مودی نے اپنے ووٹروں سے مسلم مخالف مینڈیٹ مانگا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ڈرایا تھا کہ اپوزیشن پارٹی کانگریس ان کی جائیداد اور دیگر وسائل چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ بی جے پی کو واضح اکثریت نہ ملنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ہندوستان کو نفرت کی یہ سیاست قبول نہیں ہے۔
عوام نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں جمہوریت کو پھر سے اس کےحقیقی مفہوم سے آشنا کر دیا ہے۔ جمہوریت صرف ایک خیال، آئیڈیا اور ایک آواز کے غلبے یا تسلط کا نام نہیں ہے، یہی ان لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا پیغام ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک میں کسی ایک مذہب کے پیروکار کو الگ تھلگ کرنے اور ان کے خلاف اکثریت پسندی کو متحد کرنے کا خیال اکثریتی ہندوتوا کے 10 سالہ دور حکومت کے بعد بھی ہندوستانی عوام کوقبول نہیں ہے، یہ اس الیکشن کے نتائج نے واضح کر دیا ہے۔
گزشتہ 10 سالوں سے آمرانہ اکثریت کے ساتھ نریندر مودی کی قیادت میں وفاقی حکومت چلا رہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس بار عوام نے واضح اکثریت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ بی جے پی 543 سیٹوں والی پارلیامنٹ میں اکثریت کے لیے درکار 272 سیٹوں سے بہت دور کھڑی ہے۔ اسے صرف 240 سیٹیں ملی ہیں۔ وہ ابھی بھی سب سے بڑی پارلیامانی پارٹی ہے اور یہ ممکن ہے کہ وہ کسی طرح اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا لے، لیکن یہ واضح ہے کہ پاپولر یا عوامی مینڈیٹ نریندر مودی کی انتخابی اپیل کے خلاف ہے۔
انہوں نے ہر پارلیامانی حلقے میں عوام سے بار بار کہا کہ وہ انہیں ووٹ دے رہے ہیں کسی اور کو نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ہر حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور جب لوگ ووٹ دیں گے تو انہیں منتخب کریں گے کسی اور کو نہیں۔ ان کی اس کی اپیل کو عوام نےمسترد کر دیا ہے۔
مودی نے اپنے ووٹروں سے مسلم مخالف مینڈیٹ مانگا تھا۔ انہوں نے اپنے ووٹروں کو یہ کہہ کر ڈرایا تھا کہ اپوزیشن پارٹی کانگریس ان کی جائیداد اور دیگر وسائل چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم کو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں بدل دیا اور کہا کہ اپوزیشن ہندو مخالف ہے۔ بی جے پی کو واضح اکثریت نہ ملنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ہندوستان میں نفرت کی اس سیاست کا غلبہ انتہائی مشکل ہے۔
ہندوستانی عوام نے واضح طور پرفیصلہ سنایا ہے کہ انہیں وزیر اعظم کے طور پر وہ کوئی شہنشاہ نہیں چاہیے۔ پچھلے 10 سالوں میں مودی نے خود کو ‘ہندو سمراٹ’ کے طور پر ہی پیش کیا ہے۔ عوام کو یہ باور کرانے کی کوششیں کی گئیں کہ مودی دراصل مغلوں کے ظلم کا بدلہ لے رہے ہیں اور ہندوستان میں پہلی بار ہندوؤں کا راج قائم ہو رہا ہے۔ یہ انتخابی مہم پوری طرح سے اسی ہندوتوا اپیل کے ساتھ چلائی گئی تھی۔ مودی کی بی جے پی کو واضح اکثریت نہ دے کر عوام نے واضح کر دیا ہے کہ انہیں یہ قبول نہیں ہے۔
یہ انتخابی نتیجہ کئی لحاظ سے غیر معمولی ہے۔ انتخابات سے قبل حکومتی ایجنسیوں نے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے اکاؤنٹ سے زبردستی پیسے نکال لیے اور بعد میں اس کے بینک کھاتےسیل کر دیے گئے۔ جھارکھنڈ اور دہلی کے وزرائے اعلیٰ کو گرفتار کیا گیا اور اپوزیشن جماعتوں کے کئی لیڈروں کے یہاں چھاپے مارے گئے اور ان کے خلاف مقدمے درج کیے گئے۔
انتخابات سے عین قبل سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد حکومت الیکٹورل بانڈز کی تفصیلات جاری کرنے پر مجبور ہوئی۔ پھر یہ بات سامنے آئی کہ اس کے ذریعے بی جے پی کو 6000 کروڑ روپے سے زیادہ دیے گئے ہیں۔ ساری اپوزیشن مل کر وسائل کے لحاظ سے ان سے بہت پیچھے تھی۔ اس طرح وسائل سے محروم اپوزیشن کو پیسے والی بی جے پی کے خلاف الیکشن لڑنا تھا۔
پچھلے 10 سالوں سے ہندوستان کا بڑا میڈیا بی جے پی کے لیے پروپیگنڈہ مشین بن چکا تھا۔ اس الیکشن کے دوران بھی میڈیا نے بی جے پی اور حکومت کے پبلسٹی ڈپارٹمنٹ کی طرح اپوزیشن کے خلاف مسلسل مہم چلائی۔
ان سب کے ساتھ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن نے بھی کھل کر بی جے پی کے حق میں کام کیا۔ انہوں نے مودی اور بی جے پی کی طرف سے انتخابی ضابطہ اخلاق کی بار بار خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کی۔ مختلف جگہوں پر دیکھا گیا کہ ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری کی گئی، کئی مقامات پر مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا، ان پر تشدد کیا گیا، ووٹنگ کی رفتار سست کی گئی۔
اس شدید تعصب کے باوجود پہلی بار حریف اپوزیشن جماعتیں متحد ہوئیں اور ‘انڈیا’ اتحاد کے جھنڈے تلے مل کر الیکشن لڑا۔ وہ اپنے ووٹروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ یہ انتخاب عام نہیں ہے اور اس بار ہندوستان کی آئینی جمہوریت خطرے میں ہے۔ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے کہا کہ وہ 400 سیٹیں چاہتے ہیں تاکہ وہ آئین میں تبدیلی کر سکیں۔ ہندوستان کے دلت اور پسماندہ طبقے نے سمجھ لیا کہ آئین کے ذریعے ان کو دیے گئے تمام حقوق چھین لیے جائیں گے اور انہوں نے بی جے پی کے 400 سیٹوں کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا۔
میں نے جتنے بھی ہندو نوجوانوں سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت نے انہیں ہندو راشٹر کا خواب دکھا کر ان کا حال تباہ کر دیا ہے۔ کسی قسم کا کوئی کام، کوئی نوکری نہیں۔ نوجوانوں نے دیکھا کہ مودی لفاظی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں الجھا کر اپنی نااہلی چھپا رہے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس حکومت کو ہٹانے کی مہم چلائی۔
اس طرح عوام نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا اور بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل کرنے سے بہت پہلے ہی روک دیا۔
عوام نے مودی اور بی جے پی لیڈروں کی دشنام طرازیوں اور توہین آمیز زبان کے خلاف شائستگی، تہذیب اور باہمی احترام کی واپسی کے لیے ووٹ دیا ہے۔ اس نے اس خطرے کو پہچان لیا ہے جو مودی کی قیادت والی بی جے پی کی شکل میں ہندوستان کے آئینی نظریہ کو تباہ کرنے پر آمادہ ہے۔
یہ سچ ہے کہ اپوزیشن کو بھی واضح اکثریت نہیں ملی ہے۔ لیکن عوام نے اسے لڑنے کی طاقت دی ہے۔ یہ مینڈیٹ ہندوستان میں سیکولرازم کے تحفظ، اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت اور تکثیری معاشرے کے احترام کے لیے ہے۔ یا یہ مساوات، آزادی، انصاف اور بھائی چارے کی اقدار کے حق میں دیا گیا مینڈیٹ ہے۔
امید ہے کہ ہندوستان کے آئینی ادارے اس کے مفہوم کو سمجھیں گے اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے کا حوصلہ پیدا کریں گے۔
یہ مینڈیٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے بھی موقع ہے کہ وہ خود کو نریندر مودی کے متکبرانہ گرفت سے آزاد کرے اور ایک عام سیاسی پارٹی کے طور پر کام کرنا شروع کرے۔ اس وقت بی جے پی میں سب نریندر مودی کے غلام محض رہ گئے ہیں۔
ان انتخابی نتائج سے ایک موقع ملا ہے کہ ہندوستان جو گزشتہ 10 سالوں میں ہندوتوا کی زد میں بری طرح مسخ کر دیا گیا ہے، اپنے زخموں کا علاج کر سکے۔ یہ اس کےصحت یاب ہونے کی شروعات ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر