریت کا ملمع بنائے رکھے، لیکن درحقیقت آمریت میں تبدیل ہوجائے۔’جب مودی کی انتخابی جیت کو جمہوریت،ان سے سوال یا اختلاف کرنے والوں کو ملک کا دشمن کا بتایا جاتا ہے ، تب ڈاکٹر امبیڈکر کی تنبیہ درست ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔
ویڈیو: احمد آباد میں ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان بارڈر-گاوسکر ٹرافی کے چوتھے میچ سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے آسٹریلوی ہم منصب کے ساتھ اپنے نام سے منسوب اسٹیڈیم پہنچے تھے۔ مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے 130000 کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں میچ کے پہلے دن کے لیے 80000 ٹکٹ خریدے تھے۔
احمد آباد میں ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان چوتھے بارڈر-گواسکر ٹرافی میچ سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے آسٹریلیائی ہم منصب کے ساتھ اپنے ہی نام والے اسٹیڈیم کا چکر کاٹا، جہاں بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ نے مودی کو انہی کی تصویر پیش کی۔ مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق، 130000کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں میچ کے پہلے دن کے 80000 ٹکٹ بی جے پی نے خریدے تھے۔
مغربی دنیا بشمول امریکہ کو احساس ہے کہ ہندوستان میں جمہوری قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے، مگر یہ اس وقت چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اہم مہرا ہے، اس لیے اس کو پریشانی سے بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے بڑی حد تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
سخن ہائے گفتنی: ایک مسلمان وہ نہیں کہہ سکتا جو ایک ہندو کہہ سکتا ہے؟ ایک کشمیری وہ نہیں کہہ سکتاہے جو دوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں۔آج یکجہتی، بھائی چارہ اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے ،لیکن ایسا کرنا نہایت خطرناک اور جان جوکھم میں ڈالنے کی طرح ہے ۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں بی بی سی ڈاکیومنٹری کی نشریات کے بعد ادارے کے دفتر پہنچے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور صنعتکار گوتم اڈانی کے کاروبارکے سلسلے میں سوال اٹھانے والی ہنڈن برگ رپورٹ سے متعلق تنازعہ پردہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کی بات چیت۔
مودی حکومت کی جانب سے پریس کی آزادی اور جمہوریت پر جاری حملوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے، لیکن تازہ ترین حملے سے پتہ چلتا ہے کہ پریس کی آزادی ‘مودی سینا’ کی مرضی کی غلام بن ہو چکی ہے۔
بی بی سی ہنڈن برگ معاملے کو ہندوستانی میڈیا اس طرح پیش کر رہا ہے کہ یہ ہندوستان کےٹوین ٹاورز پر کسی حملے سے کم نہیں ہے۔ یہ ٹوین ٹاور ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی اور ہندوستان کے سب سے بڑے صنعت کار گوتم اڈانی۔ ان دونوں پر لگائے گئے الزامات ہلکے نہیں ہیں۔
بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر میں محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کئی میڈیا اداروں نے اسے صحافتی اداروں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کا غلط استعمال قرار دیا ہے۔
بی بی سی کے دہلی اورممبئی واقع دفاتر میں یہ کارروائی 2002 کے گجرات فسادات میں نریندر مودی کے کردار اور ہندوستان میں اقلیتوں کی صورتحال پر دو حصوں پر مشتمل ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کے نشر ہونے کے چند ہفتوں بعد ہوئی ہے۔ اس ڈاکیومنٹری پر حکومت ہند نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ویڈیو: آر جے ڈی ایم پی منوج جھا نے بجٹ اجلاس کے دوران راجیہ سبھا میں مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کی تقریر۔
راہل گاندھی نے اڈانی گروپ سے جڑے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئےلوک سبھا میں وزیر اعظم نریندر مودی پر سخت حملہ کیا اور کہا کہ اس سرکار کے دوران اصولوں کو بدل کر اڈانی گروپ کو ہوائی اڈوں کے ٹھیکے دیے گئے اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کے بعد دوسرے ممالک میں بھی اس صنعت کار کو کئی تجارتی ٹھیکےملے۔
گزشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل پولیس اور انسپکٹر جنرل کی میٹنگ میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے بھی شرکت کی تھی۔ یہاں ریاستوں کے سب سے بڑے پولیس افسران خبردار کر رہے تھے کہ ہندوتوا دی ریڈیکل تنظیمیں ملک کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ تاہم جیسے ہی یہ خبر باہر آئی، اس رپورٹ کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
بی بی سی ڈاکیومنٹری سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ پر ہندوستانی حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کو 500 سے زیادہ ہندوستانی سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے ملک کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے نقصاندہ بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکیومنٹری پر روک لگانا ہندوستانی شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
وزیر مملکت برائے امور خارجہ وی مرلی دھرن نے راجیہ سبھا کو بتایا کہ حکومت نے 2019 سےصدر کے دورے کے لیے تقریباً 6.25 کروڑ روپے، وزیر اعظم کے دورے کے لیے 22.76 کروڑ روپے اور وزیر خارجہ کے دورے کے لیے 20.87 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔ صدر نے آٹھ غیر ملکی دورے کیے، جبکہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے 86 غیر ملکی دورے کیے ہیں۔
گجرات دنگوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کے رول پر بنی بی بی سی ڈاکیومنٹری کے خلاف اوورسیز انڈین کمیونٹی کے بڑے پیمانے پر احتجاج کےمدنظر برطانوی وزیر اعظم رشی سنک کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس بات پر زور دینا چاہیں گے کہ ہم ہندوستان کو ناقابل یقین حد تک اہم بین الاقوامی شراکت دارتسلیم کرتے ہیں۔
امریکہ کےنیشنل پریس کلب نےاپنے بیان میں ہندوستانی حکومت سے بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ سے پابندی ہٹانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہندوستان ‘پریس کی آزادی کو تباہ کرنا جاری رکھتا ہے’ تو وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر اپنی پہچان کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے کہا کہ اگر کسی کو کسی فلم سے کوئی مسئلہ ہے تو اسے متعلقہ سرکاری محکمے سے بات کرنی چاہیے جو فلمسازوں کے ساتھ متعلقہ مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔ بعض اوقات ماحول کو خراب کرنے کے لیے کچھ لوگ اسے پوری طرح جاننے سے پہلے ہی اس پر تبصرہ کر دیتے ہیں۔
ہندوستان میں گجرات دنگوں میں نریندر مودی کے رول سےمتعلق بی بی سی ڈاکیومنٹری کے ٹیلی کاسٹ کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت کی ہر ممکن کوشش کے باوجود جمعرات کو ملک میں کم از کم تین جگہوں- ترواننت پورم میں کانگریس اورکولکاتہ اور حیدرآباد میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا نے اس کی اسکریننگ کا اہتمام کیا۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں گجرات دنگوں کے حوالے سے برطانوی حکومت کی غیرمطبوعہ تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے نریندر مودی کو تشدد کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد منصوبہ بندتھا اور گودھرا کے واقعہ نے صرف ایک بہانہ دے دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی اور بہانہ مل جاتا۔
غیرت نہایت ہی غیر ضروری اور فضول شے ہے۔ اس کے بغیر انسان بنے رہنا بھلے مشکل ہو، غیرت کے ساتھ وائس چانسلر بنے رہنا ناممکن ہے۔ جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وی سی وقتاً فوقتاً اس کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔
بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی دوسری اور آخری قسط منگل کو برطانیہ میں نشر کی گئی۔ اس میں بی جے پی حکومت کے دوران لنچنگ کے واقعات میں ہوئے اضافہ، آرٹیکل 370 کے خاتمہ، سی اے اے اور اس کے خلاف مظاہروں اور دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے اطلاعات و نشریات کے سکریٹری کی طرف سے آئی ٹی رول 2021 کے رول 16 کا استعمال کرتے ہوئے گجرات فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے رول کو اجاگر کرنے والی بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو بلاک کرنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
انٹرنیٹ آرکائیودنیا بھر کے صارفین کے ذریعےویب پیج کے مجموعوں اور میڈیا اپ لوڈ کا ایک ذخیرہ ہے۔ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی پہلی قسط کے بارے میں اس کی ویب سائٹ پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے کہ ‘یہ مواد اب دستیاب نہیں ہے’۔
دی ہندو کے سابق ایڈیٹراین رام نے مودی حکومت کی جانب سے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو سوشل میڈیا پر بلاک کرنے کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہندوستان کا قومی سلامتی اور عوامی نظام اتنا نازک ہے کہ اسے ایک ایسی ڈاکیومنٹری سے خطرہ ہے جو ملک میں نشر نہیں ہوئی ہےاور یوٹیوب/ٹوئٹر تک رسائی رکھنے والی بہت کم آبادی نے اس کو دیکھا ہے۔
برطانیہ میں نشر ہونے والی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں بی بی سی نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت کی خفیہ تحقیقات میں نریندر مودی گجرات دنگوں کے لیے ذمہ دار پائے گئے تھے۔ اس ڈاکیومنٹری کے سامنے آنے کے بعد 2002 میں برٹن کے سکریٹری خارجہ رہے جیک سٹرا کے ساتھ کرن تھاپر کی بات چیت۔
برطانیہ میں نشر ہونے والی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں بی بی سی نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت کی خفیہ تحقیقات میں نریندر مودی گجرات دنگوں کے ذمہ دار پائے گئے تھے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اسے ‘پروپیگنڈہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں تعصب ہے،غیرجانبداری کا فقدان ہے اور نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی ہے۔
بی بی سی نے برطانیہ میں ‘انڈیا: دی مودی کویشچن’ کے نام سے ایک ڈاکیومنٹری نشر کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سےکروائی گئی گجرات دنگوں کی جانچ (جو آج تک غیر مطبوعہ رہی ہے) میں نریندر مودی کو براہ راست تشدد کے لیے ذمہ دار پایا گیا تھا۔
بی جے پی کی قومی ایگزیکٹو میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ پارٹی کارکنوں کو فلموں اور نامور شخصیات کے خلاف غیر ضروری تبصرہ کرنے سےگریز کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان بھوپال کی رکن پارلیامنٹ سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا سمیت بی جے پی کے کچھ سرکردہ رہنماؤں کی جانب سے شاہ رخ خان کی آنے والی فلم ‘پٹھان’ کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کے درمیان آیا ہے۔
مرکزی حکومت نے 2016 میں 1000 اور 500 روپے کے نوٹوں کو چلن سے باہر کر دیا تھا۔ اس فیصلے کا ایک اہم مقصد جعلی نوٹوں کے مسئلے کو ختم کرنا تھا۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق، ملک میں 2016 سے 2021 کے درمیان 245.33 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ ضبط کیے گئے۔ 2020 میں سب سے زیادہ 92.17 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔
نوٹ بندی پر اکثریت سے الگ اپنے فیصلے میں جسٹس بی وی ناگ رتنا نے مودی حکومت کے اس قدم پر کئی سوال اٹھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بجائے پارلیامنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آر بی آئی نے اس بارے میں آزادانہ طور پر غوروفکرنہیں کیا اور پوری قواعد 24 گھنٹے میں پوری کی گئی۔
ایک میڈیا رپورٹ میں نوٹ بندی کے فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ رہے اہلکار کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے سینٹرل بورڈ میں اس موضوع پر ڈھنگ سے تبادلہ خیال نہیں کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سوموار کو مودی حکومت کے 2016 میں لیے گئے نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف دائر کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے اس فیصلے کو 4:1 کی اکثریت سے درست قرار دیا تھا۔
مودی حکومت کے 2016 میں نوٹ بندی کے فیصلے کے خلاف کئی عرضیوں کی سماعت کر رہی سپریم کورٹ کی بنچ نے اسے جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ نوٹ بندی کا مقصد کالا بازاری ،ٹیرر فنڈنگ وغیرہ کو ختم کرنا تھا، یہ بات غیر متعلق ہے کہ ان مقاصد کو حاصل کیا گیایا نہیں۔