خبریں

کورونا وائرس: وزیر اعظم کا ملک کے نام خطاب اور زمینی حقائق

کو رونا وائرس کو لےکرملک کے نام خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی عوام  سے تعاون کی اپیل ہی کرتے رہے، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آخر وائرس کے ٹیسٹ، علاج اور متاثرین  کا پتہ لگانے کےچیلنج  سے نپٹنے کے لیے ان کی سرکار کاکیامنصوبہ ہے۔

نریندر مودی ، فوٹو: پی ٹی آئی

نریندر مودی ، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ 19 مارچ کو رات آٹھ بجے کو رونا وائرس کو لے کرملک کو خطاب کیا۔ مودی کی تقریر کورونا وائرس سے بچنے کی صلاح، عوام میں اس کے لیے بیداری  لانے کی کوشش اور لوگوں کو اپنی سطح پر ہی اس کے ممکنہ حل کی ڈرامائی  اپیلوں سے پر تھی۔

وزیر اعظم کے خطاب میں وہ بات نکل کر سامنے نہیں آئی، جس کی لوگ امید کر رہے تھے۔ نریندر مودی نے اس وائرس سے لڑنے اورملک کو بچانے کا کوئی خاص خاکہ  پیش نہیں کیا۔

یہی وجہ ہے کہ لوگ مودی کے خطاب کا موازنہ کیرل کے وزیر اعلیٰ کے خطاب سے کر رہے ہیں، جس میں انہوں نے ریاست کے لوگوں کو اس بیماری سے فوری راحت دینے کے لیے بھاری بھرکم بجٹ کا اعلان  کیا ہے۔وزیر اعظم اپنے پورے خطاب میں عوام سے تعاون کی اپیل ہی کرتے رہے، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آخر کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ، علاج اور متاثرین کا پتہ لگانے کے چیلنج سے نپٹنے کے لیے سرکار کا کیامنصوبہ  ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ،آئسولیشن کے ساتھ ساتھ یہ ساری چیزیں بھی بےحد ضروری ہیں۔

اس وبا کے ‘اسٹیج 3’ پر پہنچنے کو لےکر آئی سی ایم آر کے ذریعے طے کی گئی مدت کافی نزدیک ہے، لیکن نریندر مودی نے اپنے خطاب میں یہ نہیں بتایا کہ اس وقت سرکار کی کیا ذمہ داری ہونی چاہیے اور انہیں کن چیزوں پر نظر بنائے رکھنی چاہیے۔

وزیر اعظم مودی کی اپیل میں ایک اہم  بات یہ تھی کہ انہوں نے 22 مارچ کو صبح سات بجے سے رات نو بجے تک لوگوں سے ‘جنتا کرفیو’ کی پیروی کرنے کامطالبہ  کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ کو رونا کی وجہ سے پیدا ہونے والےاقتصادی چیلنج  کو دھیان میں رکھتے ہوئے وزیر خزانہ کی قیادت میں سرکار نے ایک ‘کووڈ 19 اکانومک رسپانس ٹاسک فورس’ کی تشکیل کا فیصلہ کیا ہے۔

ہندوستان میں کو رونا وائرس سےمتاثرین کی تعداد بڑھ کر 250 کے پار پہنچ گئی ہے۔ حالانکہ سرکار اب بھی اس بات کو لے کر اٹل  ہے کہ ملک  میں اس وائرس کاکمیونٹی پھیلاؤ نہیں ہو رہا ہے۔

آئی سی ایم آر کے مطابق، ملک میں جو بھی معاملے آئے ہیں، اس میں سے لوگ یا تودوسرے ممالک  سے آئے ہیں یا پھر متاثر فرد کے چھونے سے یہ پھیلتا ہے۔حالانکہ کئی ماہرین  اور طبی اہلکار نے اس تشویش کا اظہار کیا  ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ ہندوستان جان بوجھ کر اعداد وشمار  کو دبا رہا ہے اور زیادہ لوگوں کی جانچ نہ کرکے اس وبا کے اور پھیلنے کےامکانات کو بڑھا رہا ہے۔

سائنسداں  پرینکا پلا نے اس بارے میں دی  وائر سائنس میں تفصیل  سے لکھا ہے اور بتایا ہے کہ آخر کن بنیادوں پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان  میں اس بیماری کے کمیونٹی پھیلاؤ کا کافی امکان ہے۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے خطاب میں ان پہلوؤں پر زور نہیں دیا گیا تھا۔

ہندوستان  میں اس وقت تین سینٹرل ہیلتھ ایجنسیاں –مرکزی وزارت صحت،آئی سی ایم آر اوراین سی ڈی سی- کو رونا وائرس (کووڈ 19) کو لے کر کام کر رہی ہیں۔ حالانکہ عام طور پر ان تینوں کے بیچ غلط فہمی اور جانکاری  دینے میں کافی ابہام دیکھا گیا ہے۔ماہرین صحت کافی لمبے وقت سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جانچ نہیں کریں گے تو آپ کو پتہ نہیں چلےگا کہ یہ کتنابڑا مسئلہ  ہے۔ آئی سی ایم آر پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا وہ واقعی صحیح ڈھنگ سے کووڈ 19 کے معاملوں کو دیکھ رہا ہے۔

آئی سی ایم آر کی ٹیسٹنگ اسکیم کے تحت ہندوستان  میں دوزمرے کے لوگوں کی ٹیسٹنگ کی جا رہی ہے۔ پہلا، وہ جو زیادہ متاثرہ 14 ممالک سے آئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سب سے پہلے الگ وارڈ میں رکھا جاتا ہے اور ان میں کو رونا کے علامات دکھتے ہیں تو ان کے سیمپل کو آئی سی ایم آر کی کسی ایک وائرس ریسرچ لیبارٹری(وی آرڈی ایل) میں بھیجا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اگر ایسے لوگوں کے رابطہ  میں کوئی آیا ہوتا ہے، انہیں الگ وارڈ میں رکھا جاتا ہے اور اگر ان میں علامات دکھتے ہیں تو ان کی بھی جانچ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرےکی کووڈ 19 کے لیے جانچ نہیں ہوتی ہے۔آئی سی ایم آر کی دوسری اسکیم  کے تحت ایسے لوگوں کی جانچ کی جاتی ہے، جو حال فی الحال میں بیرون ملک  نہیں گئے ہوں یابیرون ملک  سے لوٹنے والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہ رہا ہے۔

اس طرح کی جانچ کے لیے ملک کے 51 وی آرڈی ایل لیبس ایک ہفتے میں ایسے مریضوں کے 20 سیمپل کی جانچ کرتے ہیں جو کہ ایس اےآرآئی سے متاثر ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایسے لوگوں کو ایس اےآرآئی سے متاثر مانا جاتا ہے جنہیں پچھلے 10 دنوں سے بخار اور کھانسی  ہو اور انہیں ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرنے کی ضرورت ہو۔

گزشتہ17 مارچ کو ایک پریس کانفرنس میں آئی سی ایم آر کی سائنسداں  نویدتا گپتا نے کہا کہ ایسے مریضوں کو کووڈ 19 جانچ کے لیے تب چنا جاتا ہے جب ایس اےآرآئی ہونے کی دوسری وجہوں میں وہ نگیٹو پائے جاتے ہیں۔

اب تک آئی سی ایم آر نے اس طرح کے 826 ٹیسٹ کے نتائج  کو حاصل  کیا ہے، جس میں سے سبھی نگیٹو نکلے ہیں۔ اسی بنیاد پر سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان  میں کو رونا وائرس کا کمیونٹی پھیلاؤ نہیں ہے۔حالانکہ ایس اےآرآئی معاملوں کو ٹیسٹ کرنے کی تعداد کو لےکر کئی ماہرین صحت نے سوال اٹھایا ہے۔

دہلی کے ٹرانس لیشنل ہیلتھ سائنس اینڈ ٹکنالوجی انسٹی ٹیوٹ کی مائکروبایولاجسٹ گگن دیپ کنگ نے بدھ کو ایک چرچہ کے دوران کہا کہ وی آرڈی ایل کے ذریعے 20 ایس اےآرآئی سیمپل کی جانچ کرناکافی  نہیں ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا، مثال کے طور پر اگر کسی حلقے میں 100 سے زیادہ ایس اےآرآئی کے معاملے ہیں اور اس حلقے میں وی آرڈی ایل رینڈم ڈھنگ سے 20 سیمپل کی جانچ کر رہا ہے تو کووڈ 19 کے معاملوں کے چھوٹنے کے امکان زیادہ ہیں۔

آئی سی ایم آر کے پریس کانفرنس میں نویدتا گپتا نےخصوصی طورپراس کا جواب دیا تھا کہ کچھ وی آرڈی ایل میں ایس اےآرآئی کے 20 معاملے بھی نہیں ہیں اس لئے رینڈم جانچ کے لیے اتنی تعداد خاطرخواہ  ہو سکتی ہے۔حالانکہ دی  وائر سائنس کی رپورٹ کے مطابق جانچ کے لیے وی آرڈی ایل کے ذریعے حاصل  کی جانے والی تعداد کافی الگ ہے۔

مثال  کے طور پر لکھنؤ کی کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی وی آرڈی ایل نیٹ ورک کا ایک ٹیسٹنگ لیب ہے۔ اس کے ڈپارٹمنٹ آف مائکروبایولاجی کی صدر امیتا جین نے بتایا کہ وہ ہر ہفتے 20 سے زیادہ ایس اےآرآئی سیمپل حاصل کر رہے ہیں۔وہیں ایک دوسرے وی آرڈی ایل کیرل میں گورنمنٹ میڈیکل کالج کے مائکروبایولاجی ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ شاردا دیوی نے کہا کہ وہ ایک ہفتے میں 20 سیمپل حاصل  نہیں کر پا رہی ہیں۔

اسی طرح کرناٹک کے شموگا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میں واقع تیسرے وی آرڈی ایل نے کہا کہ ان کی لیب میں ایک بھی ایس اےآرآئی معاملہ نہیں آیا ہے۔اس کے علاوہ اب تک یہ بھی صاف نہیں ہو پایا ہے کہ کووڈ 19 کی جانچ کے لیے انفلوئنزا جیسی بیماری والے لوگوں کی جانچ ہو رہی ہے یا نہیں۔ اگر اس کی بھی جانچ ہوتی ہے تو تصویر اور بھی صاف ہو سکتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی تعریف  کے مطابق انفلوئنزا جیسی بیمارکی علامات میں بخار اور کھانسی آنا ہے، لیکن ایسے لوگوں کو اسپتال میں بھرتی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔جب این سی ڈی سی کے ڈائریکٹر سجیت کمار سنگھ سے پوچھا گیا کہ کیا کووڈ 19 کی جانچ کے لیے انفلوئنزا جیسے علامات والوں کے سیمپل کی جانچ ہو رہی ہے۔ اس پر انہوں نے کہا، ہاں۔

حالانکہ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ اس طرح کے کتنےعلامات کی جانچ کی جا چکی ہے اور اس میں سے کتنےمثبت پائے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ بھی کہہ پانا جلدبازی ہوگی۔اس بیچ این سی ڈی سی کی ایک لیب بنگلورواقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیوروسائنس کے نیورولاجسٹ روی وسنتھ پورم نے کہا کہ ان کی لیب نے اب تک کووڈ 19 کے لیے ٹیسٹ کرنا شروع نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیسٹنگ شروع کرنے کے لیے انہیں کوئی نوٹیفیکیشن نہیں ملا ہے۔ اس میں اور کنفیوزن  تب پیدا ہو جاتا ہے جب آئی سی ایم آر کی وی آرڈی ایل نیٹ ورک کی کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی اور شموگا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نے کہا کہ وہ کووڈ 19 کے لیے انفلوئنزا جیسی بیماری والے سیمپل کی جانچ کر رہے ہیں۔

اب یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں وزارت صحت نے نہیں بتایا کہ وہ انفلوئنزا جیسی بیماری والے سیمپل کی جانچ کر رہے ہیں؟ آخر کیوں سبھی لیبس کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے؟ اور اگر وہ جانچ کر رہے ہیں تو انہیں اب تک کیا ملا ہے؟غازی آباد کے سنتوش میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر آف میڈیسن انوپم سنگھ نے کہا کہ سب سے اہم  یہ ہے کہ کون سے سیمپل کو ٹیسٹ کیا جانا چاہیے۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ ٹیسٹنگ کی موجودہ کارروائی کے تحت بہت سارے نگیٹو آ رہے ہیں۔

آئی سی ایم آر نے ابھی تک یہ صاف نہیں کیا ہے کہ وہ کیوں ٹیسٹنگ کا دائرہ نہیں بڑھا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ افسروں  نے یہ بتائی ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ اس وائرس کا کمیونٹی پھیلاؤ ہو رہا ہے۔ حالانکہ آئی سی ایم آر کے ایپڈیمیولاجی چیف رمن گنگاکھیڑکر نے این ڈی ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں ایک دوسری وجہ  بتائی  تھی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستان زیادہ لوگوں کی جانچ کرنے لگےگا تو زیادہ کیس نکلیں گے اور ان سبھی کو الگ کرنا سرکار کے لیے مشکلیں کھڑی کر دےگا۔ اس طرح آئی سی ایم آر کے دونوں اسباب بالکل الگ ہیں اور سرکار کی کوششوں پر بڑے سوال کھڑے کرتے ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے خطاب میں ان خدشات کا کہیں بھی ذکر نہیں تھا۔