بے گناہوں کے قتل، خواتین کے ساتھ صریح زیادتیاں، اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بننے کو مجبور لوگ، شرپسندوں کے خلاف قانون کے محافظوں کی سست کارروائی، تشدد کے مذہبی یا فرقہ وارانہ ہونے کے واضح اشارے … ہم واقعات کے سلسلے کو دہراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، بس درمیان میں ایک طویل وقفہ ہے۔
کسی ملک کے سفر میں دو دہائی کے عرصے کومعمولی ہی کہا جا سکتا ہے۔
منی پور میں تین کُکی–زو خواتین کے ساتھ ہوئی جنسی درندگی اور ایک جنونی ہجوم کے ذریعے ان کی برہنہ پریڈ- جبکہ پولیس مبینہ طور پر خاموش کھڑی تھی – تقریباً تین ماہ قبل پیش آئے اس واقعہ کے وائرل ویڈیو نے دو دہائی پہلے گجرات کی بلقیس بانو کے ساتھ ہوئے گینگ ریپ ، موقع پر اس کے رشتہ داروں کے قتل اور آج بھی انصاف کے لیے جاری اس کی جدوجہد کی داستان کو از سر نو زندہ کر دیا ہے۔
When you voted for Gujarat Model 2002, you got #Manipur Model 2023. Your vote, your choice.
— SANJAY HEGDE (@sanjayuvacha) July 20, 2023
خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب اس گھناؤنے جرم کے بارے میں ریاست کے وزیر اعلیٰ مسٹر این بیرین سنگھ سے کسی چینل پر پوچھا گیا تو انہوں نے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی کہ ‘ایسے سینکڑوں کیس ہیں…’
آپ کہہ سکتے ہیں کہ انجانے میں ہی صحیح اس واقعہ نے ان دونوں علاقوں میں پیش آئے کسی خاص فرقہ یا کمیونٹی سے متعلق (فرقہ وارانہ) نسلی (ایتھنک) تشدد کے برہنہ رقص کی یادیں بھی تازہ کی ہیں، ایک، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ایک ، جو دو دہائی قبل ہمارے سامنے پیش آیا تھا۔
بے گناہوں کا قتل، مکانوں، دکانوں، مذہبی مقامات کو نذر آتش کرنا، خواتین کے جسمانی اعضا کے ساتھ صریح زیادتیاں، اپنے اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے ہی ملک میں پناہ گزین کیمپوں میں رہنے کو مجبور، انتظامی عملے پر جانبداری کے الزام، اس کی بے حسی اور سفاکی،ظلم ڈھانے والوں کے خلاف قانون کے محافظوں کی جانب سےکارروائی میں سستی کے الزام ، تشدد کے مذہبی یا فرقہ وارانہ ہونے کےواضح اشارے…
ایسا محسوس ہو سکتا ہے گویا ہم واقعات کےسلسلے کو دہراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، درمیان میں بس ایک طویل وقفہ ہے۔ بہرحال شکلیں بدل گئی ہیں، لوگ بدل گئے ہیں، ہنگاموں میں شامل تنظیمیں اور آرگنائزیشن کے لیبل بدل گئے ہیں…
قابل ذکر ہے کہ منی پور کے ضلع کانگ پوکپی کا 4 مئی کا وہ ویڈیو، جس میں وہ تین کُکی–زو آدی واسی خواتین نظر آ رہی ہیں، اس واقعے میں ایک متاثرہ خاتون کے بھائی اور باپ کو بھی قتل کر دیا گیا تھا، جو اس کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور ان کے اردگرد ایک انتہائی جنونی اور وحشی ہجوم نظر آ رہا ہے، جو ان عورتوں کے خلاف بہیمانہ تشدد کو انجام دے رہا ہے، اور فتح کا ایک احساس ان کے چہروں پرگامزن ہے؛ غیر برادری کی عورت کے ساتھ ایسا سلوک کر کے گویا وہ اس فتح کو مکمل کر رہے ہیں۔
ایلک لا متنا ہی سماجی درندگی کا رقص جاری ہے ،اگر ہم اپنی یادوں کو جھنجھوڑنا چاہیں تو دو دہائی قبل ملک کے مغربی صوبے میں جاری تشدد کے حوالے سے ایسی ہی تصویریں ہماری ٹی وی اسکرین پر کبھی کبھی چمکتی تھیں یا اخبارات میں شائع ہوتی تھیں۔
ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس شمال–مشرقی ریاست میں جاری نسلی تشدد یا ایک خاص کمیونٹی کے خلاف تشدد، جس میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں – اور جو آج بھی پوری طرح سےپر سکون نہیں ہے – اسی بات کو ثابت کرتا ہے کہ صوبائی حکومت صورتحال پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ لازمی طور پر حکمراں جماعت بی جے پی سے وابستہ وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کا مطالبہ تیز ہو گیا ہے اور صوبے میں صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔
ویسے اس تشدد کے بہانے ‘ڈبل انجن’ سرکار کا ڈھنڈورہ پیٹنے والوں کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ ایک تجزیہ کار نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ڈبل انجن سرکار یعنی مرکز اور ریاست میں ایک ہی پارٹی کی حکومت نہ ہوتی تو ممکن ہے کہ حالات پر بہت پہلے قابو پا لیا گیا ہوتا!
جیسا کہ اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ میانمار کی سرحد سے ملحق اس شمال–مشرقی ریاست میں جاری خون آلود واقعات کی جانب بین الاقوامی میڈیا نے بھی توجہ مبذول کی ہے اور اس پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی کے حوالے سے تنقیدی آوازیں بھی سنائی پڑ رہی ہیں۔ یہی نہیں مختلف بین الاقوامی فورم پر یہ مسئلہ بحث کے مرکز میں آرہا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ قبل جب وزیر اعظم مودی فرانس کے دورے پر تھے –جب وہاں باستیل ڈے یعنی قومی یوم فرانسکی تقریبات ہو رہی تھیں (14 جولائی، جس دن تاریخی فرانسیسی انقلاب کا آغاز ہوا تھا)، اسی دن یورپی پارلیامنٹ میں اس مسئلے پر بحث کی گئی تھی اور تشویش ظاہر کی گئی تھی (بعد میں ہندوستانی حکومت کے ترجمان نے اس بحث کو’نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی’ کہہ کر مسترد کر دیا تھا)۔
غور طلب ہے کہ ہندوستان میں امریکی سفیر نے بھی اس تشدد حوالے سے ‘انسانی سرکار’ کا اظہار کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اگرپوچھا گیا تو امریکی حکومت ‘کسی بھی طرح سے مدد کرنے کو تیار ہے’، حالانکہ انہوں نےیہ بھی کہا تھا کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
ویسے بین الاقوامی فورم پر منی پور کے واقعات کا بڑھتا ہوا تذکرہ ہمیں اس دور کی بھی یاد دلا سکتا ہے جب بین الاقوامی فورم پر گجرات کے بارے میں بات ہو رہی تھی، جب ہندوستان کی اس مغربی ریاست میں ہونے والی پیش رفت بہت تشویشناک نظر آرہی تھی۔
اگر ہم خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کی بات کریں تو ان دنوں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، سری لنکا وغیرہ کی خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی شراکت سے ایک بین الاقوامی ٹریبونل بھی تشکیل دیا گیا تھا، جس نے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران خواتین پر ہونے والے مظالم کے بارے میں جاننے کے لیے ریاست کا دورہ کیا تھا اور اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ ان کے نتائج یہی تھے کہ کس طرح خوف و دہشت پیدا کرنے کے لیےعصمت دری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
بلاشبہ، کوئی بھی غیر جانبدار مبصر/مشاہد ان دونوں واقعات کے فرق کو بہ آسانی نوٹس میں لے سکتا ہے؛
ان میں سے پہلا حقیقت کی تلاش یعنی فیکٹ فائنڈگ کو ہی مجرمانہ قرار دینا ہے، اور یہ کام ریاست اور اس کی ایجنسیوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے، حقائق کی جستجو کو ہی مشتبہ بنا دینا۔
یہ وہی قواعد ہے، جس کا آغاز بی جے پی حکومت میں ہی ہوا ہے۔ چھتیس گڑھ کی پچھلی رمن سنگھ حکومت نے کس طرح دانشوروں اور کارکنوں کے خلاف سنگین دفعات کے تحت کیس درج کیا تھا— جب وہ فرضی انکاؤنٹر کیس کی تحقیقات کے لیے گئے تھے اور کس طرح معاملہ عدالت میں ٹھہر نہیں سکا تھا، یہ بات تاریخ بن چکی ہے۔
غورطلب ہے کہ چھتیس گڑھ حکومت کو نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے ہدایت دی تھی کہ وہ انہیں اس کارروائی کے لیے معاوضہ دے۔
منی پور میں شروع ہوئے تشدد کے بعدایسی کئی خبریں آئی ہیں کہ کس طرح دانشوروں اور کارکنوں کو میڈیا سے بات کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور کس طرح شہری حقوق کے کارکنوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمے قائم کیے جا ر ہے ہیں کیونکہ وہ متاثرین سے مل رہے ہیں، اور اپنی سطح پر صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، ساتھ ہی رپورٹ کے ذریعے عوام کے سامنے اپنے مشاہدات پیش کر رہے ہیں۔
یاد کر سکتے ہیں کہ گجرات میں 2002 میں ہوئے تشدد کے بعد شہری حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور جمہوریت پسند لوگوں کی طرف سے کئی مقامات پر لوگ گئے تھے اور انہوں نے رپورٹ شائع کی تھیں، لیکن ان دنوں کسی کارکن یا دانشور کے خلاف ایسا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ جب عدالت نے اس تشدد کے حوالے سے کچھ فیصلے سنائے تو شہری حقوق کے سرکردہ کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ایسی تقریباً 45 رپورٹ شائع ہوئی تھیں اور بہت سے فلمسازوں نے اس صورتحال پر چھوٹی – بڑی فلمیں بنائی تھیں۔
اس جمہوریہ کے سربراہ، جس کے پاس ایگزیکٹو پاور ہے یعنی وزیر اعظم کی جانب سے منی پور کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنے کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
منظم تشدد شروع ہونے کے تقریباً ڈھائی ماہ بعد وزیراعظم نے اپنی خاموشی ضرورتوڑی، لیکن صرف 30 سیکنڈ کے لیے کیونکہ کُکی–زو برادری کی خواتین کے ساتھ جنسی درندگی کا یہ واقعہ قومی اور بین الاقوامی فورم پر سرخیوں میں آگیا۔ انہوں نے خواتین کے خلاف اس تشدد کی مذمت کرتے ہوئے اسے قومی شرم کا باعث قرار دیا، لیکن ریاست میں جاری نسلی تشدد کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں، اس کے بارے میں وہ کسے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، اس پر ایک بھی لفظ نہیں بولا اور نہ ہی امن کی کوئی اپیل کی، تشدد سے متاثرہ ریاست کا دورہ کرنے کی بات تو دور رہی ۔
دو دہائی قبل ملک کے مغربی صوبے میں منظم تشدد شروع ہونے کے بعد ملک کے اس وقت کےوزیر اعظم ایک ماہ کے اندر اس صوبے میں پہنچے ضرور اور انہوں نے صوبائی حکومت کو اپنے راج دھرم کی یاد دلا دی ۔ ظاہر ہے کہ صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ان کے بیان کو بہت ہلکا سمجھا گیا، لیکن اس کے باوجود اس بیان نے انتظامیہ کی ناکامی کو اجاگر ضرور کیا تھا۔
ویسے ابھی ہم یہ جاننے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ صدر جمہوریہ، جو خود قبائلی برادری سے ہیں— انہوں نے منی پور کے اس تشدد کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے یا نہیں، انہوں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم کو خط لکھا ہے یا نہیں؛ لیکن ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت کے صدر جمہوریہ کے آر نارائنن نے دو دہائی قبل جب مغربی صوبے میں تشدد کا ننگا ناچ ہو رہا تھا اور وہ عہدے پر ابھی فائزتھے، اس واقعہ کے بارے میں ان کا کیا خیال تھا یا انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیسے کیا تھا۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس تشدد کے حوالے سے، جس میں حکومت کی ناکامی یا ہندوتوا تنظیموں کے ملوث ہونے کے الزامات تھے، اوربعد میں اس کی تحقیقات کے لیےبنے ناناوتی شاہ کمیشن کے سامنے کیا کہا تھا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہوں نے جو بات کہی وہ حکومت کے کانوں کے لیے یقینی طور پر سکون بخش نہیں رہی ہوگی۔
ایک وقت تھا جب منی پور مین اسٹریم میڈیا میں اکثر سرخیوں میں رہتا تھا جب اروم شرمیلا انتہائی جابرانہ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) کو ہٹانے کے لیے تاریخی ہڑتال پر تھیں ، جو 16 سالوں تک چلا تھا۔
یاد کردسکتے ہیں کہ منی پور اس وقت بھی قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں سرخیوں میں آیا تھا، جب 17 آسام رائفلز کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے بزرگ خواتین نے برہنہ ہو کر مظاہرہ کیا تھا، کیوں کہ وہ تھانگ جام منورما کی عصمت دری اور قتل کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔
منی پور میں طویل عرصے سے سرگرم خواتین کی سماجی تنظیم ‘میرا پیبی’ بھی اکثرسرخیوں میں رہی ہے، جو سماجی برائیوں کے خلاف سرگرم ہے اوراس نے خطرناک قوانین کے خلاف بھی مسلسل جدوجہدکیا ہے۔
آج یہ سب واقعات ماضی کی باتیں ہیں۔ آپ کے سامنے یہ ایک نیا منی پور ہے۔ نیو انڈیا کا نیا منی پور—جہاں گزشتہ تین ماہ سے جاری تشدد ابھی جاری ہے۔
§
تاہم، سماجی اور سیاسی تحریکوں کی طویل تاریخ کے باوجود یہ سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے کہ منی پور میں جاری اندرونی تشدد کی طرف – جس کی نسلی، مذہبی، قبائلی-غیر قبائلی جہتیں ہیں – اور جو اتنے دنوں سےجاری ہے، باقی ملک کی توجہ جلدی نہیں گئی، اس تشدد نے سول سوسائٹی کو اس طرح مضطرب نہیں کیا جس طرح دو دہائی پہلے گجرات کے واقعات نے مضطرب کیا تھا۔
آخر اس کے لیے تین کُکی–زو خواتین کے ساتھ جنسی درندگی کے ویڈیو کے وائرل ہونے کا انتظار کیوں کرنا پڑا، جبکہ گجرات کے واقعات پر ردعمل بیرونی ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر سننے کو ملا تھا۔ وہاں کی حکومتوں پر اتنا دباؤ پڑا تھا کہ جن لوگوں کو اس تشدد کاماسٹر مائنڈ کہا جا تا ہے ان کے لیے بیرون ملک سفر کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
کیا اس کی وجہ یہی ہے کہ منی پور ایک چھوٹی ریاست ہے، جس کی آبادی بہ مشکل 30 لاکھ کے قریب ہے، جبکہ گجرات ایک بڑی اور خوشحال ریاست ہے (آبادی 70 ملین سے زیادہ) یا اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی ہندوستان ہمیشہ سے ہی شمال–مشرقی ریاستوں کے حالات سے انجان سا بنا رہتا ہے؟
یا اس کی وجہ یہ ہے کہ منی پور میں جاری تشدد میں میتیئی (آبادی کا 53فیصدی حصہ) – جن میں زیادہ تر ہندو ہیں اور جو وادی میں رہتے ہیں – اور کُکی، جو بنیادی طور پر عیسائی ہیں، جنہیں ایک قبائلی برادری سمجھا جاتا ہے اور ان کی آبادی 30 فیصدی سے کم ہے اور دونوں برادریوں کے درمیان تعلقات گزشتہ چند سالوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر کشیدہ ہوئے ہیں اور منی پور ہائی کورٹ کا میتیئی کو بھی قبیلے میں شامل کرنے کا فیصلہ (جس پر سپریم کورٹ نے روک لگا دی ہے)، جس نے چنگاری کا کام کیا یا اس کی وجہ یہ ہے کہ خطے میں کشیدگی کا جاری رہنا باقی ہندوستان میں اکثریتی ہندوتوا کے ایجنڈے کو مضبوطی دیتا ہے؟
یا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سنگھ-بی جے پی کی طرف سے اکثریتی ہندوتوا کے جس ایجنڈا کو آگے بڑھایا جاتا رہا ہے ، اس کے لیے پورے ہندوستان میں سال 2000 کےدنوں میں نسبتاً کم پرکشش تھا اور اب یہ کشش، قبولیت بڑھ گئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان ریڈیکل انداز میں بدل گیا ہے۔
ایسے بہت سے سوال ہو سکتے ہیں…
جب گجرات 2002 ہو رہا تھا تب یہ دیکھا گیا کہ وہ آزاد ہندوستان کا پہلا ایسا فساد تھا جسے ٹی وی نیٹ ورک کے ذریعے ہمارے بیڈ روم میں ‘لائیو’ پہنچایا گیا اور یہ ایک طرح سے خطرے کا اشارہ بھی تھا کہ یہ جانا جائے کہ عوام الناس کے ذہنوں میں کتنی گہرائی تک ‘اقلیتی مخالف ذہنیت’نے جگہ بنالی ہے۔
یہ ایک پریشان کن احساس تھا کہ آزاد ہندوستان کے معماروں – جنہوں نے ہندوستان کی سیاسی اور سماجی آزادی کی جدوجہد کی قیادت کی تھی – سیکولرازم اور تکثیریت سےان کی وابستگی فقیدالمثال تھی اور وہ جمہوریت کی مضبوط بنیاد رکھنا چاہتے تھے، جمہوری اداروں کو مضبوط بنانا چاہتے تھے، لیکن اس کی سماجی بنیاد بہت کمزور ہے اور اس کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا وہ ڈاکٹر امبیڈکر نہیں تھے جنہوں نے ہمیں خبردار کیا تھا کہ ‘ہندوستان میں جمہوریت ہندوستانی سرزمین پر ایک اوپری خول ہے، جو لازمی طور پر غیر جمہوری ہے’۔
§
نوآبادیاتی مخالف جدوجہد کا ایک وہ دور تھا جب وہ نعرہ مشہور تھاکہ’آج بنگال جو سوچتا ہے، ہندوستان کل سوچے گا’، یہ ایک طرح سے بنگال میں راجہ رام موہن رائے، ایشور چندر ودیا ساگر وغیرہ کی آمد کے بعد فکری دنیا میں برپا ہنگامے کی طرف اشارہ کررہا تھا۔ تقریباً 20 سال پہلے اس نعرے کو ایک نیا موڑ ملا۔ ہندوستان کی مغربی ریاست میں تشویشناک صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے نعرہ دیا گیا تھا کہ، ‘آج گجرات میں جوہو رہا ہے…’۔
آج جبکہ شمال–مشرقی صوبہ منی پور بھی اتھل پتھل میں ہے اور جمہوریت کے تمام اداروں کی ناکامی بار بار سامنے آ رہی ہے، تو کیا اس نعرے کو نئی شکل میں ڈھالنا موزوں نہیں ہوگا ‘آج منی پور میں جو ہو رہا ہے…’
ہم یاد کر سکتے ہیں کہ خواتین کے قومی کمیشن کی سربراہ نے منی پور میں جنسی زیادتی کے واقعات کے بارے میں اور کمیشن کے سامنے پیش کیے گئے جنسی زیادتی کے واقعات کے بارے میں کیا کہا؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کی شکایت کمیشن نے کی تھی لیکن منی پور کے حکام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
آخر میں، پچھلی دو دہائیوں کے دوران ہندوستان بہت تیزی سے بدلا ہے۔
’نیو انڈیا‘ کے نام پر ایک طرح سےہندوستان کی ایک نئی شکل ہمارے سامنے ہے جہاں جن بنیادی اصولوں پر اس کو تشکیل دیا گیا تھا، ان کو عملی طور پر ترک کرکے اسے رفتہ رفتہ ہندو راشٹر کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
شاید اب وقت آ گیا ہے کہ نئی فہم و دانش اور توانائی کے ساتھ اور نئی طاقتوں کو اس میں شامل کر تے ہوئے ایسے کسی امکان کو خارج کر سکیں اور ہم اس خواب کوشرمندہ تعبیر کے لیے نئے سرے سے عزم کریں جس میں تمام برادریاں مل جل کر امن سے رہ سکیں۔ فرقہ/مذہب کے نام پر کسی سے نفرت اوردشمنی کی گنجائش نہ ہو۔
شاید ہمیں اس متھ سے بھی ہمیشہ کے لیے توبہ کر لینی چاہیے کہ ‘ہمارا معاشرہ روادار رہا ہے’، جس کے بارے میں آج بھی روشن خیال طبقے کا ایک حصہ بہت باتیں کرتا ہے۔ آخر کوئی بھی معاشرہ، کوئی بھی قوم، جو پسماندہ طبقات کے لوگوں کو برابر کا انسان نہ سمجھے، اس کو روادار کیسے کہا جا سکتا ہے؟
وہ وائرل ویڈیو اور سروائیور خواتین کی جانب سے دی گئی شہادتیں اس بات کاایک اور ثبوت ہیں کہ کس قسم کے وحشی اور مجرم ہمارے معاشرے میں رہتے ہیں ،جو کسی معمولی واقعہ سے مشتعل ہو کر ‘غیروں’ کے خلاف ہولناک سفاکیت کو انجام دے سکتے ہیں اور خواتین کے جسمانی اعضا کے ساتھ کھلےمیں، تمام لوگوں کے درمیان چھیڑ چھاڑ کرنے سے ایک عجیب قسم کی خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔
المیہ ہی ہے کہ ایسے بے رحم درندوں اور وحشیوں کو سیاسی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے اور دونوں کے بیچ ہم آہنگی قائم رہتی ہے، تال میل ہوتا ہے۔ اور ہم اپنی پتھرجیسی خاموشی کے درمیان ایسےریپسٹ کو ‘سنسکاری’ ہونے کی سند حاصل کرتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں اور اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کی سرعام پذیرائی ہو رہی ہے۔
(سبھاش گاتاڈے بائیں بازو کے کارکن، مصنف اور مترجم ہیں۔)
Categories: فکر و نظر