موجودہ ہندوستانی سیاست میں ہر پارٹی اپنا کامیاب فارمولہ ایجاد کرنے کی کوشش میں دوسری پارٹی سے کچھ نہ کچھ مستعار لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ آج ہندوستانی جمہوریت کم ہوتےسیاسی متبادل اور ان متبادل کی عدم موجودگی میں اپنے آپ کو ہی متبادل خیال کرنے والوں سے بھری پڑی ہے ۔
ویڈیو: کانگریس کی پنجاب اکائی میں خیمہ بازی اور کانگریس کے سابق ریاستی صدرنوجوت سنگھ سدھو سے کشیدگی کی وجہ سےستمبر میں پنجاب کےوزیر اعلیٰ کےعہدےسے امریندر سنگھ کےاستعفیٰ کے بعد چرن جیت سنگھ چنی نے پنجاب کے27ویں وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔ چنی پنجاب میں وزیر اعلیٰ بننے والے دلت طبقہ کےپہلے شخص ہیں۔اس بیچ سدھو نے بھی ریاستی صدر کے عہدےسے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان معاملوں پر پنجاب کے انچارج کانگریس لیڈر ہریش راوت سے عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ویڈیو: امریندر سنگھ کےاستعفیٰ دینے کے بعد ان کی جگہ کانگریس نے چرن جیت سنگھ چنی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا ہے۔ وہ اس صوبے کےوزیر اعلیٰ بننے والے دلت کمیونٹی کے پہلےشخص ہیں۔ چنی امریندر سرکار میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے وزیر تھے۔ وہ روپ نگر ضلع کے چمکور صاحب حلقہ سے ایم ایل اے ہیں۔ اس سیاسی تبدیلی پر روشنی ڈال رہی ہیں عارفہ خانم شیروانی۔
گجرات 2002کے مسلم کش فسادات کے بعد سیکولر اور لبرل طاقتوں نے کانگریس کو اقتدار میں پہنچایا تھا، اس لیے کئی تنظیموں کا کہنا تھا کہ اس قتل عام میں ملوث سیاسی لیڈران بالخصوص نریندر مودی پر قانون کا شکنجہ کسنا چاہیے۔کئی مقتدر کانگریسی لیڈران بھی اس پر مصر تھے، مگر احمد پٹیل نے دلیل دی کہ مودی کا سیاسی طور پر مقابلہ کرنا چاہیے۔اس طرح ایک گجراتی نے دوسرے گجراتی کو قانونی شکنجہ سے بچاکر کئی سال بعد اس کے لیے وزارت اعظمیٰ کی کرسی تک پہنچنا آسان بنایا۔
احمد پٹیل کے انتقال کےبعد کانگریس کے پاس ایک بھی ایسارہنما نہیں ہے، جو اتحادی پارٹیوں سے یاعلاقائی طاقتوں سے بات کر سکے۔ احمد پٹیل کی اسی قابلیت کا فائدہ کانگریس اور سونیا گاندھی کو دو دہائیوں تک ملتا رہا۔
ویڈیو: کانگریس کےسینئر رہنما اور راجیہ سبھاایم پی احمد پٹیل کا بدھ کو علی الصبح انتقال ہو گیا۔ تقریباً ایک مہینہ پہلے پٹیل کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ پٹیل کانگریس صدر سونیا گاندھی کے بھروسے مند معاونین میں سے ایک تھے۔
تقریباً ایک مہینے پہلے کانگریس رہنما اور راجیہ سبھا ایم پی احمد پٹیل کورونا وائرس کی زد میں آئے تھے۔ علاج کے دوران ان کے کئی اعضاء نے کام کرنا بند کر دیا۔ کانگریس صدرسونیا گاندھی کے قابل اعتمادساتھیوں میں سے ایک پٹیل ان کے سیاسی صلاح کار بھی تھے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ میں دہلی میں رہنے والے اپنے بھائیوں بہنوں سے ہر وقت امن و امان اور بھائی چارہ بنائے رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔ امن و امان کا بحال ہونا اور جلد سے جلد حالات معمول پر لانا بے حد اہم ہے۔
فیک نیوز راؤنڈ اپ : اسی درمیان دہلی انتخابات کے قریب ان کی ایک تصویر بی جے پی لیڈرمنوج تیواری کے ساتھ عام ہو گئی جس کو شئیر کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے لکھا کہ شاہی امام بی جے پی کے ہاتھوں بک گئے ہیں اور اپنے ایمان اور ضمیر کا سودا کر بیٹھے ہیں۔
مؤرخ رام چندر گہا نے کیرل ادبی میلہ کے دوسرے دن ’راشٹر بھکتی بنام اندھ راشٹریتا‘کے موضوع پر منعقد سیشن میں کہا کہ کانگریس کا جنگ آزادی کے وقت ‘عظیم پارٹی’سے آج ‘قابل رحم خاندانی کمپنی’بننے کے پیچھے ایک وجہ ہندوستان میں ہندوتوا اور اندھ راشٹریتا کا بڑھنا ہے۔
کانگریس کی رہنمائی میں سوموار کو ہوئے اپوزیشن پارٹیوں کے اجلاس میں شہریت قانون کو فوراً واپس لینے اوراین آر سی اوراین پی آر پر روک لگائے جانے کی مانگ کرتے ہوئے تجویز منظور کی گئی۔
بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے کانگریس پر دھوکہ دینے کا الزام لگایا اور کہا کہ راجستھان میں کانگریس حکومت کو باہر سے حمایت دینے کے بعد بھی کانگریس نے دو مواقع پر اس کے ایم ایل اے کو توڑا۔
راہل کا دعویٰ اس آسان اور اکلوتی حقیقت پر ٹکا ہوا ہے کہ وہ سونیا گاندھی کے بیٹے ہیں اور ان کے والد بھی ان کی دادی اور ان کے پرنانا کی طرح ہندوستان کے وزیر اعظم تھے۔
دہلی کے رام لیلا میدان میں منعقد کانگریس کی ’بھارت بچاؤ ریلی‘ میں کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ آج ملک میں اندھیر نگری چوپٹ راجا جیسا ماحول ہے اور پورا ملک پوچھ رہا ہے کہ سب کا ساتھ ،سب کا وکاس کہاں ہے؟
سونیا گاندھی نے حکومت پر سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا کہ منافع کمانے والے پبلک سیکٹر انڈر ٹیکنگس (پی ایس یو)کو پی ایم مودی کے دوستوں کو بیچا جا رہا ہے۔غور طلب ہے کہ مرکزی حکومت نے بھارت پیٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ سمیت 28 پی ایس یو میں اپنی حصہ داری بیچنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہریانہ کے وزیراعلیٰ اور بی جے پی رہنما منوہر لال کھٹر نے ایک انتخابی ریلی میں کہا کہ مودی حکومت نے دنیا بھر میں ہندوستان کا قد بڑھایا ہے، کیونکہ اس کے لئے ملک ہمیشہ سب سے اوپر ہے، جبکہ کانگریس نہرو-گاندھی فیملی سے آگے نہیں سوچ سکتی ہے۔
پی چدمبرم ، رابرٹ واڈرا، اور ڈی کے شیو کمار سے ای ڈی درجنوں بار پوچھ تاچھ کر چکی ہے، لیکن پھر بھی انتخاب کی دستک کے ساتھ ہی ای ڈی کو پوچھ تاچھ کے لیے ان کی حراست چاہیے۔
بی جے پی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اجئے اگروال نے مبینہ طور پر وزیر اعظم مودی کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرنے پر کانگریسی رہنما منی شنکر ایئر کے خلاف 2017 میں عرضی دائر کر کے سیڈیشن کا معاملہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ کانگریس کی حکومت والی ریاستی حکومتوں کو حساس، جواب دہ اور شفاف حکومت کی مثال پیش کرنی ہوگی اور منشور میں کئے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا۔
سماجی کارکن انا ہزارے نے کہا کہ ان کی صحت ٹھیک نہیں ہے لیکن اگر ملک کے لوگ آر ٹی آئی قانون کی حفاظت کے لئے سڑکوں پر اترے تو وہ ان کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں۔
مشہور سماجی کارکن ارونا رائے نے کہا کہ اس قانون کو لوک سبھا میں لمبی بحث اور صلاح مشورہ کے بعد پاس کیا گیا تھا اور موجودہ حکومت کی نئی تبدیلی آر ٹی آئی کو بےحد کمزور کرنے والی ہے۔
یو پی اے صدر سونیا گاندھی نے لوک سبھا سے منظور ہوئے آر ٹی آئی ترمیم بل کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کو وسیع غوروفکر کے بعد بنایا گیا اور پارلیامنٹ نے اس کو اتفاق رائے سے منظور کیا۔ اب یہ ختم ہونے کی کگار پر پہنچ گیا ہے۔
شیلا دکشت 3 بار دہلی کی وزیراعلیٰ رہ چکی تھیں۔ سنیچر کی صبح طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ان کو اسکارٹس ہاسپٹل میں داخل کرایا گیا تھا۔
یہ شرمناک ہے کہ گاندھی خاندان اور تھرور و تیواری جیسے لوگ عہدوں کی خواہشات میں الجھ رہے ہیں، جبکہ یہ وقت کانگریس کو باہمی جمہوریت کی طاقت دکھانے کا تھا۔
نہرو سے لے کر راجیو گاندھی تک اس ٹکراؤ کا فیصلہ وزیر اعظم کے حق میں کیا جاتا رہا۔ 1998 میں اسے اس وقت الٹ دیا گیا، جب سونیا گاندھی نے بطور کانگریس صدر ذمہ داری سنبھالی۔
راہل گاندھی نے اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سبھی آئین اور ہر ہندوستانی کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ہمارے پاس ابھی بھی 52 رکن پارلیامان ہیں اور ہم ہر دن بی جے پی سے لڑیںگے۔
ہمارے لبرل صحافی اور روشن خیال دانشوران فاشزم اورکمیونلزم کے خلاف اپنی لڑائی کو مسلمانوں کے کندھوں پر رکھ کر کیوں لڑنا چا ہتے ہیں؟ ڈر کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں چپکا دینا چاہتے ہے؟ جہاں تک مسلمانوں کے ڈر جانے کا سوال ہے تو یہ محض ایک فیک نیوز ہے۔ متھ ہے۔ اور کچھ نہیں۔ مسلمان فکر مند ضرور ہیں، خوف زدہ با لکل نہیں۔تقسیم کے بعد جن مسلمانوں نے پاکستان کو ٹھکرا دیا کم از کم ان کے بارے میں تو ایسا ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
بہت منصوبہ بند طریقے سے پورے الیکشن کے دوران یا مشترکہ محاذ بنانے کے معاملے پر سونیا خاموش رہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ راہل کی والدہ یا کانگریس کی سابق صدر ہونے کا کوئی اثر راہل کی سیاسی سرگرمیوں پر پڑے۔ لیکن اب چناوی سرگرمیاں تھمنے کے بعد، سونیا اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
کسی بھی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں بھولے سے بھی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا۔کانگریس نے تو انتخابی منشور کی رسم اجراء کی تقریب میں غلام نبی آزاد اور احمد پٹیل جیسے قدآور لیڈروں کو بھی دوررکھا۔ بہار کی راشٹریہ جنتا دل ،جس کی پوری سیاست مسلمانوں اوریادو پر منحصر ہے اس نے بھی اپنے منشور میں ایک جگہ بھی مسلم لفظ نہیں لکھا۔
2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔
آج ہندوستانی سیاست ایک ایسے دور میں ہے جب کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلم کمیونٹی کی بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ سیاسی طور پر اچھوت بنا دئے گئے ہیں۔ اب ان کا استعمال اکثریتی آبادی کو ووٹ بینک میں تبدیل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
اس لوک سبھا انتخاب میں کانگریس کسی بھی طرح 100 سیٹیں لانے کی جدوجہد میں لگی ہے۔ یہ اس کے لیے کسی جنگ سے کم نہیں ہے۔ 100 سے کم سیٹیں آنا گاندھی خاندان کے ان تین فرد کی کمزوری ظاہر کرےگا، جو کانگریس کے لیے دل و جان سے تشہیر کر رہے ہیں۔
بی جے پی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اجئے اگروال نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے۔ سال 2014 میں کانگریسی رہنما سونیا گاندھی کے خلاف انتخاب لڑنے والے اگروال کو پارٹی نے اس بار رائےبریلی سے ٹکٹ نہیں دیا ہے۔
مشرقی اتر پردیش میں شناخت کی سیاست سب سے زیادہ تلخ ہے۔ پٹیل، کرمی، راج بھر، چوہان، نشاد، کرمی- کشواہا وغیرہ کی اپنی پارٹیاں بن چکی ہیں اور ان کی اپنی کمیونٹی پر گرفت بےحد مضبوط ہے۔ کانگریس کو ان سب کے درمیان اپنے لئے کم سے کم 20 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہوگا تبھی وہ یوپی میں باعزت مقام پا سکتی ہے۔
کانگریس کئی سروے کرا چکی ہےجس سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اکیلی پرینکا ہی کانگریس کی انتخابی مہم میں جان پھونکنے کے لیے کافی ہیں۔ان کی حاضر جوابی اور طنزیہ جملے کانگریس کو وہ جوش و جذبہ دیں گے، جس کی آج سخت ضرورت ہے۔ اندرا گاندھی سے ملتی جلتی ان کی شباہت، پارٹی کیڈر؛ خصوصاً نوجوانوں کو متاثر و متحرک کرنے کی صلاحیت ان کو ایک جداگانہ پہچان دیتی ہیں۔
بی جے پی کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد ٹام وڈکن نے کہا کہ پاکستان واقع دہشت گردوں کے کیمپ پر ہوئے حملے پر کانگریس کا ردعمل افسوس ناک ہے۔ وکاس کو لے کر وزیر اعظم نریندر مودی کی سوچ پر مجھے مکمل بھروسہ ہے۔
اگستا ویسٹ لینڈ وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر گھوٹالہ میں 6 کروڑ یورو کی دلالی کے ملزم برٹش نژاد مشیل نے کہا کہ میرے بغل والا قیدی چھوٹا راجن ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ میں نے کیا جرم کیا ہے کہ مجھے ان لوگوں کے ساتھ رکھا جا رہا ہے جنہوں نے کئی قتل کئے ہیں۔
ہندوستانی سیاست میں کرشمائی قیادت نے کئی کرشمے دکھائے ہیں، لیکن کسی بھی دور میں کرشمہ کے مقابلے زمینی فارمولے اور کمیونٹیز کی صف بندیاں زیادہ مؤثر رہی ہیں۔ فی الحال کانگریس کم سے کم یوپی میں تو ان دونوں مورچوں پر پچھڑتی نظر آ رہی ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ پرینکا نے ایک کتاب اور مکمل کر لی ہے۔ ان کی ذاتی زندگی اور سیاست سے متعلق اس کتاب کا عنوان فی الحال Against Outrage دیا گیا ہے۔
سند رہے کہ 1998 کے انتخابات میں اکیلی پرینکا گاندھی نے اپنے انکل ارون نہرو کی لنکا ڈھا دی تھی۔ کانگریس کے امیدوار کیپٹن ستیش شرما کے سامنے بی جے پی نے ارون نہرو کو اتار دیا تھا۔