خبریں

کشمیر گئے یورپی رکن پارلیامان نے کہا، ہندوستان کو اپوزیشن کو بھی کشمیر جا نے دینا چا ہیے

مرکزی حکومت کے ذریعے آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ختم کرنے کے بعد جموں و کشمیر کی صورتحال جاننے کے لئے سرینگر پہنچےیورپی وفدمیں شامل جرمنی کے رکن پارلیامان نکولس فیسٹ نے یہ بات کہی ہے۔

 کشمیر دورے پر آئے یورپی یونین کے وفد کے ممبر اور جرمن رکن پارلیامان نکولس فیسٹ(فوٹو : رائٹرس)

کشمیر دورے پر آئے یورپی یونین کے وفد کے ممبر اور جرمن رکن پارلیامان نکولس فیسٹ(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: جموں و کشمیر کے دو روزہ دورے پر آئے یورپی یونین کے غیرسرکاری وفد کے ایک ممبر نے بدھ کو کہا کہ اگر حکومت ہند نے غیر ملکی رہنماؤں کوجموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی ہے تو اس کو اپوزیشن کوبھی وہاں کے دورے کی اجازت دینی چاہیے۔ خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق، جرمنی کے رکن پارلیامان نکولس فیسٹ نے کہا،’میرا ماننا ہے کہ اگر آپ یورپی یونین کے رکن پارلیامان کو جانے کی اجازت دیتے ہیں تو آپ کو ہندوستان کے اپوزیشن کے رہنماؤں کو بھی وہاں جانے کی اجازت دینی چاہیے۔ یہاں تھوڑا عدم توازن ہے۔ حکومت کو کسی بھی طرح سے اس عدم توازن کو صحیح کرناچاہیے۔ ‘

مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے کے بعد ریاست کی صورتحال کا جائزہ لینےکے لئے سرینگر پہنچے یورپی یونین کے 23 ممبروں میں فیسٹ بھی شامل ہیں۔ دورے کے بعد بدھ کو کی گئی ایک پریس کانفرنس میں یورپی یونین کے رکن پارلیامان نے کہا کہ آرٹیکل 370 ہندوستان کااندرونی معاملہ ہے اور ہم اس میں دخل دینے نہیں آئے ہیں۔

 حالانکہ، اس سے پہلے منگل کوبرٹن کی لبرل ڈیموکریٹس پارٹی کے رکن پارلیامان کرس ڈیوس نے کہا کہ کشمیر دورہ کے لئے ان کو دی گئی دعوت کو حکومت ہند نے واپس لے لیا کیونکہ انہوں نے پولیس سکیورٹی کےبغیر مقامی لوگوں کے ساتھ بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ کرس ڈیوس نے کہا،’میں نے اس شرط پر کشمیر جانے کی دعوت کو قبول کیا تھاکہ جہاں بھی میں جانا چاہوں‌گا وہاں مجھے بغیر روک ٹوک کے جانے دیا جائے‌گا۔ میں جس سے بھی بات کرنا چاہوں‌گا، اس سے ایسا کرنے کے لئے آزاد رہوں‌گا۔ میرے ساتھ فوج، پولیس ، سکیورٹی اہلکار نہیں ہوں گے ، صرف صحافی ہو سکتے ہیں۔ ‘

انہوں نے کہا، ‘وہ نریندر مودی حکومت کے پروپیگنڈہ ہتھکنڈوں کا حصہ بننےکے لئے تیار نہیں تھے اور یہ دکھاوا نہیں کرنا چاہتے تھے کہ جموں و کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہ بہت واضح ہے کہ کشمیر میں جمہوری‎ اقدار کو طاق پر رکھا گیا اور دنیا کو اس جانب دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ‘ڈیوس نے کہا،’ایسا کیا ہے، جس کو حکومت ہند کو چھپانا پڑ رہا ہے؟ حکومت،صحافیوں اور رہنماؤں کو مقامی لوگوں کے ساتھ بات کرنے کی چھوٹ کیوں نہیں دے رہی؟ہندوستان کا یہ قدم  کشمیری لوگوں کا دل نہیں جیت سکتا اور ان سے ان کی آزادی نہیں چھین سکتا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ صحیح طرح سے ختم نہیں ہونے والا۔ ‘

واضح ہو کہ یورپی یونین کے 23 رکن پارلیامان کا ایک وفد دو روزہ دورے پر منگل کو سرینگر پہنچا تھا۔ کشمیردورے سے ایک دن پہلے 28 اکتوبر کو یورپی وفد نےدہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔وزیر اعظم دفتر کی طرف سے کہا گیا تھا کہ یورپی وفد کے جموں و کشمیر دورہ سے لوگوں کو جموں و کشمیر اور لداخ علاقے کی ثقافتی اور مذہبی تنوع کے بارے میں بہتر جانکاری مل سکے‌گی۔

غور طلب ہے  کہ پانچ اگست کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد منگل کو کشمیر کا دورہ کرنے والا یہ پہلا بین الاقوامی وفدتھا۔ اس وفد میں رائٹ ونگ  پارٹیوں کے رہنما شامل تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)