فکر و نظر

جی – 20 اجلاس، حصولیابیاں اور ہندوستانی سفارت کاری

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان  نے مشترکہ اعلامیہ میں مذہب اور عقیدے کی آزادی پر زور دینے  پر مشتمل ایک پیراگراف شامل کروایا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ یورپ  اس اعلامیہ کے بعد مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی مسلسل بے حرمتی اور جلانے جیسے واقعات سے کیسے نپٹتا ہے اور خودہندوستان جہاں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے، کیسے اس پر عمل کرتا ہے؟

جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس، فوٹو: @narendramodi

جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس، فوٹو: @narendramodi

ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں منعقدہ گروپ 20 یعنی اقتصادی لحاظ سے دنیا کے بیس طاقتور ممالک کے سربراہان کے اجلاس کی اہم حصولیابیاں میں55 ممالک  پر مبنی افریقی یونین کو فورم میں شامل کرنا،اجلاس کے سائڈ لائنز میں  چین کے بیلٹ روڈ کے متبادل کے بطور ہندوستان اور یورپ کے درمیان مشرق وسطیٰ کے راستے کوریڈرو کا اعلان، اور مذہبی رواداری، مکالمے اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیےاقدامات کے وعدے شامل ہیں۔

اجلاس سے قبل میزبان ہندوستان کے لیے یوکرین پر عالمی اتفاق رائے پیدا کرنا ایک ٹیڑھی کھیر ثابت ہو رہا تھا۔ اس طرح کے کسی بھی اجلاس میں نااتفاقی یا اعلامیہ کا منظور نہ ہونا میزبان ملک کی سفارتی نااہلی تصور کی جاتی ہے۔ مگر مغرب خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے ہندوستان کو اس مشکل سے نکال کر یوکرین کے معاملے میں اپنے موقف میں لچک پیدا کرکے اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد دی۔ اس لچک کا خاکہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات میں جمعہ کی رات کو ہی تیار کیا گیا تھا۔

لہذا سنیچر کو اجلاس کے پہلے ہی دن لنچ کے وقفہ کے دوران جب برطانیہ اور فرانس نے عندیہ دیا، کہ روس کا نام لیے بغیر جنگ کی مذمت کرنے پر وہ تیار ہیں، تو اجلاس کے اختتام کا انتظار کیے بغیر ایک گھنٹے کے اندر ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلامیہ جاری کروایا، الا کہ کوئی ملک اپنا ارادہ نہ بدل دے۔ مودی حکومت یوکرین پر اتفاق رائے کو بھی اپنی بڑی سفارتی کامیابی گردانتی ہے۔

افریقی یونین کو دنیا کے امیر ترین اور طاقتور ترین ممالک کے گروپ میں شامل کرنا اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ ہندوستان کا ایک ریکارڈ رہا ہے کہ جس بھی کثیر الجہتی ادارہ میں اس کا اثر و رسوخ ہوتا ہے، تو وہ اس کی توسیع اور دیگر ممالک کی ممبرشپ میں روڑے اٹکاتا ہے۔ افغانستان کو جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) میں نشست حاصل کرنے میں برسوں لگے۔ حالانکہ 2001کے بعد کابل میں ہند نواز حکومتیں برسراقتدار تھیں۔

اسی طرح 2014میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں منعقدہ 18ویں سارک سربراہی اجلاس میں میزبان نیپال نے سارک میں چین کو بھی شامل کروانے کو کوشش کی تھی، جس کو ہندوستان نے ناکام بنا دیا۔

ان دنوں ہندوستان اور پاکستان، چین کے زیر اثر شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سی او  میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہے تھے، تو نیپال کا استدلال تھا کہ اگر یہ دو اہم ممالک ایس سی او میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تو پھر چین کو سارک میں لانے میں کیا مضائقہ ہے؟

پچھلے ماہ ہندوستان نے برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل ایک اور طاقتور گروپ بی آر آئی سی ایس (برکس) کی توسیع پر بھی اتفاق کیا تھا۔ جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والی سربراہی اجلاس میں میں مزید چھ ممالک کو گروپ میں شامل کیا گیا جن میں افریقی ملک ایتھوپیا بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان کثیرالجہتی فورمز کی توسیع میں اڑچن ڈالتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ اپریل 2010 میں برازیل میں ہونے والی دوسری برک سربراہی کانفرنس میں ہندوستان نے جنوبی افریقہ کا داخلہ روک دیا تھا۔ اجلاس کے میزبان، برازیل کے صدر لوئیز لولا ڈی سلوا کو اتنا یقین تھا کہ سبھی ممالک جنوبی افریقہ کو تسلیم کرنے پر راضی ہو جائیں گے کہ انہوں نے اس وقت کے جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما کو برازیلیا میں مدعو کیا تھا۔ ان کو لگتا تھا کہ جنوبی افریقہ کو شامل کرنا بس ایک رسمی کاروائی ہے۔

تاہم ہندوستان کے کچھ اور منصوبے تھے۔ اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ، جو ہندوستانی وفد کی قیادت کر رہے تھے، نے تنظیم کی توسیع کی مخالفت کی۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ برکس  گروپ نوزائیدہ تھا اور اس لیے دروازے  کھولنے سے پہلے اس کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ زوما کوبے رنگ اگلے ہی روز جنوبی افریقہ لوٹنا پڑا۔

مگر قدرت کا کرنا کہ سربراہی اجلاس کے اختتام پر آئس لینڈ میں آتش فشاں پھٹ پڑا، جس کی راکھ نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یورپ کی فضائی حدود بند کر دی گئی۔ ہندوستانی وزیر اعظم کے طیارہ کو اب نئی دہلی واپس آنے کے لیے براعظم افریقہ کے اردگرد چکر لگانے تھے اور اس کے لیے ایندھن درکار تھا۔

وفد کے ایک ممبر وزیر تجارت آنند شرما نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے طیارہ کو جنوبی افریقہ میں اتار کر اس کے لیے ایندھن فراہم کروایا۔آدھی رات کو جب ہندوستانی وزیر اعظم کا جہاز جوہانسبرگ کے مستقر پر اترا، تو جیکب زوما اپنی آدھی کابینہ کے ساتھ ہوائی اڈے پر وزیر اعظم منموہن سنگھ کو خوش آمدید کہنے کے لیے پہنچے تھے۔ مگر  اسپیشل پروٹیکشن گروپ (ایس پی جی)، جو ہندوستانی وزرائے اعظم کی حفاظت کرتا ہے، نے سنگھ کو طیارے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی، کیونکہ جوہانسبرگ ایئرپورٹ کو سکیورٹی کلیئر نہیں کیا گیا تھا۔

بعد میں، ایس پی جی نے کچھ لچک کا مظاہر ہ کرتے ہوئے، صرف جنوبی افریقہ کی بین الاقوامی تعلقات اور تعاون کی وزیر مائٹ ایملی نکوانا-ماشابان کو طیارے میں سوار ہونے اور ہندوستانی وزیر اعظم سے ملنے کی اجازت دی۔

مگر اس کے بعد ہندوستان کے جنوبی افریقہ سمیت دیگر افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے گئے۔ جس کا خاطر خواہ فائدہ چین نے اٹھایا۔ اگلے ہی سال چین میں ہوئی برک تنظیم کی میٹنگ میں صدر ہوجن تاؤ نے جنوبی افریقہ کو ممبر بنا کر برک کو برکس بنادیا۔ اس طرح کے سفارتی سہو سے بچنے کے لیے اور چین کو اس کا فائدہ اٹھانے سے باز رکھنے کے لیے مودی نے نہ صرف جوہانسبرگ میں چھ ممالک کو برکس میں شامل کرنے پر اتفاق کیا، بلکہ افریقی یونین کو جی – 20 کا مستقل رکن بنوانے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔

اس اجلاس کی ایک اور اہم حصولیابی ہندوستان-مڈل ایسٹ۔یورپ کوریڈور کے خاکہ پر یورپی یونین اور سات ممالک، یعنی ہندوستان، امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے درمیان ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنا تھا۔ اس یاداشت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کا سرمایہ کون فراہم کرےگا، مگر بتایا گیا کہ یہ چین کے بیلٹ روڑ کا متبادل ہوگا۔ ان ممالک نے یہ وعدہ کیا کہ اگلے دو ماہ کے دوران وہ کوئی ایکشن پلان تیار کریں گے۔

اس راہداری میں گجرات کے موندرا بندر گاہ سے متحدہ امارات تک بحری گذر گا ہ کا قیام اور پھر سعودی عرب اور اردن کے راستے اسرائیلی بندر گاہ حیفہ تک ریلوے لائن بچھانا اور اس کے بعد بحیرہ روم کے راستے حیفہ سے یونان کی  پیریئس بندر گاہ تک ایک اور بحری گذرگاہ بنانا شامل ہے۔ یونان کے ساحل سے پھر دیگر ذرائع سے یورپ کے متعدد شہروں کو ہندوستانی مال سپلائی کیا جائےگا۔

یاد رہے کہ موندرا اور حیفہ کی بندرگاہیں مودی کے رفیق بزنس گروپ اڈانی نے خریدی ہوئی ہیں اور وہ فی الوقت یونان کی پیرئیس بندر گاہ کو بھی خریدنے کے فراق میں ہیں۔ اسی سلسلے میں مودی نے حال ہی میں یونان کا دورہ بھی کیا تھا۔

مودی نے اس منصوبے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ راہداری مستقبل میں ہندوستان، مغربی ایشیا اور یورپ کے لیے تعاون، جدت اور مشترکہ پیشرفت کی رہگذر ہوگی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ راہداری تجارت اور توانائی کی برآمدات کو آسان بنائے گی۔مگر  حیفہ اور پیرئیس کے درمیان سمندری راستہ متنازعہ پانیوں سے گزرتا ہے، جس پر یونان اور ترکیہ ایک دوسر ے سے برسر پیکار ہیں۔ ایسی صورت میں ترکیہ کی رضامندی کے بغیر اس راہداری کی تکمیل مشکل ہی لگتی ہے۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ اعلامیہ میں مذہب اور عقیدے کی آزادی پر زور دینے  پر مشتمل ایک پیراگراف شامل کروایا۔ مشترکہ اعلامیہ کے پیراگراف 78 میں کہا گیا ہے، یہ ممالک مذاہب کے احترام اور ثقافتی یگانگت، مکالمہ اور برداشت کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی کتابوں اور علامتوں کی بے حرمتی کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں، بلکہ ملکی سطح پر اس کے خلاف قانون سازی کرنے کا بھی وعدہ کرتے ہیں۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ یورپ  اس اعلامیہ کے بعد مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی مسلسل بے حرمتی اور جلانے جیسے واقعات سے کیسے نپٹتا ہے اور خودہندوستان جہاں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے، کیسے اس پر عمل کرتا ہے؟

سربراہی اجلاس میں غیر ملکی مندوبین کو جو دو دستاویزات پیش کی گئیں، ان میں ہندوستان کی جو تصویر پیش کی گئی، اس میں ایک ہزار سالہ مسلم دور کو دودھ میں مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا گیا تھا۔ پہلی دستاویز میں مختصراً مغل بادشاہ اکبر کا ذکر ہے۔ دوسری دستاویز میں مسلمان حکمرانوں کو حملہ آور اور ہندو حکمرانوں کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

اس دستاویز میں مضحکہ خیز حد تک دعوے کیے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ قبل مسیح  میں ہی ہندوستان نے کشش ثقل کو دریافت کیا تھا۔ آچاریہ کناڈا نے 2500 سال پہلے جوہری نظریہ وضع کیا تھا اور 6000 قبل مسیح میں بابا منڈا کو پنشاد نے جوہری توانائی اور خلائی سفر کے بارے میں لکھا تھا۔

سفارتی تجزیہ کار جیوتی ملہوترا کے مطابق، اس سربراہی اجلاس نے مودی کو گھریلو سیاسی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے میں بھی مدد کی – تمام دستاویزات میں ملک کو بھارت کہا گیا تھا۔

حال ہی میں، ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ، موہن بھاگوت نے اپنی منسلک تنظیموں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک کو انڈیا کے بجائے اب بھارت کہنے کی عادت ڈالیں۔ حکومت نے اس مشورہ کو جلدی ہی قبول کرلیا۔