الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں فی سیٹ اوسطاً 2 فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس بار جن 19 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے تھے، وہاں اس کا ووٹ فیصد بڑھ کر اوسطاً 6.76 فیصد ہو گیا۔
انتخابات کے دوران آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے تیسرے محاذ کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں، لیکن نتائج منفی رہے اور بی جے پی کے ‘پراکسی’ بتائے جا رہے ان میں سے کئی امیدواروں کے لیے ضمانت بچانا بھی مشکل ہوگیا۔
کانگریس نے جس طرح جموں خطے میں بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا، اس سے لگتا تھا شاید ان میں کوئی ملی بھگت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران خود عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ کانگریس جموں کے ہندو بیلٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وادی کشمیر اور جموں کے مسلم بیلٹ میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کررہی ہے۔
ویڈیو: جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کو تبدیلی کی ہوا کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن کیا یہ ریاست کے حالات میں کوئی تبدیلی لا پائیں گے؟ اس بارے میں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج اور نیوز لانڈری کی منیجنگ ایڈیٹر منیشا پانڈے کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
کشمیر اسمبلی انتخابات میں جماعت اسلامی کی آمد نے نئی الجھنیں پیدا کر دی ہیں۔
اندرونی سروے بی جے پی کو بارہ سے بیس کے درمیان ہی سیٹیں ملنے کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کانگریس اس خطے میں جی توڑ محنت کر کے انتخابات لڑتی ہے، تو بی جے پی کا صفایا بھی ہوسکتا ہے۔ وہیں، موجودہ تناظر میں اگر کشمیر کی درجن سے کم سیٹوں پر بھی انجینئر رشید کوئی کارکردگی دکھاتے ہیں تو وہ اگلی حکومت میں کنگ میکر کا رول ادا کر سکتے ہیں۔
جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی اچانک انتخابی میدان میں کود پڑا ہے۔ اس نے 1987 کے اسمبلی انتخابات کے بعد کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ اس لیے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔
ان انتخابات نے کم سے کم انجینئر کو دوبارہ زندہ کرکے کشمیر بھر میں ایک مقبول سیاست دان بنا دیا ہے، اور اس پیچیدہ سیاسی صورتحال میں انجینئر کی اس جیت نے جہاں امیدیں جگائی ہیں، وہیں اندیشے بھی پیدا کیے ہیں۔ اگر وہ ایسی تبدیلی لاسکیں، جہاں صاف و شفاف انتظامیہ کے علاوہ وہ نظریات سے بالاتر سبھی جماعتوں کو ایک متوازن سیاسی اور جمہوری فضا میسر کروا پائیں، توان کا آنا مبارک ہے۔
ایک دہائی بعد جموں و کشمیر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے جیل سے لوک سبھا کا انتخاب جیتنے والے انجینئر رشید کی ضمانت پراندازہ لگایا جا رہا ہے کہ رشید کی عوامی اتحاد پارٹی بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی پراکسی ہے۔
بک ریویو: تحریک کے ساتھ ہی تحریکوں کو دستاویزی پیرہن عطا کرنا ایک اہم اور ذمہ دارانہ کام ہے۔ صحافی مندیپ پنیا نے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کے سفر کو تخلیقی انداز میں حقائق کے ساتھ پیش کرکے اس سمت میں کوشش کی ہے۔
سی بی آئی نے سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کے بیٹے اور لوک سبھا ایم پی کارتی چدمبرم کے خلاف 250 چینی شہریوں کو ویزا دلانے کے لیے 50 لاکھ روپے کی رشوت لینے کے الزام میں ایک نیا مقدمہ درج کیا ہے۔ ایجنسی نے کارتی کے چنئی اور دہلی واقع ان کی رہائش گاہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ان کے دس ٹھکانوں پر چھاپے ماری کی۔ ایک ٹیم دہلی میں لودھی اسٹیٹ واقع کارتی کے والد پی چدمبرم کی سرکاری رہائش گاہ پر بھی پہنچی۔
کیا یہ صحیح وقت نہیں ہے کہ ملک میں پولیس سسٹم اور نظام عدل کو لےکر سوال اٹھائے جائیں؟
ویڈیو: ملاقات اس نوجوان کسان سے جو سرکار سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سوال کرتا ہے، جو بھگت سنگھ کی بات کرتا ہے، جس کوامید ہے کہ معاشرےمیں برابری آئے گی ۔
مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کی کسان تنظیموں کی مانگ کی حمایت میں 26 جنوری کو کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ کے دوران بہت سے مظاہرین لال قلعہ تک پہنچ گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ایکٹر سے کارکن بنے دیپ سدھو نے وہاں ایک ستون پر مذہبی جھنڈا لگایا تھا۔
گزشتہ 26 جنوری کو دہلی میں کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران غیرمصدقہ خبریں شیئر/نشر کرنے کے الزام میں کانگریس رہنماششی تھرور،سینئر صحافی راجدیپ سردیسائی، مرنال پانڈےاور چار دیگر صحافیوں کے خلاف سیڈیشن کی دفعات میں معاملہ درج ہوا۔
ویڈیو: دہلی کے سنگھو بارڈر پر کسانوں کے احتجاج کو کور کر رہے آزاد صحافی مندیپ پنیا کو گزشتہ30 جنوری کو دہلی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔ رہا ہونے کے بعد ان سے دی وائر کے سراج علی نے بات چیت کی۔
تہاڑ جیل میں آزاد صحافی مندیپ پنیا کو ایک کسان نے کہا،سرکار کو کیا لگتا ہےکہ وہ ہمیں جیل میں ڈال کر ہمارے حوصلے توڑ دےگی۔ وہ بڑی غلط فہمی میں ہے۔ شاید اس کو ہماری تاریخ کاعلم نہیں۔ جب تک یہ تینوں زرعی قوانون واپس نہیں ہو جاتے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے رمضان کے معمولات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ مساجد میں اذانیں تو ہو رہی ہیں، مگر آپ نماز اور افطار کے لیے باہر نہیں جاسکتے ہیں۔لاک ڈاؤن سے یقیناًکائنات کی رنگینیاں پھیکی پڑ گئی ہیں، مگر گھروں کے اندر کا رمضان پھر بھی تہاڑ جیل کے روزوں سے بدرجہا بہتر ہے۔
کورونا وائرس وبا کے مدنظر دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے دو وکیلوں نے جیلوں میں بھیڑ کم کرنے کی مانگ کی تھی اور کہا تھا کہ 5200 قیدیوں کی صلاحیت والی تہاڑ جیل میں 12100 سے زیادہ قیدیوں کو رکھا گیا ہے اور ملک میں زیادہ تر جیلوں کی ٹھیک ایسی ہی حالت ہے۔
آئی این ایکس میڈیا معاملےمیں چدمبرم کو سب سے پہلے سی بی آئی نے 21 اگست کو گرفتار کیا تھا۔ وہ گزشتہ 105 دنوں سے جیل میں بند ہیں۔
دہلی ہائی کورٹ نے ای ڈی کے ذریعے درج آئی این ایکس میڈیا منی لانڈرنگ معاملے میں چدمبرم کو ضمانت دینے سے گزشتہ جمعہ کو انکار کر دیا تھا۔
آئی این ایکس میڈیا منی لانڈرنگ معاملے میں دہلی کی ایک عدالت نے ای ڈی کو سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم سے پوچھ تاچھ کرنے اور گرفتار کرنے کی اجازت دی تھی۔ حالانکہ، عدالت نے ای ڈی کو چدمبرم سے راؤز ایونیو عدالت کے احاطے میں پوچھ تاچھ کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عوامی طور سے گرفتار کرنا ان کی عزت کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔
خاتون قیدی کا الزام ہے کہ یہ واقعہ مبینہ طور پر تین اگست کو نندن کانن ایکسپریس کے سلیپر کوچ میں اس وقت ہوا، جب ان کو مغربی بنگال کے مرشدآباد سے عدالتی شنوائی کے بعد دہلی لایا جا رہا تھا۔
انسداد دہشت گردی کے نام پر پچھلی کئی دہائیوں سے ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے جو کھیل کھیلا ہے، اس کی وجہ سے لاتعداد مسلم نواجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئی ہیں۔ برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہنے اور اس دوران مسلسل اذیت سے گذرنے کے بعد ان میں سے اکثر ملزمین کو عدالتوں نے بے قصور قرار دے کر رہا کردیاہے۔
قیدی نے بتایا کہ نوراتری میں اس کو جبراً بھوکا رکھا گیا اور مذہب تبدیل کر کے ہندو بنانے کی دھمکی بھی دی گئی۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ جموں و کشمیر جیل میں مقامی قیدیوں کو ورغلاتے ہیں ۔
عام مغالطہ یہ ہے کہ اقتدار کے لالچ میں جارج فرنانڈیز این ڈی اے سے چپکے رہے؛ لیکن اس معاملے میں اندرا گاندھی والی کانگریس سے ان کی دائمی مخاصمت کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔
آج کے ہندوستان میں شاید ہی کوئی تصور کرسکے کہ کونکنی بولنے والا جنوب کا ایک عیسائی اس حد تک سیاست پر اثر انداز ہوسکے کہ وہ بمبئی میں طاقتور کانگریسی لیڈروں کا تختہ پلٹ دے اور پھر آٹھ بار مسلسل بہار جیسے صوبہ سے لوک سبھا کی نمائندگی کرے۔
سپاہیوں،سزا یافتہ اور پرانے زیر سماعت قیدیوں کی فوج نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے خوب تواضع کی۔عمران خان نے کپل دیو کی گیندوں پر جب جب چھکے اور چوکے لگائے تھے یا جب سنیل گواسکر کو آؤٹ کیا تھا، اس کی یاد دہانی کرواکے ڈنڈے برس رہے تھے۔
دہلی کی تہاڑ جیل کی مہمان نوازی کا مجھے بھی براہ راست تجربہ ہے۔ جیل کے عملہ کا رویہ بھی فلم کے جیلر سے مختلف نہیں ہے، جس کا مشہور مکالمہ تھا:”ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو قیدیوں کو سدھارنے […]