خبریں

توہین عدالت معاملہ: سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا، پوچھا-معافی مانگنے میں غلط کیا ہے

دو ٹوئٹ کے لیےتوہین عدالت  کےقصوروار ٹھہرائے گئے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کی جانب سے معافی مانگنے سے انکار کے بعد ان کی سزا کو لےکر ہوئی شنوائی میں جسٹس ارون مشرا نے کہا کہ اگر آپ معافی مانگتے ہیں تو گاندھی جی کی صف میں آئیں گے۔ ایسا کرنے میں چھوٹا محسوس کرنے جیسا کچھ نہیں ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نےمنگل کو دو ٹوئٹ کی وجہ سے توہین عدالت کاقصوروار ٹھہرائے گئے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کو سزا دینے پر بحث مکمل  کر لی  ہےاور فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔شنوائی جسٹس ارون مشرا کی قیادت  والی بنچ کر رہی تھی، جس میں جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کرشن مراری بھی شامل تھے۔

شنوائی کے دوران بھی بھوشن اس بات پر قائم رہے کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے اور کورٹ جو سزا دےگی اس کو وہ قبول کریں گے۔ وہیں، کورٹ نے اس بات کو لےکر افسوس کا اظہار  کیا کہ بھوشن معافی نہیں مانگ رہے ہیں، معافی مانگنے میں کیا دقت ہے۔لائیولاء کے مطابق، فیصلہ محفوظ  رکھتے ہوئے جسٹس مشرا نے کہا، ‘معافی لفظ میں کیا غلط ہے؟ معافی مانگنے میں کیا غلط ہے؟ کیا ایسا کرنے سے آپ مجرم  ہو جائیں گے؟

انہوں نے آگے کہا، ‘معافی ایک جادوئی لفظ ہے، کئی گھاؤ بھر سکتا ہے۔ میں عمومی طور پربات کر رہا ہوں، پرشانت کے بارے میں نہیں۔اگر آپ معافی مانگتے ہیں تو مہاتما گاندھی کی صف میں آئیں گے۔ گاندھی جی ایسا کرتے تھے۔اگر آپ کسی کو چوٹ پہنچاتے ہیں تو آپ کو مرہم ضرور لگانا چاہیے۔ ایسا کرنے میں چھوٹا محسوس کرنے جیسا کچھ نہیں ہے۔’

اس سے پہلے بھوشن کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل راجیو دھون نے بنچ سے گزارش کی کہ پرشانت بھوشن کے خلاف کوئی بھی سزا دینے سے پہلے ان کے کاموں  کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جانا چاہیے۔دھون نے کہا کہ بھوشن نے اس عدالت  کاتعاون  کیا ہے اور عوامی مفاد کی لڑائیاں لڑی ہیں۔

اس سے پہلے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے کورٹ سے کہا کہ بھوشن نے جو باتیں کی ہیں، وہ سب پہلے بھی کئی ججوں نے بولا ہے۔ اس کے لیے انہیں کوئی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔دھون نے کہا، ‘میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جسٹس ارون مشرا جب کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے تو انہوں نے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے خلاف ججوں کو بدعنوان  بتانے والے  ان کے تبصرے کو لےکرہتک کی کارروائی  شروع نہیں کی تھی۔’

سینئر وکیل نے کہا کہ اگر کورٹ تنقید نہیں جھیل سکتی  تو ایک دن سپریم کورٹ منہدم  ہو جائےگی۔ راجیو دھون نے یہ بھی کہا کہ بھوشن کو قصوروارٹھہرانے والے فیصلے میں‘آدھا سچ اورتضادات ’ ہیں۔وکیل نے کہا کہ گزشتہ20 اگست کے آرڈر میں بھوشن کو معافی مانگنے کا موقع دینے والی بات اس طرح سے لکھی گئی تھی کہ جیسے ان پر زبردستی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ انہیں‘معافی مانگنی ہی پڑےگی۔’

انہوں نے کہا کہ انصاف کے چنگل سے بچ نکلنے کے لیے معافی کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ہے۔ معافی میں ایمانداری جھلکنی چاہیے کہ شخص کو اس کا احساس ہے۔

دھون نے کہا، ‘اگر بھوشن کے بیان کوپورے طورپرپڑھا جاتا ہے تو اس میں انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے لیے ان کے دل  میں سب سے زیادہ احترام ہے، لیکن چارچیف جسٹس کو لےکر ان کی تنقیدی  رائے ہے۔ پچھلے چھ سالوں میں اس کورٹ میں جو ہوا ہے اسے لےکر ہم سبھی متاثرہیں۔ مجھے اس کورٹ کے کئی فیصلوں پر فخر ہے لیکن ایسے کئی فیصلے بھی ہیں جس پر مجھے فخر نہیں ہے۔’

راجیو دھون نے کہا کہ عدلیہ  تنقید سے اچھوتی نہیں رہ سکتی ہے اور یہ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ ہم صحت مند تنقید کریں۔سینئر وکیل نے کہا کہ ہم آپ سے رحم کی اپیل نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ہماری مانگ یہ ہے کہ کورٹ اپنی عظمت کا مظاہرہ کرے۔

انہوں نے بنچ سے کہا،‘آپ پرشانت بھوشن کو شہید نہ بنائیں، وہ ایسا نہیں چاہتے ہیں۔اگر بھوشن کو سزا دی جاتی ہے تو ایک طبقہ انہیں شہید کا درجہ دے دےگا اور ایک طبقہ کورٹ کے فیصلے کو سہی ٹھہرائےگا۔ ہم اس تنازعہ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صرف کورٹ کے انصاف سے ختم ہو سکتا ہے۔’

عدالت نے بھوشن کو ایک اور موقع دیا، جب اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے ان کے لیے معافی کی گزارش  کی تھی۔معاملے کی شنوائی کے بیچ میں کورٹ نے پرشانت بھوشن کو عدلیہ  کے خلاف ان کے ٹوئٹ کو لےکرافسوس کا اظہار نہ کرنے کے اپنے رخ پر ‘پھر سے غور’کرنے کے لیے 30 منٹ کا وقت دیا تھا۔

اعلیٰ قانون افسر نے کہا تھا، ‘انہوں نے (بھوشن نے)کبھی یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں دکھائی کہ وہ  عدالت کا کتنا احترام  کرتے ہیں۔ 2009 والے معاملے میں انہوں نے افسوس کا بھی اظہار کیا تھا۔ اسی طرح اگر وہ اس معاملے میں افسوس  ظاہر کرتے ہیں تو اس بدقسمت  مقدمے کا اختتام  ہو جانا چاہیے۔’

اس پر جسٹس مشرا نے کہا کہ ان کی صلاح ٹھیک ہے لیکن بھوشن کو اپنے الزام  واپس لینے چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے ان کی اس بات پر رضامندی کا  اظہار کیا۔

غورطلب ہے کہ گزشتہ 20 اگست کو توہین عدالت کے معاملے میں سزا طےکرنے کو لےکر ہوئی بحث کے دوران بھوشن نے اپنا بیان پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی بنچ کے سے کہا کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے اور نہ ہی ان کے لیےکسی بھی طرح کی رحمدلی  کی اپیل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورٹ جو بھی سزا انہیں دےگی  وہ اس کو قبول کریں گے۔

بنچ نے پوچھا، ‘بھوشن نے کہا کہ سپریم کورٹ چرمرا گیا ہے، کیایہ قابل اعتراض  نہیں ہے۔’بنچ نے کہا کہ عدالت صرف اپنے احکامات  کے ذریعے بولتی ہے اور اپنے حلف نامے میں بھی بھوشن نےعدلیہ  کے خلاف قابل اعتراض تبصرے کیے ہیں۔وینوگوپال نے بنچ سے کہا کہ عدالت کو انہیں وارننگ دینی چاہیے اور رحمدلی کا رخ اپنانا چاہیے۔

بنچ نے کہا کہ جب بھوشن کو لگتا ہے کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا تو انہیں اسے نہ دوہرانے کی صلاح دینے کا کیا مطلب ہے۔کورٹ نے کہا، ‘ایک شخص کوغلطی کا احساس ہونا چاہیے، ہم نے بھوشن کو وقت دیا لیکن انہوں نے کہا کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے۔’عدالت نے 20 اگست کو بھوشن کے معافی مانگنے سے انکار کرنے کے ان کے بیان پر پھر سے غور کرنے اور ان کے ٹوئٹ کے لیے ‘بنا شرط معافی مانگنے’کے لیے 24 اگست کا وقت دیا تھا۔

ساتھ ہی ان کی اس دلیل کو قبول نہیں کیا تھا کہ سزا کی مدت دوسری بنچ کے ذریعے طے کی جائے۔ اس کے بعد 24 اگست کو بھوشن نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر وہ اپنے ان بیانات، جو ان کے خیال  میں صحیح  ہیں، کو واپس لیں گے یا معافی مانگیں گے، تو یہ ان کے ضمیر  کو گوارہ نہیں ہوگا۔

وہیں دوسری طرف سپریم کورٹ کے جسٹس ارون مشرا کی قیادت  والی بنچ نے پرشانت بھوشن کے خلاف سال 2009 کےتوہین عدالت کے معاملے کو ایک مناسب بنچ  کے سامنے لسٹ  کرنے کو کہا ہے۔جسٹس مشراتین ستمبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں، اس لیے انہوں نے معاملے کو ایک نئی بنچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت  دی۔

پرشانت بھوشن کے ذریعے سال 2009 میں تہلکہ میگزین کو دیے ایک انٹرویو کو لےکر ان پر ہتک عزت کا معاملہ  چل رہاہے، جس میں بھوشن نے مبینہ  طور پر یہ الزام  لگایا تھا کہ پچھلے 16 چیف جسٹس  میں سے کم سے کم آدھے کرپٹ تھے۔