خبریں

لوک سبھا میں وقف بل پر شدید احتجاج، اپوزیشن نے اسے مسلم مخالف اور آئین پر حملہ قرار دیا

جمعرات کو اپوزیشن کی جانب سے لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل کے خلاف شدید احتجاج دیکھنے کو ملا، جس کے بعد اسے جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی کے پاس بھیجے جانے کی تجویز پیش کی گئی۔

اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو (بائیں) اور ڈی ایم کے ایم پی کنیموجھی۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب ویڈیو/سنسد ٹی وی کے اسکرین شاٹ)

اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو (بائیں) اور ڈی ایم کے ایم پی کنیموجھی۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب ویڈیو/سنسد ٹی وی کے اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: قلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے جمعرات (8 اگست) کو لوک سبھا میں وقف ایکٹ ترمیمی بل 2024 پیش کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے اس بل کے خلاف  شدید احتجاج کا مشاہدہ  کیا گیا۔ اپوزیشن نے اسے ملک کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والا ایک غیر آئینی بل قرار دیا، جس کے بعد یہ بل لوک سبھا میں پھنس گیا اور اسے جوائنٹ  پارلیامانی کمیٹی کے پاس  بھیجے جانے کی تجویز پیش کی گئی۔

واضح ہو کہ اقلیتی امور کی وزارت کی طرف سے مجوزہ  ترمیمی بل میں وقف ایکٹ 1995  کا نام تبدیل کر کے ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ‘ کر دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترامیم ‘قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنے اور وقف املاک کے مینجمنٹ اور آپریشن کو بہتر بنانے’ کے لیے ضروری ہیں۔

اس کا ایک مقصد خواتین کے وراثت کے حقوق کو یقینی بنانا بھی بتایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ترمیمی بل کے ’مقاصد اور وجوہات‘ کے مطابق وقف کوایسا  کوئی بھی شخص جائیداد عطیہ کر سکتا ہے، جو کم از کم پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہو اور متعلقہ اراضی پر مالکانہ حق رکھتا ہو۔

مجوزہ ترمیم کے تحت ایڈیشنل کمشنر سے وقف اراضی کے سروے کا اختیار واپس لے لیا گیاہے اور اب یہ ذمہ داری ضلع کلکٹر یا ڈپٹی کمشنر کو دے دی گئی ہے۔ سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی سطح پر وقف بورڈ میں دو غیر مسلم نمائندے رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نئی ترامیم کے تحت بوہرہ اور آغاخانی برادریوں کے لیے علیحدہ ‘اوقاف بورڈ’ کے قیام کی بات بھی کہی گئی ہے ۔

بل میں دفعہ 40 کو ہٹانے کا اہتمام ہے، جس کے تحت وقف بورڈ کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ آیا کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں۔ اب اس کی جگہ نئے بل میں ضلع کلکٹر کو اس بات کا ثالث بنایا گیا ہے کہ آیا کوئی سرکاری جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں۔

جمعرات کو جیسے ہی یہ بل ایوان میں پیش کیا گیا، اپوزیشن کی جانب سے اجتماعی طور پر زبردست احتجاج کا مشاہدہ کیا گیا۔ ‘انڈیا’ اتحاد کی تمام جماعتیں – کانگریس، سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی)، دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے)، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) (شرد پوار)، انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( سی پی آئی)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) (سی پی آئی (ایم))، روولیوشنری سوشلسٹ پارٹی (آر ایس پی)، نیشنل کانفرنس (این سی) کے ساتھ ساتھ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے اس قانون کی مخالفت کی۔

تاہم، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو اہم اتحادی جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) اور تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے بل کی حمایت کی۔ لیکن بعد میں یہ بھی کہا کہ انہیں اس کو پارلیامانی کمیٹی کے پاس  بھیجے جانے سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔

وائی ایس آر کانگریس پارٹی (وائی ایس آر سی پی)، جس نے نریندر مودی کی پچھلی دو میعادوں کے دوران پارلیامنٹ میں بی جے پی کے لائے گئے تمام قوانین کی حمایت کی تھی، نے بھی اس بل کی مخالفت کی۔

‘آئین کی خلاف ورزی’

اس بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ نے آئین کے آرٹیکل 14، 25 اور 26 کی خلاف ورزی کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ بل آئین کے خلاف ہے۔ اپوزیشن کے مطابق، اس طرح کے قانون کے ذریعے حکومت مسلمانوں کو اپنے معاملوں کا مینجمنٹ کرنے، جائیداد حاصل کرنے اور ایڈمنسٹریشن کی اجازت نہیں دینا چاہتی۔

کانگریس کے رکن پارلیامنٹ کے سی وینوگوپال نے کہا، ‘اس بل کے ذریعے حکومت ایک ایسی شرط شامل کر رہی ہے کہ غیر مسلم بھی اس کونسل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا (مندر) بورڈ تشکیل دیا۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کوئی غیر ہندو ایودھیا مندر بورڈ کا حصہ ہوگا؟ ایک دیواسووم مندر بورڈ ہے۔ کیا اس میں کوئی غیر ہندو ہو سکتا ہے؟ یہ شرط کہ غیر مسلم بھی کونسل کا حصہ بن سکتے ہیں عقیدے اور آزادی مذہب پر براہ راست حملہ ہے۔ یہ بل آئین کے دیے گئے بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔ ابھی  آپ مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، پھر آپ پارسیوں، جینوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی یہی  کریں گے۔‘

ٹی ایم سی کے رکن پارلیامنٹ سدیپ بندھوپادھیائے نے کہا کہ یہ بل غیر آئینی اور وفاقیت کے خلاف ہے۔

سدیپ نے کہا، ‘یہ آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے، جو مساوات کا حق دیتا ہے اور یہ غیر آئینی ہے کیونکہ یہ آرٹیکل 25 اور 26 کی خلاف ورزی ہے، جو مذہبی آزادی کے حق کی بات کرتے ہیں۔ یہ وفاقیت کے بھی خلاف ہے کیونکہ 7ویں شیڈول کے مطابق زمین ریاست کا موضوع ہے۔ لہٰذا یہ بل تفرقہ انگیز، آئین مخالف اور وفاق کے خلاف ہے۔‘

ڈی ایم کے ایم پی کنیموجھی نے کہا کہ حکومت کھلے عام آئین کے خلاف جارہی ہے اور یہ بل مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہے۔ مختلف مساجد کے بنیادی طور پر مندر ہونے پر جاری مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئےانہوں  نے الزام لگایا کہ یہ بل مزید نفرت پیدا کرے گا۔

انہوں نے کہا، ‘کئی پرانی مسجدیں خطرے میں ہیں۔ اچانک ایک پی آئی ایل آتی ہے اور آثار قدیمہ کے ماہرین کو وہاں بھیج دیا جاتا ہے، پھرانہیں پتہ چلتا ہے کہ پہلے وہاں ایک مندر تھا۔ اس سے ملک کے لوگوں میں نفرت اور تفرقہ  کا ماحول پیدا ہوتا ہے، یہ بل خاص طور پر ایک مخصوص مذہبی گروہ کو نشانہ بنا رہا ہے، جو کہ دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے۔‘

بی جے پی کے اتحادی اورجے ڈی یو کے رکن پارلیامنٹ اور مرکزی وزیر للن سنگھ نے اس بل کی حمایت کی۔ تاہم، جب وہ اس کی حمایت میں تقریر کرنے کے لیے اٹھے تو انہیں اپوزیشن ارکان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا، ‘کئی ممبران کی تقریروں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلم مخالف قانون ہے۔ یہ کیسے مسلم مخالف ہے؟ وہ ایودھیا مندر اور گرودوارہ کی مثال دے رہے ہیں۔ آپ تنظیم اور مندر میں فرق نہیں سمجھ رہے؟ یہ کوئی مندر نہیں ہے۔‘

للن سنگھ نے مزید کہا، ‘آپ کی مسجد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہے، یہ صرف وقف کی تنظیم کو مزید مؤثر بنانے کے لیے ہے۔’

جے ڈی یو ایم پی کے اس الزام پر کہ ممبران مندر، مسجد اور تنظیم میں فرق نہیں کر پا رہے ہیں، سماج وادی پارٹی کے ایم پی عمران مسعود نے کہا، ‘میں کہنا چاہتا ہوں کہ وقف بورڈ مسجدوں کا مینجمنٹ کرتا  ہےاور تمام مسجدیں اس کے تحت کام  کرتی ہیں۔ اور ڈی ایم کو حکومت کرنے کی اجازت دے کر آپ ایک ایسی سازش کی اجازت دے رہے ہیں جہاں وقف املاک پرتجاوزات کرنے والوں نے قبضہ کر لیا ہے۔‘

اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اے آئی ایم آئی ایم کے رکن پارلیامنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ بل واضح طور پر آرٹیکل 14، 25 اور 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ امتیازی ہے اور آئین پر سنگین حملہ ہے کیونکہ یہ عدالتی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘حکومت اس بات پر سخت پابندیاں عائد کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان اپنی وقف املاک کا مینجمنٹ کیسے کر سکتے ہیں، جبکہ ہندو بندوبستی بورڈ(ہندوانڈومنٹ بورڈ) کو ان کے اپنے رسم و رواج کے تحت منظوری حاصل ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ یہ حکومت وقف بورڈ کو ہٹا کر درگاہ، مسجد اور وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

اویسی نے کہا، ‘حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ خواتین کو رکنیت  دے رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بلقیس بانو اور ذکیہ جعفری کو ممبر بنائیں گے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس بل سے آپ ملک کو تقسیم کر رہے ہیں، متحد نہیں کر رہے ہیں۔ آپ مسلمانوں کے دشمن ہو اور یہ بل اس کا ثبوت ہے۔‘

‘مذہب میں کوئی  مداخلت نہیں’

مرکزی وزیر رجیجو نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ بل کسی مذہب میں مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

رجیجو کے مطابق، ‘یہ بل آرٹیکل 14، 25 اور 30 میں مداخلت نہیں کرتا ہے۔ برہمچاری بنام ریاست مغربی بنگال کیس میں، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ وقف بورڈ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کے دائرے میں نہیں آتا ہے۔ ہم نے اسے جامع بنایا ہے۔ یہ حقوق چھیننے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ خواتین، بچوں اور مسلم کمیونٹی میں پسماندہ لوگوں کو حقوق دینے کے بارے میں ہے۔‘

انہوں نے کہا، ‘کنکرنٹ لسٹ کے اندراجات 10 اور 26 اس بل کو متعارف کرانے کے لیے قانون سازی کی اہلیت فراہم کرتے ہیں۔’

رجیجو نے مزید کہا کہ یہ بل جسٹس (ریٹائرڈ) راجندر سچر کی سربراہی والی  ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارشات کے ساتھ ساتھ وقف پر جوائنٹ  پارلیامانی کمیٹی اور اور سینٹرل وقف کونسل کی رپورٹوں کی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میں کانگریس کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ترامیم اس مقصد کے لیے لائی جا رہی ہیں جو آپ (کانگریس) حاصل نہیں کر سکے۔’

بورڈ میں غیر مسلموں کو لانے کے اپوزیشن کے الزام کا جواب دیتے ہوئے رجیجو نے کہا کہ یہ انتہائی قابل ’اعتراض‘ ہے۔

جب یہ بل پیش کیا گیا تو رجیجو نے کہا کہ حکومت بحث کے لیے تیار ہےلیکن بعد میں حزب اختلاف کی شدید مخالفت کے بعد اسےجوائنٹ پارلیامانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔

اسپیکر اوم برلا نے کہا ہے کہ وہ ایک کمیٹی بنائیں گے، جس میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان شامل ہوں گے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)