راہل گاندھی کا یہ کہنا کہ ‘ہم نے رام مندر تحریک کو ہرا دیا ہے، وہی لال کرشن اڈوانی نے جس کی قیادت کی تھی’، آئیڈیالوجیکل وارننگ ہے۔ اصل لڑائی اس نظریے سے ہے جس نے رام جنم بھومی تحریک کو جنم دیا۔ یعنی لڑائی آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے تصور سے ہے۔
‘وارننگ کے لیے شکریہ راہل گاندھی۔’ ہندوتوا کی ترجمانی کرنے والے رسالہ ’ سوراجیہ‘ نے لکھا۔ وارننگ تھی کہاں؟ ‘ہم نے رام جنم بھومی تحریک کو ہرا دیا ہے۔’ راہل گاندھی کے اس دعوے کو ‘سوراجیہ’ نے وارننگ یا چیلنج مانا۔
رسالے نے لکھا، ‘7 جولائی 2024 کو راہل گاندھی نے اپنے سیاسی ایجنڈے کو ظاہر کرتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کا سب سے اہم بیان دیا؛ ‘جو تحریک لال کرشن اڈوانی نے شروع کی تھی، جس کے مرکز میں ایودھیا تھا، اسے ہم نے ایودھیا میں ہرادیا ہے…‘
‘سوراجیہ’ کو اس میں وارننگ سنائی دی ۔ راہل گاندھی کاآئیڈیالوجیکل ارادہ بھی۔ اس نے مایوسی کے ساتھ پوچھا کہ کیا ہندو اس کو سن بھی رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں؟
‘سوراجیہ’ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ راہل گاندھی کا یہ بیان حقیقت کا اتنا بیان نہیں ہے جتنا یہ ارادے کا بیان ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں چلائی گئی رام مندر تحریک کو ‘انڈیا’ اتحاد نے ایودھیا میں ہی ہرا دیا ہے۔ یہ بیان وہ احمد آباد میں کانگریس پارٹی کے دفتر پر بی جے پی کے لوگوں کے حملے کے بعد وہاں منعقد ایک اجلاس میں دے رہے تھے۔ ‘رام مندر تحریک’ کو شکست دینے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ اور وہ کیسے کیا گیا؟
راہل گاندھی حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں فیض آباد لوک سبھا حلقہ میں بی جے پی کی شکست کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ وہاں ‘انڈیا’ اتحاد کے امیدوار اودھیش پرساد نے بی جے پی امیدوار للو سنگھ کو شکست دی۔ ایودھیا اسی لوک سبھا حلقہ کا حصہ ہے۔ ایک دلت امیدوار کے ہاتھوں بی جے پی کی شکست اور وہ بھی اس جگہ جسے ہندوتوا کی سیاست کا مرکز سمجھا جاتا ہے، بے حد علامتی ہے۔ اس ایک شکست نے بی جے پی کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اپوزیشن نے انتخابات کے بعد 18ویں لوک سبھا کے پہلے اجلاس میں اس کا بھرپور استعمال کیا۔ اودھیش پرساد راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کے درمیان پہلی صف میں بیٹھے اوربیچ بیچ میں بی جے پی کو طنز کا نشانہ بنانے کے لیے اکھلیش یادو اور راہل گاندھی، دونوں ان سے ہاتھ ملاتے رہے۔ اودھیش پرساد کی مسکراہٹ بی جے پی ممبران پارلیامنٹ کے دلوں کو نیزے کی طرح چبھ رہی تھی۔ ان کا نام بھی اودھیش ٹھہرا جو رام کا ہی مترادف ہے۔
جب اس ہار کی خبر آئی تو بی جے پی نے خجل ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ایودھیا میں نہیں بلکہ فیض آباد میں ہاری ہے۔ وہ شاید اتر پردیش کی ریاستی حکومت کے 2018کے فیصلے پر افسوس کر رہی ہو، جس کے تحت فیض آباد ضلع کا نام بدل کر ایودھیا کر دیا گیا تھا، جو بھی ہو، بی جے پی خود چاہتی تھی کہ لوگ فیض آباد کا نام بھول جائیں اور اس کے بجائے ایودھیا کو یاد رکھیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت جو لوگ نام بدلنے کی مخالفت کر رہے تھے وہ اب فیض آباد کے بجائے ایودھیا ہی کہہ رہے ہیں اور بی جے پی اسے ایودھیا کے بجائے فیض آباد کہنے پر اصرار کر رہی ہے۔ گویا فیض آباد میں تو بی جے پی کا ہارنا فطری ہی ہے۔ ایودھیا وہ کیسےہار سکتی ہے!
فیض آباد ہو یا ایودھیا، بی جے پی اس شکست سے بہت صدمے میں ہے۔ یہ اس سے ظاہر ہے کہ انتخابی شکست کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس مشینری نے ایودھیا کے ہندوؤں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر دی۔ ان کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔ ہندو سماج ان کا حقہ پانی بند کر دے کیونکہ وہ نمک حرام ہیں۔ بی جے پی نے انہیں اتنا بڑا رام مندر دیا، اس کا احسان انہوں نے نہیں مانا۔ اس سے بڑی نافرمانی اور کیا ہو سکتی ہے!
ہم نے ایودھیا میں رام مندر تحریک کوہرا دیا ہے، یہ کہنے کے بعد کہ راہل گاندھی نے اس شکست کی وجہ بھی بتائی۔ لوگ اپنی زمین چھن جانے، اس نئے مندر کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے مکانات اور دکانوں کو منہدم کیے جانے سے ناراض تھے، اس لیے انھوں نے بی جے پی کو شکست دے کر سزا دی۔ چنانچہ راہل گاندھی کے مطابق اس شکست کی وجہ دنیاوی پریشانیاں تھیں۔ کیا اسے رام مندر تحریک کی شکست کہنا درست ہوگا؟ کیا یہ بی جے پی کی نظریاتی شکست ہے؟
راہل گاندھی کا یہ بیان اس تقریر کا حصہ تھا جو وہ احمد آباد میں اپنی پارٹی کے ارکان اور حامیوں کے درمیان کر رہے تھے۔ گجرات میں کانگریس کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔ اس کے بعد بی جے پی کے لوگوں نے اس کے دفتر پر حملہ بھی کیا۔ اپنے لوگوں میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے راہل گاندھی نے ایک لیڈر کی طرح کہا کہ ہم نے بی جے پی کو اس جگہ شکست دی ہے جو اس کی سیاست کا محور ہے، جس کے نام پر اس نے ملک بھر میں ووٹ مانگے ۔
یاد رہے، بی جے پی کے چیف پرچارک نریندر مودی ہر جگہ کہتے پھر رہے تھے کہ اگر بی جے پی کو فتح نہیں دلائی گئی تو کانگریس رام مندر پر بابری تالہ لگوا دے گی، پھر سے رام بیچارے ٹینٹ میں آجائیں گے۔ لیکن ایودھیا کے لوگوں نے انہیں ہی مسترد کر دیا۔ اس سے بڑی شکست اور کیا ہو سکتی ہے؟
پھر بھی کیا یہ رام مندر تحریک کی شکست ہے؟ کیا یہ مبالغہ آرائی نہیں؟ لیکن کیا صرف شاعروں کو ہی مبالغہ آرائی کا حق حاصل ہے؟
ہم نے رام مندر تحریک کو ہرا دیا ہے،وہی لال کرشن اڈوانی نے جس کی قیادت کی تھی۔ یہ حقیقت بیانی سے زیادہ راہل گاندھی کی آئیڈیالوجیکل وارننگ ہے۔ یا کانگریس کے لوگوں کو چیلنج ہے کہ اصل لڑائی اس نظریے کے خلاف کرنی ہے رام مندر تحریک جس کا اظہار ہے۔
لال کرشن اڈوانی کا نام لیتے ہوئے راہل گاندھی نے یہ بھی بتا دیا کہ آج کے اس رام مندر کا نام نریندر مودی سے زیادہ اڈوانی سے جوڑا جانا چاہیے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ بی جے پی آج جہاں ہے، اس کی شروعات رام مندر تحریک سے ہوئی تھی۔ اس کے لیڈر اڈوانی تھے۔ نریندر مودی نے اس میں مدد کی تھی۔ یہ بات کہیں ضائع نہ ہو جائے اس لیے حاضرین سے انہوں نے کہا کہ یہ بڑی بات ہے جو وہ بول رہے ہیں۔
جنہوں نے بی جے پی اور اس کے پہلے اوتار جن سنگھ کے سفر کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس نے ہندوستانی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے جو تجربات کیے، ان میں رام جنم بھومی تحریک سب سے اہم تھی۔ یہ رام جنم بھومی تحریک تھی جس نے ہندو عقیدے کو ہندوتوا میں بدل دیا۔ اس نے ہندوؤں کے خلاف جبر کی تاریخ کو مقبول بنایا اور ایودھیا میں نام نہاد رام کی جائے پیدائش کو ہندو عقیدے کا مرکز بنا دیا۔ جو یہ مانتا ہے وہی ہندو ہوسکتا ہے۔
اسے دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی مان لیا اور عدالتوں نے بھی۔ یہ بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سب سے بڑی سیاسی جیت تھی۔ 1925 میں اپنے قیام کے بعد پہلی بار ہندوپن اور ہندوتوا کے درمیان فرق تقریباً ختم ہو گیا۔
نریندر مودی کا عروج بھی اس تحریک کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ کار سیوک، رام سیوک جیسے الفاظ بھی اس تحریک کے بغیر وجود میں نہیں آتے۔ اور اسی تحریک کی وجہ سے گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کی 6 نمبر بوگی میں آگ لگی۔ آج تک ہمیں نہیں معلوم کہ وہ آگ کیسے لگی لیکن اس کے بہانے 28 فروری 2002 سے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ضرور کیا گیا۔ اور اس نے نریندر مودی کو اڈوانی کے ہندوتوا کا لیڈر بنا دیا۔
رام جنم بھومی تحریک کوئی مذہبی تحریک نہیں تھی، یہ ایک اکثریتی یا مسلم مخالف تحریک تھی، یہ اس تحریک کی پشت پرسوار ہوکر اقتدار تک پہنچنے والی بی جے پی کے واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد کے فیصلوں سے ظاہر ہے۔ مسلم مخالف قوانین، مسلم مخالف تشدد اور مسلم مخالف پروپیگنڈے کے ذریعے رام جنم بھومی تحریک کے مقصد کوحاصل کیا جا رہا ہے۔
راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ رام جنم بھومی تحریک رام کے نام کا استعمال کرتی ہے لیکن اس کا رام سے کوئی تعلق نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے بی جے پی اور آر ایس ایس کا ہندودھرم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
راہل گاندھی ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ اصل لڑائی اس نظریے سے ہے جس نے رام جنم بھومی تحریک کو جنم دیا۔ یعنی لڑائی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہندو راشٹر کے تصور سے ہے۔
راہل گاندھی یہ کہہ کر کانگریس کے ان لوگوں کو بھی خبردار کر رہے ہیں جو رام مندر جانے کی ریس میں لگے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں سے جو اس کے لیے چندہ دے رہے ہیں یا جو پوچھ رہے ہیں کہ ہمیں 22 جنوری کو کیوں نہیں بلایا گیا۔ راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ ایودھیا کے مندر اور ایودھیا کے لوگوں کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ بی جے پی کے لیے سیاسی کمائی اور زمین کے تاجروں کے لیے زمین سے کمائی کا ذریعہ محض ہے۔
‘سوراجیہ’ نے ٹھیک پہچانا ہے ہے کہ راہل گاندھی کا یہ سب سے اہم بیان ہے۔
سال 2014 میں نہرو کی 50 ویں برسی کے موقع پر راہل گاندھی نے کہا تھا کہ ان کی لڑائی بی جے پی سے زیادہ آر ایس ایس سے ہے۔ ‘سوراجیہ’ پوچھتا ہے کہ کیا ہندو اسے سن رہے ہیں؟ لیکن اسے معلوم نہیں کہ راہل گاندھی بھی ہندوؤں کو ہی کہنا چاہتے ہیں کہ وہ رام جنم بھومی تحریک کو شکست دے کر اپنا بھلا کریں۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر