خبریں

منی پور کے سی ایم بولے – خواتین کی برہنہ پریڈ اور ان پر جنسی تشدد کے ویڈیو سے ریاست کی شبیہ خراب ہوئی

منی پور میں دو کُکی خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کا لرزہ خیز ویڈیو سامنےآنے کے بعد وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے اس سلسلے میں ریاست گیر احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے  کہا  ہےکہ ریاست کے لوگ خواتین کو ماں کا درجہ دیتے ہیں، لیکن کچھ شرپسندوں کی وجہ سےریاست کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔

این بیرین سنگھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@NBirenSingh)

این بیرین سنگھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@NBirenSingh)

نئی دہلی: منی پور کے تھوبل ضلع میں دو کُکی خواتین کی برہنہ پریڈ اور جنسی تشدد کے لرزہ خیز ویڈیو کے حوالے سے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑنے کے ایک دن بعد وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے کہا کہ انہوں نے اس ویڈیو، جس  نے ‘ریاست کی شبیہ کو داغدار کیا ہے’ کی مذمت کرتے ہوئے ریاست گیر احتجاج کی اپیل کی ہے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا، ‘جو ویڈیو وائرل ہوا…ہمیں ریاست بھر میں اس کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہماری یہ جو ریاست ہے، اس میں  جو لوگ رہتے ہیں ،وہ خواتین  کو اپنی ماں سمجھتے ہیں۔ لیکن شرپسندوں نے ایسی حرکت کر کے ہماری شبیہ کو خراب  کر دیا ہے۔ اس لیے پوری ریاست میں، پہاڑوں اور وادیوں میں ہر جگہ ہم اس کی مذمت کریں گے۔ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں، انہیں سخت ترین سزا دی جائے گی۔’

بیرین کو 3 مئی سے جاری نسلی تشدد کو سنبھالنے میں اپنی انتظامیہ کی ناکامی پر شدید تنقید کا سامنا  کرنا پڑ رہا ہے۔ کئی حلقوں نے ان پر تشدد بھڑکانے یا  ایک فریق کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔

کئی  لوگوں نے اس اس بات کے لیے بھی تنقید کی ہے کہ ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اور جرم کے 78 دن بعد ہی معاملے میں پہلی گرفتاری ہوئی تھی۔ بیرین نے ٹوئٹر پر اس گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔

اس سے قبل سنگھ نے ایک چینل سے بات چیت میں کہا تھا کہ ریاست میں اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہو ئے ہیں، اسی لیے انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

دی ٹیلی گراف نے ایک 19 سالہ طالبہ  کی آپ بیتی سنائی ہے جن پر منی پور میں حملہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے بیرین سنگھ کے یہ کہنے پر کہ منی پور سماج میں اس طرح کی حرکتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے،اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا، ‘مجھے نہیں معلوم کہ وہ اب یہ سب باتیں کیوں کہہ رہے ہیں۔ کیا صرف اس لیے کہ انہوں نے وائرل ویڈیو دیکھا ہے؟

طالبہ نے اپنے ساتھ بدسلوکی کے دردناک تجربات شیئر کیے ہیں۔ انہوں نے ٹیلی گراف کو بتایا، 4 مئی کو ہمارے کالج کے ہاسٹل پر گینگ کے  چھاپے  کےبعد جو کچھ میرے ساتھ ہوا اس کا داغ میں ابھی تک برداشت کر رہی ہوں۔ انہوں نے ہاسٹل میں تقریباً 90 طالبات میں سے کُکی طالبات  پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ان کے شناختی کارڈ چیک کیے۔

انہوں نے کہا، مجھے اور میری  دوست کو ارمبائی تینگول اور میتیئی لیپون (شدت پسند میتیئی یوتھ آرگنائزیشن) کے گروپ نے پکڑ لیا اور پہچان لیا۔ اس گروپ میں مردوں کے ساتھ کچھ خواتین بھی تھیں۔ آدھے گھنٹے سے زیادہ تک ان  لوگوں نے ہمیں ایسے مارا جیسے بچے فٹ بال  پاؤں سے مارتے ہوئے کھیلتے ہیں ۔ وہ ہم پر کود رہے تھے…جو کچھ ہوا اس کو بتانے کے لیے  میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔

واضح ہو کہ بدھ کے روز سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک پریشان کن ویڈیو میں دو قبائلی کُکی خواتین کو تھوبل ضلع کے ایک گاؤں میں ہجوم  کے ذریعے برہنہ حالت میں گھمانے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ ان میں سے ایک خاتون کے ساتھ گینگ ریپ بھی کیا گیا تھا۔ اس واقعہ نے پورے ملک کو صدمے سے دوچار کردیا ہے اورلوگوں  میں غم و غصہ ہے۔

دونوں  سروائیورخواتین نے دی وائر کو بتایا کہ پولیس موقع پر موجود تھی، لیکن اس نے خواتین کی مدد نہیں کی۔

قابل ذکر ہے کہ 3 مئی سے کُکی اور میتیئی کمیونٹی کے درمیان نسلی تشدد میں 140 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ جبکہ تقریباً 50 ہزار لوگ بے گھر ہو ئے ہیں۔

منی پور میں 3 مئی کو ہونے والا نسلی تشدد تقریباً  ڈھائی ماہ سے جاری ہیں۔ اکثریتی میتیئی کمیونٹی کی طرف سے ایس ٹی کا درجہ دینے کے مطالبے نے ریاست میں کشیدگی کو جنم دیا تھا، جسے پہاڑی قبائل اپنے حقوق پر تجاوز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس تشدد کے بعد اب قبائلی رہنما الگ انتظامیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

منی پور میں   میتیئیئی کمیونٹی آبادی کا تقریباً 53 فیصد ہے اور زیادہ تر وادی امپھال میں رہتی ہے۔آدی واسی ، جن میں ناگا اور کُکی شامل ہیں، آبادی کا 40 فیصد ہیں اور زیادہ تر پہاڑی اضلاع میں رہتے ہیں، جو وادی کے علاقے کے چاروں طرف واقع ہیں۔

کُکی گروپوں نے جہاں منی پور کی بی جے پی حکومت کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ پر تشدد بھڑکانے کا الزام لگایاہے، وہیں  اپوزیشن جماعتیں تشدد کے حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتی  رہی ہیں۔