فکر و نظر

’امن‘ کے پانچ برس، لیکن جہلم کی فریاد کون سنے گا؟

ٹھیک پانچ سال پہلے 5 اگست 2019 کو مرکز کی بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر کو آزاد ہندوستان میں شامل کرنے کی شرط کے طور پر آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کر دیا تھا۔

کشمیر کی ڈل جھیل۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کشمیر کی ڈل جھیل۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئےخلش سی اٹھتی  ہے۔ کہنے کو جہلم نے پانچ سردیاں دیکھ لیں، ان کی اپنی زندگی کئی راستے عبور کر چکی، لیکن اگست کے اس مہینے کی صدائے بازگشت اب بھی سنائی پڑتی ہے، جب آرٹیکل 370 کو ہٹا دیا گیا تھا۔

اس کے بعد ان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟

‘تبدیلی؟آرٹیکل 370 کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلا اور بے بسی کو بیان کرنے کے لیے یہ بہت چھوٹا لفظ ہے‘،  24 سالہ شازیہ* کہتی ہیں۔

وہ ڈوڈا ضلع سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے2018  میں دہلی آگئی تھیں۔ ان دنوں دہلی میں  ہی وکالت کرتی ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

‘میں دہلی میں تھی۔ مجھے اپنے ہی ہم جماعت کے درمیان  ذہنی اذیت کا شکار ہونا پڑتا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ میں 5 اگست سے اپنے خاندان سے الگ ہو گئی  ہوں، وہ ہر روز تبصرہ کرتے تھے کہ 370 کو ہٹانا کتنا بڑا قدم ہے۔ ایک بار تو انہوں نے کلاس روم میں خبر چلا دی، جس میں اینکر بتا رہا تھا کہ کس طرح پورے ملک کے لوگ کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا جشن منا رہے ہیں۔‘

ان کی شکستہ آواز سے پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں کو یاد کرنا آسان نہیں ہے۔ ‘انٹرنیٹ بند کر دیا گیا  تھا، ہم اپنے گھر والوں کو کال یا ایس ایم ایس بھی نہیں کر سکتے تھے۔ میری  ہاسٹل روم میٹ کہا کرتی  تھی کہ کیا ہوا گرگھر میں بات نہیں ہو رہی ہے؟ تم  بڑی تصویر کی طرف  دیکھو، آنے والے وقت میں تم خود اس فیصلے کا خیر مقدم کرو گی۔‘

آج تک، تقریباً ہر کشمیری کو اس طرح کی  باتیں سننی پڑتی ہیں، اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کی وجہ سے کس قدر  ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے، وہ کہتی ہیں۔

آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے معاشی اثرات کے بارے میں وہ کہتی ہیں، ‘ہم اب بھی اس سے نبردآزما ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے بھی نوکریاں نہیں ہیں۔‘

‘اس واقعے نے ہمیں صرف ایک چیز سکھائی ہے اور وہ یہ کہ ہم زندگی کے کسی بھی موڑ پر اپنے خویش و اقارب سے الگ ہو سکتے ہیں، اور ہم اس کے بارے میں کسی سے سوال تک نہیں کر پائیں گے، کیونکہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی کیا جاتا ہے، وہ ہماری ‘بہتری’ کے لیے ہوتا ہے۔‘

آرٹیکل 370کے ہٹائے جانے  کی پانچویں سالگرہ پر دی وائر نے کئی کشمیریوں سے بات چیت کے دوران پایا کہ یہ تمام کشمیریوں کے مشترکہ جذبات ہیں۔ وہ ایک ایسے درد وغم کے ساتھ جی رہے ہیں جسے و وہ کسی ‘باہری ‘ انسان کو سنا بھی نہیں  سکتے۔

ٹھیک پانچ سال پہلے، 5 اگست 2019 کو، مرکز کی بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر کو آزاد ہندوستان میں شامل کرنے کی شرط کے طور پر آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ یہ کشمیریوں کی شکایتیں ہیں، جموں میں حالات بہتر ہیں۔ لیکن جموں کے کئی  باشندوں کا دردوغم کشمیر سے مختلف نہیں ہے۔

جموں کی رہنے والی 24 سالہ سپنا* گزشتہ سات سالوں سے دہلی میں مقیم ہیں۔ پہلے پڑھائی اور پھر روزگار کے لیے۔ انہوں نے دہلی یونیورسٹی اور جامعہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ روزگار کی خراب صورتحال پر سپنا کہتی ہیں، ‘جو نوکریاں ریاست کے نوجوانوں کے لیے تھیں وہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد کم ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے نوجوان تیزی سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔’

سپنا کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کے تقریباً تمام  نوجوان روزگار کی تلاش میں جموں چھوڑ چکے ہیں۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ جموں میں کشمیر کے مقابلے  فوج کی موجودگی کم  ہے ،  جس کی وجہ سے لوگوں کو گھومنے پھرنے کی زیادہ آزادی ہے ،  لیکن اظہار رائے کی آزادی اب بھی محدود ہے کہ عوامی رائے کے خلاف کسی بھی چیز کو سینسر کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں اندر ڈر بنارہتا ہے۔

تاہم، سنچیتا* جیسے جموں کے کئی باشندے اس فیصلے کو قابل ستائش قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘آرٹیکل 370 کو بہت پہلے ہی  ہٹا دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کشمیر کو باقی ملک سے الگ کرتا تھا، اس کے خاتمے کے بعد کشمیر صحیح معنوں میں ہندوستان کا حصہ بن پایا ہے۔

سنچیتا کشمیری پنڈت ہیں۔ ان کے خاندان کو نوے کی دہائی میں وادی میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا اور جموں میں آباد ہونا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کا جموں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے، لیکن کشمیر کے لوگوں میں اس کو لے کر ناراضگی ہے۔

یہ غصہ کشمیر میں بالکل واضح ہے۔ انٹرنیٹ کی بندش اب بھی جاری ہے۔ شازیہ کہتی ہیں، ‘اب بھی کشمیر میں انٹرنیٹ بند کر دیا جاتاہے۔ کچھ دن پہلے میں کشمیر میں تھی اور ایک نوکری کے سلسلے میں میرا آن لائن انٹرویوتھا۔ تبھی اچانک سے انٹرنیٹ بندکر دیا گیا۔ لیکن یہ نیا نہیں ہے۔ کشمیر میں کچھ بھی نیا نہیں ہوتا، ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔‘

آرٹیکل 370 نے ریاست کو اپنا آئین، الگ جھنڈا اور قانون بنانے کی آزادی دی۔ اس کے نتیجے میں، جموں و کشمیر مستقل رہائش، جائیداد کی ملکیت اور بنیادی حقوق کے حوالے سے اپنے الگ اصول بنا سکتا  تھا۔ تاہم، خارجہ امور، دفاع اور مواصلات مرکزی حکومت کے ماتحت رہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ کشمیر میں مختلف دیگر مرکزی قوانین نافذ ہوتے گئے۔

 آرٹیکل 370  ہٹانے سے بیرونی لوگوں کو فائدہ ہوا ،  کشمیریوں کو کیا ملا  ؟

سری نگر کے 65 سالہ محمد آفتاب* گدے بنانے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، حکومت یہ دعویٰ کرتی تھی کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد کشمیری تاجروں کو فائدہ ہوگا اور کاروبار کرنے میں آسانی ہوگی۔ لیکن بڑھے ہوئے ٹیکس اور بجلی کے بلوں کی وجہ سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کا کاروبار پہلے ٹیکس فری ہوا کرتا تھا، لیکن حکومت نے اس پر بھی جی ایس ٹی لگا کر ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچھلے کچھ سالوں میں وادی کے نوجوان منشیات کا شکار ہوچکے ہیں۔ ریاست میں منشیات کی بھاری سپلائی نوجوانوں کے مستقبل کو برباد کر رہی ہے۔

کشمیر میں عسکریت پسندی میں کمی کے دعوے پر انہوں نے کہا، ‘عسکریت پسندی کم ہوئی ہے، لیکن خوف و ہراس کی وجہ سے کم ہوئی ہے۔ کسی کو بھی عسکریت پسندی کے شبہ میں کہیں سے بھی اٹھا لیا جاتا ہے، جس سے لوگوں میں خوف وہراس پھیل گیا ہے۔

والدین ڈرتے ہیں کہ ان کا بچہ جو صبح گھر سے نکلتا ہے شام کو واپس آئے گا یا نہیں۔کہیں  وہ ایسا کچھ نہ بول دے کہ پولیس انہیں اٹھا لے جائے۔

وادی کشمیر میں جہاں بی جے پی کا نام و نشان تک نہیں تھا، 370 کو ہٹانے کے بعد بی جے پی وہاں اپنے پاؤں پھیلا رہی ہے۔ مقامی لوگ نوکری اور پیسے کے لیے بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔

آفتاب سوال اٹھاتے ہیں،’سرینگر کو اسمارٹ سٹی بنانے کے لیے جن ٹھیکیداروں کو ٹھیکہ دیا گیا تھا وہ سب  باہر کے تھے۔ حکومت کہتی ہے کہ 370 کی منسوخی کے بعد باہر کے لوگ یہاں آباد ہوسکتے ہیں، سب کچھ باہر والوں کے لیے ہے، پھر کشمیریوں کے لیے کیا ہے؟ انہیں کیا فائدہ ہوا؟’

لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ 370 کو ہٹانے سے کچھ فائدہ ہوا ہے۔ ‘پہلے اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کے لیے ڈونیشن دینا پڑتا تھا، بچوں کے والدین سے موٹی  رقم وصول کی جاتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔’

اونتی پورہ سے تعلق رکھنے والے ایک طالبعلم نے بھی تعلیمی نظام میں بہتری کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کا فائدہ قرار دیا۔

 امن کے فریب کے ساتھ جی رہا ہے جہلم

سری نگر کے ایک فزیو تھراپسٹ نے کہا، ‘بدقسمتی سے، ہم کشمیریوں نے کبھی بھی اس ملک میں اپنے ہونے کا احساس نہیں کیا، نہ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد۔ ہمیں ہندوستان کے دوسرے حصوں میں لوگوں کی طرف سے صرف عداوت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

دہلی میں کام کرنے والی کشمیری خاتون علیمہ کا کہنا ہے کہ روزگار کی کمی کی وجہ سے ان کے پاس کشمیر چھوڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ چھ سال پہلے وہ تعلیم کے لیےکشمیر چھوڑ کر پہلے چندی گڑھ اور پھر دہلی آئی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ چھ سالوں میں بہت کچھ بدل جائے گا اور انہیں کشمیر میں اچھی نوکری مل جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

’ آرٹیکل 370 کے بعدسے کوئی بھی کہیں بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے کشمیر میں مظاہرےپوری طرح سے بند ہو گئے ہیں۔ اب مقامی مسائل پر بھی کوئی وہاں احتجاج نہیں کر سکتا۔ اظہاررائے کی آزادی  پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر کچھ بھی لکھتے ہیں ،جو حکومت کو پسند نہیں آتا تو آپ پکڑے جا سکتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ان کے اہل خانہ  انہیں سوشل میڈیا پر کچھ بھی لکھنے سے روکتے ہیں۔

آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے بعد وادی میں جو امن آیا ہے اس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کو زبردستی یہ بھولنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے اور وہ کس مسئلے کے لڑ رہے تھے۔

وہ بے روزگاری کو اس کی بڑی وجہ سمجھتی ہیں۔ ‘وادی میں لوگ اب بھی شدید بے روزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ 10 میں سے 9 لوگ نوکری کی خواہش میں آپس میں لڑ رہے ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں اس قدر غیر مستحکم ہو چکی ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر پر بات نہیں کر سکتے، وہ اپنی زندگی کو منظم کرنےمیں لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں امن نظر آرہا ہے۔‘

(*بدلا ہوا نام)