خبریں

16 اگست کو سرینگر میں پولیس اور سیکڑوں مظاہرین کے بیچ ہوا تھا تصادم : رپورٹ

بین الاقوامی خبررساں ایجنسی اے ایف پی  کے مطابق، یہ تصادم سرینگر کے سورا علاقے میں مظاہرین کے ذریعے نکالی گئی ریلی کے دوران ہوا ۔ وہیں 12دن بعد کشمیر وادی کے 17 ٹیلی فون ایکس چینج میں لینڈ لائن خدمات بحال کر دی گئی ہی اور جموں کے 5 اضلاع میں 2 جی موبائل انٹرنیٹ خدمات بحال کی گئی ہیں ۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : سرینگر میں سیکڑوں مظاہرین 16 اگست کو پولیس سے متصادم ہوگئے تھے ۔ جس کے جواب میں  پولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور پیلیٹ گن سے گولی باری کی ۔ بین الاقوامی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، سکیورٹی کے مدنظر بند چل رہے جموں و کشمیر میں پولیس اور مظاہرین کے بیچ یہ تصادم اس وقت ہوا جب کئی ہزار لوگ سرینگر کی سڑکوں پر ریلی نکال رہے تھے ۔واضح ہوکہ ، 5 اگست کو جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 کی اکثر دفعات کو ہٹانے اور ریاست کو دو یونین ٹیریٹری میں تقسیم کرنے کے مرکزی حکومت کے قدم کے بعد سکیورٹی کے مدنظر ریاست میں جاری بند 13 ویں دن میں داخل ہوچکا ہے۔

یہ ریلی سیرنگر کے سورا علاقے میں نکالی گئی جہاں پر 5 اگست کو مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد سے لگاتار احتجاج جاری ہے ۔ حالاں کہ اس تصادم میں کسی کے ہلاک ہونے کی کوئی خبر نہیں ہے۔پولیس نے مین روڈ کی جانب بڑھ رہے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی ۔ جب پولیس نے ان پر درجنوں راؤنڈ گولی باری کی تو مظاہرین نے پتھر پھینکے اور ان سے بچنے کے لیے ہورڈنگس اوٹن وغیرہ کا استعمال کرنے لگے۔

جب ہزاروں مرد و خواتین ایک مشہور مسجد کے اندر جمع ہوگئے تو ڈرون لگاتار علاقے پر نظر رکھ رہا تھا۔مظاہرین میں سے ایک نے اے ایف پی کو بتایا کہ ، ہم گھیرے کو توڑتے ہوئے شہر میں داخل ہونے کی کوشش کر ہے تھے لیکن پولیس نے ہمیں روکنے کے لیے طاقت کا استعما ل  کرر ہی ہے۔ پولیس اہلکاروں کے تصادم میں جمعرات کو تین لوگ زخمی ہوگئے تھے۔

اس کے ساتھ ہی گزشتہ دو ہفتے سے پوری طرح سے بند کا سامنا کر رہی وادی کے کئی علاقوں میں چھٹ پٹ تصادم کی خبریں آرہی ہیں ۔ وہاں کے مواصلاتی نظام بھی پوری طرح سے بند ہیں ۔کرفیو کا سامنا کر رہے وادی کے زیادہ تر شہر اور قصبوں میں سکیورٹی اہلکار صرف اسپیشل پاس کے ذریعے سے ہی لوگوں کو آنے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسیز نے سڑکوں کے راستے کو روکنے کے لیے کھڑی بیری کیڈس اور کانسرٹنا تاروں کا استعمال کیا ہے۔ وادی میں کسی بھی بڑی میٹنگ کی اجازت نہیں تھی اور زیادہ تر مساجد ہر دوسرے جمعہ کو بند رہتی تھیں۔

ایک دیگرمظاہرہ کرنے والے نے کہا،’جو ہمارا ہے، ہم وہ چاہتے ہیں۔ہم کسی چیز کے لیے بھیک نہیں مانگ رہے ہیں،بلکہ ہندوستان سے اپنا وعدہ پورا کرنے کی مانگ کررہے ہیں۔ہم تب تک چپ نہیں بیٹھیں گے جب تک ہندوستان سے پوری طرح سے آزادی نہیں حاصل کر لیں گے۔’مظاہرین سڑکوں پر ریلی نکال رہے تھے،کالے جھنڈے لیے ہوئے دکھ کا اظہار کر رہے تھے اور تختیوں پر بھارت واپس جاؤ کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔

غور طلب ہے کہ رائٹرس، بی بی سی، دی واشنگٹن پوسٹ اور الجزیرہ جیسے عالمی میڈیا ہاؤس نے بھی 9 اگست کو دوپہر میں کشمیر میں ہو رہےمظاہرہ پر رپورٹ کی تھی۔ بی بی سی نے ایک ویڈیو فوٹیج جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ فوٹیج اس نے وہاں پر بنایا ہے۔حالانکہ، مرکزی وزارت داخلہ نے نیوز ایجنسیوں کے اس دعویٰ کو خارج کر دیا تھا کہ سرینگر میں کم سے کم 10 ہزار مظاہر ین سڑکوں پر اتر آئے۔

وزارت نے 10 اگست کو کہا تھا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ ہٹائے جانے کے بعد سے کشمیر وادی میں مظاہرے کے چھٹ پٹ واقعات ہوئے تھے اور کسی میں بھی 20 سے زیادہ لوگ شامل نہیں تھے۔حالانکہ 13 اگست کووزارت داخلہ نے قبول کیا کہ 9 اگست کو سرینگر کے باہر ’ شر پسند عناصر ‘نے وسیع پیمانے پر بدامنی پھیلانےکے لئے سکیورٹی اہلکاروں  پر بلاوجہ پتھراؤ کیا لیکن مظاہرین پر گولیاں نہیں چلائی گئیں۔

دریں اثنا کشمیر وادی کے17 ٹیلی فون ایکسچینج میں لینڈ لائن سروس12 دن بعدسنیچر کو بحال کر دی گئیں،جس سے 50 ہزار سے زیادہ لینڈ لائن فون نے پھر کام کرنا شروع کر دیا۔وہیں جموں کے 5 ضلعوں میں 2 جی موبائل انٹرنیٹ سروس بحال کر دی گئیں۔افسروں نے بتایا کہ 100 سے زیادہ ٹیلی فون ایکسچینج میں سے 17 میں سے سروس بحال کر دی گئیں۔یہ ایکسچینج خاص طور پر سول لائن ایریا، چھاونی علاقے،سرینگر ضلع کے ہوائی اڈے کے پاس ہیں۔ افسروں نے بتایا کہ دیگر20 ایکسچینج بھی جلد کام کرنے لگیں گے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)