کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے الزام لگایا کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا کو اڈانی گروپ کو بچانے کے لیے سرمایہ کاری پر مجبور کیا گیا،جس نے لوگوں کی زندگی بھر کی بچت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ ‘پی ایم کیئرس فنڈ’کو آئین کے آرٹیکل 12 کے تحت ‘سرکاری فنڈ’ قرار دینے کے مطالبے سے متعلق عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جس کے بارے میں مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں مرکز کی جانب سے ایک صفحے کا جواب داخل کیا گیا، جس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئےعدالت نے مفصل جواب طلب کیا۔
پی ایم او کی جانب سے یہ جواب عدالت میں دائر ان عرضیوں کے سلسلے میں آیا ہے،جن میں پی ایم کیئرس فنڈ کو سرکاری قراردینے کامطالبہ کیا گیا ہے۔
ایک آر ٹی آئی درخواست میں پوچھا گیا تھا کہ صرف سرکاری محکموں کو مل سکنے والا جی اووی ڈاٹ ان ڈومین پی ایم کیئرس کو کیسے ملا۔سینٹرل انفارمیشن کمیشن میں ہوئی شنوائی میں آئی ٹی کی وزارت کے حکام نے بتایا کہ انہیں پی ایم او کی جانب سےاس بات کا انکشاف کرنے سے روکا گیا تھا۔
افواج کی جانب سے پی ایم کیئرس فنڈ میں دی گئی رقم میں سب سے زیادہ ہندوستانی فوج کی طرف سے 157.71 کروڑ روپے ہے، وہیں فضائیہ نے 29.18 کروڑ روپے اوربحریہ نے 16.77 کروڑ روپے کا چندہ دیا ہے۔
حال ہی میں عوامی کیے گئے پی ایم کیئرس ٹرسٹ کے دستاویز میں جہاں ایک طرف‘کارپوریٹ چندہ حاصل کرنے کےلیےاس کی تعریف سرکاری ٹرسٹ کے طور پرکی گئی ہیں، وہیں ایک کلاز میں اس کو پرائیویٹ ٹرسٹ بتایا گیا ہے۔
لوک سبھا میں اپوزیشن کےرہنماؤں کی جانب سے پی ایم کیئرس فنڈ پر لگاتار سوال اٹھانے پر بی جے پی رہنما کانگریس پرحملہ آور ہوتے رہے، ساتھ ہی کہا کہ پی ایم ریلیف فنڈگاندھی پریوار کی ذاتی ملکیت کی طرح کام کرتا ہے۔ حالانکہ پی ایم کیئرس فنڈ کی جوابدہی کو لےکر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
آرٹی آئی قانون سے ملی جانکاری کے مطابق، او این جی سی نے سب سے زیادہ 300 کروڑ روپے، این ٹی پی سی نے 250 کروڑ روپے، انڈین آئل نے 225 کروڑ روپے کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی(سی ایس آر) کا پیسہ چندہ کے طور پر پی ایم کیئرس فنڈ میں دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر ایک عرضی میں کہا گیا تھا کہ چونکہ پی ایم کیئرس فنڈ کاطریقہ کاربےحدخفیہ ہے، اس لیےاس میں ملنے والی رقم این ڈی آرایف میں ٹرانسفر کی جائے، جو پارلیامنٹ سے پاس کیے گئے قانون کے تحت بنایا گیا ہے اور ایک شفاف سسٹم ہے۔
حال ہی میں مرکزی حکومت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ2005 کے تحت بنائے گئے نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ میں افراداور اداروں کے ذریعے چندہ دینےکو منظوری دی ہے۔ لیکن کووڈ 19جیسی آفت کے دور میں جب طبی سہولیات کی بہتری کے لیے اس میں جمع رقم کا استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں چندہ دینے کے بارے میں عوام کو بےحد کم جانکاری ہے۔
مرکز نے سپریم کورٹ میں پی ایم کیئرس کی تشکیل کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت ایک قانونی فنڈیعنی نیشنل ڈیزاسٹررسپانس فنڈ کے ہونے محض سے رضاکارانہ چندےکے لیے الگ فنڈکی تشکیل پر روک نہیں ہے۔
ویڈیو: بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ 2005-06 میں چین کی حکومت کی جانب سے راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو چندہ دیا گیا تھا، وہیں کانگریس نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ میں کئی چینی کمپنیوں سے چندہ لیا گیا ہے۔ اس موضوع پر کانگریس ترجمان گورو ولبھ سے دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
پی ایم کیئرس فنڈ کا طرزعمل شفاف نہیں ہے اور اس کوآر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے سے بھی باہر کر دیا گیا، جس کی وجہ سے پتہ نہیں چل پا رہا ہے کہ واقعی یہ فنڈ کس طرح سے کام کر رہا ہے، کون اس میں چندہ دے رہا ہے اور اس جمع رقم کو کن کن کاموں میں خرچ کیا جا رہا ہے؟
عرضی میں کہا گیا ہے کہ چونکہ پی ایم کیئرس فنڈ کے کام کرنے کا طریقہ شفاف نہیں ہے اور اس کو آر ٹی آئی ایکٹ کے دائرے سے بھی باہر رکھا گیا ہے، اس لیے اس میں جمع رقم کو این ڈی آر ایف میں ٹرانسفر کیا جائے، جس پر آر ٹی آئی ایکٹ بھی نافذ ہے اور اس کی آڈٹنگ کیگ کرتا ہے۔
وزیر اعظم دفتر کی ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ایم کیئرس فنڈ کا مالی سال کے آخر میں ایک آڈٹ کیا جائےگا اور 27 مارچ، 2020 کو نئی دہلی میں ایک پبلک چیریٹیبل ٹرسٹ کے طور پر اس کورجسٹرڈ کیا گیا تھا۔
دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے وزیر اعظم دفتر کے اس جواب کو چیلنج دیا گیا ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ پی ایم کیئرس فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
پی ایم کیئرس فنڈ میں حاصل ہوئی رقم اور اس کے خرچ کی تفصیلات عوامی کرنے سے منع کرنے کے بعد اب وزیر اعظم دفتر نے فنڈ میں چندہ کوٹیکس فری کرنے اور اس کوسی ایس آر خرچ ماننے کے سلسلے میں دستاویزوں کا انکشاف کرنے سے منع کر دیا ہے۔
بامبے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے پی ایم کیئرس فنڈ کے بارےمیں جانکاری کوعوامی کرنے اور کیگ سے اس کو آڈٹ کرانے کی مانگ کی گئی ہے۔
آر ٹی آئی کے تحت پی ایم کیئرس فنڈ سے متعلق خط وکتابت کی کاپی، فنڈ کو ملے کل چندے، اس فنڈ سے خرچ کی گئی رقم اور ان کاموں کی تفصیلات جس میں پیسے خرچ کیے گئے ہیں، یہ تمام جانکاریاں مانگی گئی تھیں۔ پی ایم او نے کہا کہ یہ جانکاری نہیں دے سکتے کیونکہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
سال 2019 میں اقوام متحدہ نے یہ اندازہ ظاہر کیا تھا کہ رواں مالی سال میں ہندوستان کی اکانومک گروتھ شرح 7.9 فیصدی رہ سکتی ہے۔ نئی دہلی: اقوام متحدہ (یواین) نے جمعرات کو کہا کہ ہندوستان کی اکانومک گروتھ کی شرح رواں مالی سال میں 5.7 فیصد […]
ایس بی آئی کی رپورٹ کے مطابق،رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ گھٹ کر 4.2فیصد رہنے کے امکانات ہیں۔ اس کی وجہ گاڑیوں کی فروخت میں کمی، ہوائی سفر میں کمی،کور ایریا کی گروتھ ریٹ مستحکم رہنے اور کنسٹرکشن، انفراسٹرکچر سیکٹر میں انویسٹمنٹ میں کمی ہے۔
اس انضمام کے بعد سرکاری بینکوں کی تعداد 27 سے گھٹ کر 12 رہ جائے گی ۔ اس سال جنوری میں مرکزی کابینہ نے بینک آف بڑودہ کے ساتھ دینا بینک اور وجیا بینک کے انضمام کو منظوری دی تھی ۔
2012 میں تقریباً 81 کروڑ روپے کا قرض نہ چکانے پر اسٹیٹ بینک آف میسور نے اسٹرلنگ گروپ کے خلاف معاملہ درج کروایا تھا۔ 2014 میں اس کے پرموٹرس کو ول فل ڈیفالٹر قرار دے دیا گیا۔ لیکن 2015 میں آر بی آئی کے اصول کے خلاف گروپ کی ایک کمپنی کو اسٹیٹ بینک کے کنسورٹیم کے ذریعے لون دیا گیا۔
آرٹی آئی کے تحت ریزرو بینک سے ڈیفالٹروں کے نام کی جانکاری مانگی گئی تھی۔
آر بی آئی کے مطابق؛ گزشتہ دس سالوں میں سات لاکھ کروڑ سے زیادہ کا بیڈ لون رائٹ آف ہوا یعنی نہ ادا کیے گئے قرض کو بٹے کھاتے میں ڈالا گیا۔ جس کا 80 فیصدی حصہ جو تقریباً555603 کروڑ روپے ہے،گزشتہ پانچ سالوں میں رائٹ آف کیا گیا ۔
دہلی ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حلف نامہ دائر کرکے یہ بتانے کو کہا ہے کہ اس کے پاس سیاسی پارٹیوں کے اخراجات کے انکشاف کے لیےاور اس کی ریگولیٹری کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کیا اختیارات اور قوت ہیں اور اگر ان باتوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو کیا اقدام کیے جاسکتے ہیں۔
مالی سال 2018 کی شروعات میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے ریٹائر ہورہے 12ہزار لوگوں کی جگہ صرف 10ہزار لوگوں کی تقرری کی کارروائی شرو ع کی۔
18 دسمبر 2018 کو اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ نوٹ بندی کے دوران بھارتیہ اسٹیٹ بینک کے تین افسر اور اس کے ایک گراہک کی موت ہو گئی تھی۔
آر بی آئی کے اعداد و شمار کے مطابق سائبر دھوکہ دھڑی کے ذریعے16-2015 میں بینک اکاؤنٹس سے ایک لاکھ روپے سے زیادہ نکالی گئی رقم کے اعداد و شمار 40.20 کروڑ روپے سے بڑھکر18-2017میں 109.56 کروڑ روپے ہو گئے ہیں۔
ایس بی آئی افسروں نے کہا کہ یو آئی ڈی اے آئی کے حفاظتی نظام میں کئی خامیاں ہیں، جو ہیک کرنے اور کئی اسٹیشن آئی ڈی بنانے کو ممکن بناتا ہے۔ ہم نے اتھارٹی سے اپیل کی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اپنے سسٹم کو زیادہ شفاف بنانے اور ڈیٹا بیس کو زیادہ محفوظ بنانے کے لئے کام کریں۔
غور طلب ہے کہ وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے جمعرات کو کہا تھاکہ 2000 کے نوٹوں کی چھپائی ریزرو بینک آف انڈیا نے’ کم سے کم‘ کر دی ہے۔
مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ ملک بھر میں پبلک سیکٹر کے بینکوں کے 50 فیصدی اے ٹی ایم بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی نوٹ بندی کے بعد چھاپے گئے 2000 روپے اور 500 روپے کے نئے نوٹوں کے خراب معیار کو حکومت نے خارج کیا۔
نوٹ بندی کے دوران نوٹ بدلنے کے لیے بینکوں کی لائن میں لگے لوگوں کی موت کی جانکاری صرف اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے دی ہے۔ بینک نے بتایا کہ اس دوران ایک گاہک اور بینک کے 3ملازموں کی موت ہوئی تھی۔
کیا لوک پال سرچ کمیٹی کی صدر جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کو ان کو کمیٹی سے ہٹا نہیں دینا چاہیے یا ارندھتی بھٹاچاریہ کو خود استعفیٰ نہیں دینا چاہیے؟
ایس بی آئی کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بینک میں کل 723.06 کروڑ روپے کے بینکنگ فراڈ کے 669 معاملے اور دوسری سہ ماہی میں کل 4832.42 کروڑ روپے کے بینکنگ فراڈ کے 660 معاملے سامنے آئے ہیں۔
مودی حکومت کے 4 سالوں میں21سرکاری بینکو ں نے 3 لاکھ 16 ہزار کروڑ کے لون معاف کئے ہیں۔یہ ہندوستان کی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے کل بجٹ کا دو گنا ہے۔ سخت اور ایماندار ہونے کا دعویٰ کرنے والی مودی حکومت میں تو لون وصولی زیادہ ہونی چاہیے تھی، مگر ہوا الٹا۔ ایک طرف این پی اے بڑھتا گیا اور دوسری طرف لون وصولی گھٹتی گئی۔
آل انڈیا بینک آفیسرز کنفیڈریشن نے کہا کہ اس سے پہلے ایس بی آئی کے ساتھ پانچ معاون بینکوں کا انضمام ہوا تھا، لیکن کوئی معجزہ نہیں ہوا۔ گجرات بینک ملازم یونین کا کہنا ہے کہ اس سے بےروزگاری بڑھےگی۔
ایک مرکزی وزیر جس کو اس وقت پیٹرول-ڈیزل کے بڑھتے داموں کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہونا چاہیے تھا تو وہ اپوزیشن کے ایک رہنما کی ضمانت کے دن گن رہا ہے۔ ان کی زبان ٹرول کی طرح ہو گئی ہے۔
وجے مالیا 2 مارچ 2016 کو ملک سے بھاگ گیا تھا جبکہ بینکوں کے گروپ نے اس کے 4 دن بعد سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ مالیا کو ملک سے بھاگنے سے روکا جائے۔
گزشتہ 23 اگست کو گھریلو کرنسی کے شروعاتی کاروبار میں پھر گراوٹ دیکھی گئی اور روپیہ 70کے پار چلا گیا ۔ڈالر کے مقابلے یہ 27پیسے گرکر 70.08پر کھلا۔