مونی اماوسیہ کے دن بھگدڑ میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ لیکن اب اس واقعہ کے دو ماہ بعد بھی سوگوار خاندان اتر پردیش حکومت کی جانب سے اعلان کیے گئے 25 لاکھ روپے کے معاوضے کا انتظار کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں میرٹھ کی آئی آئی ایم ٹی یونیورسٹی کے تقریباً 50 طلباء کیمپس میں ایک کھلے میدان میں نماز ادا کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے، جس کے بعد ہندوتوا گروپوں نے قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک طالبعلم کو حراست میں لیا گیا تھا، جس کے خلاف دیگر طلباء احتجاج کر رہے ہیں۔
ڈی ایم نے دعویٰ کیا ہے کہ چندوسی قصبے میں معائنہ کے دوران 33 مکان اور ایک مسجد سمیت کل 34 ڈھانچے غیر قانونی پائے گئے ہیں۔ یہ اراضی میونسپل کی ہے، یہ بغیر کسی ملکیت کے غیر قانونی طور پر رجسٹرڈ ہے، انہیں قانون کے مطابق گرایا جا سکتا ہے۔
گورکھپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے شہر کے میواتی پور محلہ میں واقع مسجد کو یہ الزام لگاتے ہوئے منہدم کرنے کا فرمان جاری کیا ہے کہ یہ نقشہ منظور کرائے بغیر تعمیر کی گئی تھی۔ تاہم، مسجد فریق کے وکیل کا کہنا ہے کہ محکمہ شہری ترقی کی ہدایت کے لحاظ سے 100 مربع میٹر تک کی اراضی پر تعمیرات کے لیے نقشے کی ضرورت نہیں ہے۔
سی پی سی بی کی جانب سے این جی ٹی کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گنگا ندی کا پانی اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ اب یہ ڈبکی لگانے کے قابل نہیں ہے۔ اس تلخ سچائی کی تردید کرنے والا یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان حقائق سے چشم پوشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
گزشتہ 9 فروری کو کشی نگرضلع کے ہاٹا قصبے کی مدنی مسجد کے ایک حصے کو ضلع انتظامیہ نے تجاوزات قرار دیتے ہوئے بلڈوزر سے توڑ دیا۔ مسجد کمیٹی کے حاجی حامد خان نے انتظامیہ کی کارروائی کو یکطرفہ بتاتے ہوئے کہا کہ جھوٹ کا سہارا لے کر مسجد کوتوڑا گیا ہے۔
کشی نگرضلع کے ہاٹا قصبے کی مدنی مسجد کے ایک حصے کو تجاوزات قرار دیے جانے کا الزام تھا۔ سنیچر کو عدالت کا اسٹے آرڈرختم ہونے کے بعد اتوار کو اسے توڑ دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے کشی نگر کے ڈی ایم کو قانونی نوٹ بھیجتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔
سنبھل کے کھگگو سرائے میں ‘دریافت کیے گئے’ مندر کے قریب رہنے والے مسلم خاندان کے مطابق، انتظامیہ ان کے گھر کو گرانا چاہتی ہے، کیونکہ یہ مندر کی پری کرما (طواف) میں رکاوٹ ہے۔ متاثرہ خاندان کے احتجاج کرنے پر پولیس نے گھر کے مالک محمد متین کو 16 جنوری کو گرفتار کر لیا تھا۔
سنبھل پولیس نے بتایا کہ انتظامیہ نے مقامی لوگوں کے ذریعے کنویں کو غیر قانونی طور پرڈھکنے کی شکایت موصول ہونے کے بعد بدھ (22 جنوری) کو کنویں کی کھدائی شروع کی ہے۔ یہ کنواں متنازعہ شاہی جامع مسجد کے قریب ہے۔
سنبھل کی شاہی جامع مسجدسے ملحقہ زمین خالی ہوا کرتی تھی۔ تشدد کے بعد انتظامیہ نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اوریہاں ستیہ ورت پولیس چوکی کی تعمیر شروع کر دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ نام سنبھل کی ‘مذہبی اور تاریخی اہمیت’ کو ظاہر کرتا ہے۔
میڈیا ہاؤس ‘آج تک’ کے زیراہتمام منعقد ایک کانکلیو میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سنبھل میں ہری ہر مندر کے مبینہ انہدام کے سلسلے میں مسلم کمیونٹی سے ‘اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے’ اور ‘سناتن دھرم کی علامتوں کی راہ میں غیر ضروری رکاوٹیں نہ ڈالنے’ کے لیے بھی کہا۔
مارچ 1978 میں ہولیکا دہن کی جگہ کو لے کر دو برادریوں کے درمیان کشیدگی کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ افواہ پھیلی کہ ایک دکاندار نے دوسری برادری کے ایک شخص کو قتل کر دیا ہے، جس کی وجہ سے فسادات پھوٹ پڑے۔ اب اتر پردیش حکومت نے نئے سرے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے اور پولیس سے کہا ہے کہ وہ سات دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔
منگل کو مراد آباد کی ٹی ڈی آئی سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اس وقت احتجاج شروع ہوگیا، جب کالونی میں ایک مکان اس کے ہندو مالک نے ایک مسلمان ڈاکٹر کو بیچ دیا۔ رہائشیوں نے رجسٹری رد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے آبادیاتی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔
موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیو مندر یا کوئی مورتی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔ شاید ان کو معلوم ہے کہ اگر یہ سلسلہ شروع ہوا تو رکنے والا نہیں ہے اس کی زد میں ہندو مندر بھی آسکتے ہیں اور تاریخ کے وہ اوراق بھی کھل جائیں گے، جو ثابت کریں گے کہ کس طرح برہمنوں نے بدھ مت کو دبایا اور ان کی عبادت گاہوں کو نہ صرف مسمار کیا بلکہ بدھ بھکشووں اور بدھ مت کے ماننے والوں کو اذیت ناک موت دے کر اس مذہب کو ہی ملک سے بے دخل کر دیا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر وکیل دشینت دوے نے دی وائر کے لیے کرن تھاپر کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ مسجدوں کے سروے کی اجازت دے کر سابق سی جے آئی جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ‘آئین اور ملک کے ساتھ بڑی ناانصافی کی’ ہے۔
سنبھل انتظامیہ نے اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کو مسجد کے سروے کے دوران تشدد میں مارے گئے پانچ مسلمانوں کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے ضلع کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کی مبینہ پولیس زیادتیوں کے متاثرین تک رسائی کو روکنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔
درخواست 19 نومبر کو دائر کی گئی اور 19 تاریخ کو ہی عدالت نے سروے کی اجازت دے دی۔ اسی دن سروے ہو بھی گیا۔ جامع مسجد کا پہلا سروے رات کے اندھیرے میں ہوا، جبکہ دوسرا صبح سویرے۔ وہ سرکاری کارروائی جو دن کے اجالے میں پوری کی جا سکتی تھی، اس کو بے وقت انجام دیا گیا۔ ایسا کب ہوتا ہے کہ کسی تاریخی عمارت کا سروے پہلے اندھیرے میں ہو اور اس کے بعد صبح کے وقت جب لوگ عموماً اپنی دکانیں بھی نہیں کھول پاتے۔
بی جے پی کے مطابق، سنبھل میں مسجد کے سروے کے دوران جو تشدد ہوا وہ شہر کی ترک اور پٹھان برادریوں سے تعلق رکھنے والے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان بالادستی کی لڑائی کا نتیجہ تھا۔ تاہم، مقامی لوگوں اور اپوزیشن رہنماؤں نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے پولیس کو بچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
سنبھل مسجد کی انتظامی کمیٹی کے چیئرمین سینئر وکیل ظفر علی نے سوال اٹھایا کہ مظاہرین ایک دوسرے کو کیوں ماریں گے؟ اگر انہیں گولی چلانی ہی تھی تو وہ عوام پر نہیں پولیس پر گولی چلاتے۔ علی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود پولیس کو بھیڑ پر گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا تھا۔
الیکشن کمیشن نے یوپی میں ضمنی انتخاب کی ووٹنگ کے دوران بڑے پیمانے پر پولیس کی بدسلوکی اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے الزامات کے بعد پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا تھا۔ اس دوران بی جے پی ایم ایل اے شلبھ منی ترپاٹھی اس کی رپورٹنگ کرنے والے مسلمان صحافیوں کی فہرست جاری کرتے ہوئے اسے ‘میڈیا جہاد’ کا نام دے رہے تھے۔
کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کو اکتوبر 2020 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ یوپی کے ہاتھرس میں گینگ ریپ کیس کی رپورٹنگ کرنے جا رہے تھے۔ ستمبر 2022 میں سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت دیتے ہوئے ہر ہفتے یوپی کے ایک تھانے میں حاضری لگانے کو کہا تھا۔ اب یہ شرط ختم کر دی گئی ہے۔
کانگریس لیڈر ڈولی شرما نے بی جے پی لیڈر اتل گرگ پر الزام لگائے تھے، جس کی بنیاد پر غازی آباد کے صحافی عمران خان نے اپنے اخبار میں خبر شائع کی تھی۔ یوپی پولیس نے اسے ہتک عزت کا معاملہ مانتے ہوئے عمران کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے۔
گزشتہ جولائی میں خود ساختہ بابا نارائن سرکار ہری عرف بھولے بابا کے ستسنگ میں مچی بھگدڑ میں 121 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اب تین ماہ گزرنے کے بعد ریاستی پولیس کی طرف سے داخل کی گئی چارج شیٹ میں ‘بھولے بابا’ کا نام نہیں ہے۔
کانگریس کی قیادت والی ہماچل پردیش حکومت نے ریاست کے تمام کھانے پینے کی دکانوں کو گراہکوں کے لیے ‘شفافیت’ کے نام پر اپنے مالکان کے نام اور پتے ڈسپلے کرنے کی ہدایت دی ہے۔ وزیر وکرمادتیہ سنگھ نے کہا کہ یہ فیصلہ کسی دوسری ریاست سے متاثرہوکر نہیں لیا گیا ہے۔
اتر پردیش حکومت کے نئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے تمام ریستورانوں اور کھانے پینے کی دکانوں کو آپریٹروں، مالکان، منیجروں اور ملازمین کے نام اور پتے لکھنے ہوں گے۔ حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ قدم کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ سے نمٹنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
ایک حالیہ سرکاری رپورٹ کے مطابق، 2022 میں درج فہرست ذاتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے تقریباً 97.7 فیصد واقعات 13 ریاستوں میں درج کیے گئے، جن میں یوپی، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں ایسے جرائم سب سے زیادہ درج ہوئے۔
یوگی حکومت کے سات سالوں میں اتر پردیش میں جرائم کے خاتمے کے کئی بلند و بانگ دعوے کے باوجود ایسے پولیس ‘انکاؤنٹر’ کی ضرورت ختم نہیں ہو رہی جہاں فرار ہونے کی مبینہ کوشش میں ملزم کو مار گرایا جاتا ہے۔ یا پولیس جس کو زندہ گرفتار کرنا چاہتی ہے، گولی اس کے پاؤں میں لگتی ہے، ورنہ
اتر پردیش میں سال 2020-21 میں غیر قانونی تبدیلی مذہب کے خلاف متنازعہ قانون متعارف کرائے جانے کے بعد تبدیلی مذہب کے حوالے سے سزا کا یہ پہلا بڑا معاملہ ہے۔
الزام ہے کہ امروہہ کے ہلٹن کانونٹ اسکول میں ایک سات سالہ مسلمان طالبعلم کے ٹفن میں مبینہ طور پر نان ویجیٹیرین کھانا (بریانی) ملنے پر اس کو اسکول سے نکال دیا گیا۔ عوامی احتجاج کے بعدامروہہ کے سب مجسٹریٹ نے معاملے میں تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی والی اتر پردیش حکومت نے نئی ڈیجیٹل میڈیا پالیسی کو منظوری دی ہے، جس کے تحت حکومت ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی حوصلہ افزائی کرے گی، جو ان کے کام کو مثبت کوریج دیں گے۔
الزام ہے کہ لکھنؤ میں کھانا ڈیلیوری کرنے کے دوران چار لوگوں نے مبینہ طور پر ایک مسلمان شخص پر حملہ کیا، فرقہ وارانہ تبصرے کیے، ان پر شراب پھینکی اور ایک گھنٹے سے زیادہ اپنے گھر میں یرغمال بنائے رکھا۔
معاملہ بریلی کے پنجاب پورہ علاقے کا ہے۔ یہاں کے سابق رہائشی وشال سکسینہ نے اپنا گھر ایک مسلم خاتون شبنم کو فروخت کر دیا تھا، جو اب وہیں رہ رہی ہیں۔ علاقے کے ہندوؤں کا کہنا ہے کہ مسلمان لو جہاد کرتے ہیں اور گوشت کھاتے ہیں۔
یہ واقعہ سدھارتھ نگر ضلع میں پیش آیا۔ پجاری نے پولیس کو بتایا کہ دو مسلم نوجوانوں کا اس کے ساتھ پہلے سے تنازعہ چل رہا تھا، اس لیے انہیں جھوٹے مجرمانہ کیس میں پھنسانے کے لیے اس نے خود ہی مندر کی مورتی توڑ دی اور پولیس سے شکایت کر دی۔
خود ساختہ بابا نارائن ساکار ہری عرف بھولے بابا کے ست سنگ میں مچی بھگدڑ میں اس ماہ کے شروع میں 121 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جسے انہوں نے ان کی تنظیم کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
گزشتہ چار جولائی کو یوپی کے شاملی میں ایک کباڑ خریدنے والے فیروز کی مبینہ مارپیٹ کے بعد موت ہو گئی تھی، جسے کچھ صحافیوں نے لنچنگ بتایا تھا۔ پولیس نے اس معاملے میں غیر ارادتاً قتل کا مقدمہ درج کرنے کے ساتھ ہی دو صحافیوں سمیت پانچ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
سال 2020 کے دہلی فسادات کی مبینہ سازش سے متعلق کیس میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اسکالر شرجیل امام اور دیگر کی درخواست ضمانت پر شنوائی کر رہی دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتبھا سنگھ اور جسٹس امت شرما کی ڈویژن بنچ نے کہا کہ معاملے کو ایسی بنچ کے سامنے درج کیا جائے جس کے ممبرجسٹس شرما نہ ہوں۔
بھگوا لباس یا دھوتی کُرتا جیسے باباؤں کے روایتی لباس سے قطع نظر سوٹ بوٹ اور ٹائی میں ملبوس کرامات کے ذریعے عقیدت مندوں کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرنے والے ‘بھولے بابا’ کو ‘سورج پال’ اور ‘نارائن ساکار ہری’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ست سنگ کے دوران منگل کو مچی بھگدڑ میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 121 ہو گئی ہے۔ کئی لوگ اب بھی لاپتہ ہیں، جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ہاتھرس کے سکندرراؤ تھانہ حلقہ کے پھولرئی گاؤں میں منعقد ایک مذہبی تقریب کے دوران بھگدڑ مچنے سے 100 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں اور ہلاکتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اترپردیش کے علی گڑھ میں 18 جون کی رات ایک مسلمان شخص کو مقامی لوگوں کی بھیڑ نے چوری کے شبہ میں پیٹا تھا، جس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔ اب پولیس نے مقتول کے خلاف ڈکیتی اور ایک خاتون پر حملہ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی ہے۔