خبریں

مدراس ہائی کورٹ نے کہا-پرامن مظاہرہ جمہوریت کی بنیاد، اس کو نہیں روکا جا سکتا

شہریت ترمیم قانون کےخلاف تمل ناڈو کی اہم حزب مخالف پارٹی اور اس کے اتحاد میں شامل پارٹیوں کی آج چنئی میں ہو رہی مہاریلی پر روک لگانے کے لئے مدراس ہائی کورٹ میں پی آئی ایل داخل کی گئی تھی۔ حالانکہ، ہائی کورٹ نے ریلی پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ ہائی کورٹ نے پولیس کو ریلی کا ویڈیو بنانے کا حکم دیا ہے۔

مدراس ہائی کورٹ/فوٹو: پی ٹی آئی

مدراس ہائی کورٹ/فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے خلاف سوموار کو ڈی ایم کے کی مجوزہ ریلی کے خلاف داخل مفاد عامہ عرضی کی سماعت کے دوران اتوار دیر رات مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ جمہوری‎ ملک میں پر امن مظاہرہ کو روکا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ جمہوری‎ تانے-بانے کی بنیاد ہے۔ جسٹس ایس ویدیہ ناتھن اور جسٹس پی ٹی آشا کی بنچ نے ریلی روکنے سے انکار کر دیا۔

درخواست گزاروں آر وراکی اور آر کرشن مورتی نے ریلی منعقد کرنے سے ڈی ایم کے کو روکنے کی گزارش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس طرح کے ‘ غیر قانونی ‘ مظاہرے سے لوگوں کی زندگی متاثر ہوگی اور اس ریلی کے پرتشدد  ہونے اور بدامنی پیدا ہونے کا خدشہ ہے جیسا کہ دہلی اور اتر پردیش سمیت مختلف علاقوں میں اسی طرح کی ریلیوں میں ہوا ہے۔

تمل ناڈو حکومت کے وکیل نے عدالت کو مطلع کیا کہ پولیس نے ریلی کی اجازت نہیں دی ہے کیونکہ آرگنائزر نے جائیداد کو کوئی نقصان ہونے یا کسی قسم کا تشدد ہونے کے حالات میں ذمہ داری لینے کو لےکر کوئی عزم نہیں دکھایا۔ اس کے بعد مدراس ہائی کورٹ نے پولیس کو حکم دیا کہ ڈی ایم کے اگر اجازت نہیں ملنے کے باوجود  شہریت ترمیم  قانون (سی اے اے) کے خلاف سوموار کو مجوزہ ریلی کرتا ہے تو اس کا ویڈیو بنایا جائے۔

چنئی میں ڈی ایم کے اور اس کی معاون پارٹیوں کی طرف سے چنئی میں منعقد اس مہاریلی میں ڈی ایم کے رہنما ایم کے اسٹالن کے ساتھ کانگریس رہنما پی چدمبرم اور ایم ڈی ایم کے نے رہنما وائیکو بھی حصہ لے رہے ہیں۔

معاملے کو فوری  سماعت کے لئے لائے جانے پر حکومت کی طرف سے دلیل دی گئی کہ ڈی ایم کے نے ریلی میں حصہ لینے والے لوگوں کی تعداد کے تعلق سے سوال کا جواب نہیں دیا اور اس نے اس آدمی کا نام بھی نہیں دیا جو عوامی جائیداد کو نقصان ہونے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ ہونے کی حالت میں ذمہ داری لے‌گا۔

عدالت نے کہا، ‘ مدعا علیہ کے جواب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ریلی / مظاہرہ کرنے والی سیاسی جماعت ذمہ داری نہیں لینا چاہتی اور ہمیں لگتا ہے کہ پولیس کے ذریعے پوچھے گئے سوال بامعنی ہیں۔ ‘ اس نے کہا کہ ذمہ دار سیاسی جماعت نے جس طریقے سے سوالوں کا جواب دیا ہے، اس سے عدالت کے دماغ میں یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ مظاہرہ کر رہے رہنما جائیداد کو کسی قسم کا نقصان ہونے یا کوئی ناخوشگوار واقعہ ہونے کی ذمہ داری لینے سے بچ رہے ہیں۔

اس کے بعد عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ وہ مظاہرہ کا ویڈیو بنائے اور ضرورت پڑنے پر ڈرون کیمروں کا بھی استعمال کرےتاکہ کوئی غیر قانونی واقعہ ہونے پر ریلی کا انعقاد کر رہے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی ذمہ داری طے کی جا سکے۔ اس نے معاملے کی سماعت 30 دسمبر تک کے لئے ملتوی کر دی۔

ڈی ایم کے اور اس کے اتحادمیں شامل  پارٹیوں نے پچھلے ہفتہ اعلان کیا تھا کہ وہ سی اے اے کی مخالفت میں 23 دسمبر کو یہاں ایک مہاریلی نکالیں‌گے۔

بتا دیں کہ، شہریت ترمیم قانون کےخلاف شمال مشرقی سمیت ملک بھر میں لگاتار مظاہرہ ہو رہے ہیں۔ جہاں  مظاہرہ کی شروعات یونیورسٹیوں اور بڑے تعلیمی اداروں سے ہوئی وہیں آہستہ آہستہ یہ  مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے۔ وہیں، ملک کے کئی حصوں میں یہ  مظاہرہ پر تشدد بھی ہو گئے جہاں پر ملک بھر میں 23 سے زیادہ لوگوں کی موت ہو چکی جس میں 15 لوگ اتر پردیش میں مارے گئے ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)