ایک اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں خطے میں حقیقی امن قائم ہو سکے گا؟ ویسے تو مودی حکومت بغلیں بجا رہی ہے کہ اس نے کشمیر میں پچھلے پانچ سالوں میں امن قائم کیا ہوا ہے۔ مگر یہ قبرستان کی خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا منتخب انتظامیہ لوگوں کے حقوق، فلاح و بہبود اور عوامی شراکت پر پالیسی کو دوبارہ مرکوز کرکے سابق ریاست کے لوگوں کی بیگانگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے گی؟
تقریباً دس سال بعد سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جموں و کشمیر میں ایک بے اختیار اور بے بس اسمبلی کے لیے انتخابات کا بگل بج گیا ہے۔ تین مرحلوں پر محیط یہ انتخابات 18 ستمبر، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو منعقد کیے جائیں گے اور چار اکتوبر کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان کیا جائےگا۔
پہلے مرحلے میں 24 سیٹوں پر قسمت آزمائی ہوگی، جن میں جنوبی کشمیر اور جموں کی چناب وادی کے علاقے شامل ہیں۔ دوسرے مرحلے میں 26 سیٹوں پر انتخابات ہوں گے، جن میں وسطی کشمیر کا علاقہ اور جموں کے پیر پنچال علاقہ میں ووٹنگ ہوگی۔
تیسرے مرحلے میں شمالی کشمیر کی 16 اور جموں کی 39 نشستوں پر پولنگ ہوگی۔ ان میں سے اکثر سیٹیں جموں کے ہندو بیلٹ میں ہیں اور حکمران بھارتیہ جنتاپارٹی کو امید ہے کہ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ہندو ووٹروں کو لبھا کروہ اس خطے میں کلین سویپ کرے گی۔
شاید اسی لیے اس خطے کی ووٹنگ آخر میں رکھی گئی ہے، تاکہ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ کو مہم چلانے کا بھر پور موقع فراہم ہو اور ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یعنی آرایس ایس کے کیڈرز کو دیگر علاقوں سے لا کر بھر پور طریقے سے پھیلا کر بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈلوائیں جائیں۔
اسی حکمت عملی کے تحت آر ایس ایس لیڈر رام مادھو کو بی جے پی نے انتخابات کا انچارج بھی بنادیا ہے۔
ان انتخابا ت کا ایک خوش کن پہلو یہ ہے کہ اندازوں کے مطابق، 1987کے دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد پہلی بار ان میں بھر پور عوامی شرکت ہوگی۔ 1989میں عسکری جدوجہد کے ظہور کے بعد خاص طور پر وادی کشمیر میں پولنگ بہت ہی کم ہوتی تھی۔ کئی علاقوں میں تو بس دو یا پانچ فیصد پولنگ ہوتی تھی۔
عوامی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ کئی علاقوں میں تو لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ انتخابات بھی ہو رہے ہیں یا میدان میں کون امیدوار ہیں۔ اس کا بھر پور فائدہ نیشنل کانفرنس کو ملتا تھا کہ وہ اپنے کیڈرز کے ذریعے صبح سویرے اپنے مضبوط ایک یا دو محلوں میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے نکالتی تھی، اور پھر جب دیگر علاقوں سے لوگ نکلنے کی سعی کرتے تھے، تو حریت کانفرنس کی بائیکاٹ کال کی دہائی دے کر پتھراؤ وغیرہ کا سہارا لےکر باقی علاقوں میں بائیکاٹ ہوتا تھا۔
گو کہ 1951 سے ہی کشمیر میں مقامی اسمبلی کے لیے انتخابات کا سلسلہ شروع ہوا تھا، مگر عوام کی دلچسپی 1977 کے بعدہی شروع ہوئی، جب شیخ عبداللہ نے انتخابی میدان میں قدم رکھا۔ یہ انتخاب کشمیر کی تاریخ کا صاف و شفاف الیکشن قرار دیا جاتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ سرینگر کے دور ہ کے دوران نہرو گیسٹ ہاوس میں قیام پذیر اس وقت کے ہندوستانی وزیر اعظم مرار جی دیسائی کو ان کی اپنی پارٹی کے ایک وفد نے مشورہ دیا کہ انتخابات میں مداخلت کی ضرورت ہے، ورنہ شیخ عبداللہ کو اکثریت ملنے کا امکان ہے، تو انہوں نے پولیس بلا کر اس پورے وفد کو حراست میں لینے کا حکم دے دیا۔
معروف قانون دان اشوک بھان، جو بطور ایک یوتھ لیڈراس وفد میں شامل تھے، کا کہنا ہے کہ وفد کے کئی اراکین نے جوتے وہیں چھوڑے اور ننگے پاؤں بھاگ کر دم لیا۔
ان انتخابات کے فوراً بعد گورنر ایل کے جھا نے اسمبلی میں اپنے ایڈریس میں تسلیم کیا کہ کشمیر میں پہلی بار حقیقی انتخابات منعقد کروائے گئے ہیں۔ جس پر سوپور سے منتخب جماعت اسلامی کے ممبر اسمبلی سید علی گیلانی نے کہا، چونکہ پہلی بار حقیقی انتخابات ہوئے ہیں، اور اس کا مطلب یہی ہے کہ پچھلی اسمبلیاں بغیر منڈیٹ کے تھیں، اس لیے ان کے ذریعے پاس کیے گئے قوانین کو کالعدم کیا جائے، جس میں 1954 میں اس وقت کی اسمبلی کے ذریعے الحاق کی توثیق بھی شامل ہے۔
اسی طرح کی تقریر 2003 میں گورنر این این ووہرا نے بھی کی۔ ان انتخابات میں پولنگ کی شرح کم ہی تھی، مگر حیرت انگیز طور پر نیشنل کانفرنس کو توقع سے نہایت ہی کم سیٹیں حاصل ہوئی تھیں اور ایک نئی پارٹی پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی (پی ڈی پی) کے سر سہرا باندھ کر کانگریس پارٹی کی حمایت سے مفتی محمد سعید وزارت اعلیٰ کی مسند پر قابض ہو گئے تھے۔
ان انتخابات میں بھی نتائج کوالٹنے کی درخواست کی گئی تھی، مگر وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کسی بھی طرح کی ہیر پھیر یا سرکاری مداخلت کرنے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا۔
موجودہ انتخابات کے لیے جیری مینڈرنگ کے ذریعے جس طرح کا انتخابی نقشہ ترتیب دیا گیا ہے، مودی حکومت نے بھر پو رکوشش کی ہے کہ اختیارات عوامی نمائندہ حکومت کو منتقل نہ ہوں۔ اسی لیے حال ہی میں لیفٹنٹ گورنر کو لامحدود اختیارات دیے گئے، تاکہ وزیر اعلیٰ اس کے دست نگر رہے۔کابینہ میٹنگ میں گورنر کا نمائندہ شرکت کرے گا اور وزیروں کو اپنی اپائنٹمنٹ، ملاقاتوں یا میٹنگوں کے لیے گورنر سے اجازت لینی ہوگی۔ وہ اپنے طور پر کسی سے مل بھی نہیں سکیں گے۔
ایک حالیہ انٹرویو میں گورنر منوج سنہا نے تو اعلان کیا کہ اگر منتخب حکومت کا کوئی قدم ملک کی سالمیت، اور چیلنج کرنے والا ہوگا، تو وہ اس میں اپنے پاور کا استعمال کرکے مداخلت کریں گے۔
کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ کے صاحبزادے ڈاکٹر کرن سنگھ، جو کانگریس کے سابق رکن ہوتے ہوئے بھی دائیں بازو کے سرخیل رہے ہیں بھی چیخ اٹھے ہیں کہ یہ اسمبلی ایک میونسپل کونسل سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔ پانچ سال قبل ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 کے خاتمہ کا دفاع کرنے والے سنگھ کا کہنا ہے کہ،
’آج جموں و کشمیر مہاراجہ کے دور سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے پاس ایک بہت ہی خاص جگہ تھی، جو اب نہیں ہے،اب پہلی ضرورت ریاست کے درجہ کی بحالی ہے۔‘
دوسری طرف انتخابی میدان میں دو اہم پارٹیوں یعنی نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے اپنے منشور میں اعلان کیا ہے کہ اسمبلی کے پہلے ہی سیشن میں 5 اگست 2019 میں پارلیامنٹ کے ذریعے کیے گئے یکطرفہ اقدامات کے خلاف وہ ایک قرارداد منظور کروائیں گے۔
اس دن نہ صرف ریاست کی محدود اندرونی خودمختاری کو ختم کیا گیا، بلکہ ریاست کو دولخت کرکے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس لیے پہلے دن سے ہی گورنر اور منتخب حکومت کے درمیان رسہ کشی کا آغا ز ہونے والا ہے۔
خیر فائنل الیکٹورل لسٹ کے مطابق، خطے میں ووٹروں کی کل تعداد 8803020 ہے، جس میں وادی کشمیر سے 4626810 ہے اور جموں خطے سے 4176210 ووٹر ہیں۔
یعنی وادی کشمیر میں جموں کے مقابلے 450600 ووٹ زیادہ ہیں۔ 2014 کے انتخابی رول کے مطابق اس وقت کل ووٹروں کی تعداد 7098367 تھی۔
یعنی دس سالوں میں ووٹرں کی تعداد 1704653بڑھ گئی ہے۔ اس وقت وادی کشمیر میں 3759108 ووٹر تھے اور جموں میں 3339259 ووٹر تھے، یعنی فرق 419849 تھا۔ اس حساب سے وادی کشمیر میں پچھلے دس سالوں میں 867702 ووٹوں کا اور جموں میں 836951 ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے۔
اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی کی وجہ سے ان حلقوں کے برتاؤ کے تئیں تجزیہ کرنا پیچیدہ ہوگیا ہے۔ سوپور سے زینہ گیر علاقے کو الگ کرکے رفیع آباد میں شامل کیا گیا ہے۔ کرناہ میں اب کپواڑہ کے کچھ علاقے شامل کیے گئے ہیں۔
ترہگام ایک نئی سیٹ ہوگی، وغیرہ 2019 کے ایکٹ نے 1950 کے ایکٹ کے دوسرے شیڈول میں ترمیم کرکے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد کو 107 سے بڑھا کر 114 کردی۔ اس میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (بشمول گلگت بلتستان) اور لداخ سے چار نشستیں شامل تھیں۔ یعنی ا سمبلی میں 87 منتخب اراکین اور دو نامزد خواتین تھیں۔لداخ کی قانون ساز نشستوں کو ختم کرکے، اس تعداد کو کم کر کے 107 (83+24) کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا اس بار 90 منتخب اراکین ہوں گے۔لداخ کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔
مارچ 2020 میں جموں و کشمیر حد بندی کمیشن نے جموں ڈویژن کو اضافی چھ سیٹیں تفویض کیں، وادی کشمیر،جس کی آبادی 2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں سے دس لاکھ زیادہ ہے، کو بس ایک اضافی سیٹ دی گئی۔ پانچ اراکین کو گورنر نامزد کرے گا اور ان کو ووٹنگ کا حق حاصل بھی ہوگا۔ کل ریاست کی آباد ی کا صرف 43.6 فیصد ہونے کے باوجود، کمیشن نے جموں کی نشستوں کا حصہ 37 سے بڑھا کر 43 اوروادی کشمیر کی آبادی کا کل ریاست کا 56.3 فیصد ہونے کے باوجود سیٹوں کو 46 سے بڑھا کر صرف 47 کرنے کا فیصلہ کیا۔
کمیشن نے درج فہرست ذاتوں کے لیے سات نشستوں اور درج فہرست قبائل کے لیے نو نشستیں بھی محفوظ کیں۔ لیفٹیننٹ گورنر کشمیری پنڈت کمیونٹی سے دو ارکان کو قانون ساز اسمبلی کے لیے نامزد کر یں گے۔ا ن نامزد اراکین میں سے ایک خاتون ہوگی۔
اسی طرح سے1947 میں پاکستان سے آئے مہاجرین کی نمائندگی کے لیے ایک رکن کونامزد کیا جائےگا۔یہ تینوں نامزد نشستیں دو خواتین اراکین کی نامزدگی کے علاوہ ہیں جو پہلے سے ہی روبہ عمل ہیں۔ اسی طرح نئی جموں و کشمیر اسمبلی میں اراکین کی تعداد 95 ہوگی، جس میں 90 منتخب اور پانچ نامزد ممبران ہوں گے۔ پہلی بار نامزد اراکین کو ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا۔
نامزر اراکین اور نئی حدبندیاں، بڑی حد تک بی جے پی اور ہندو اقلیت کو فائدہ پہنچانے اور اکثریتی آبادی کو مزید بے اختیار کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ جموں صوبے کی چھ اضافی اسمبلی نشستوں میں سے صرف ایک مسلم اکثریتی وادی چناب میں ہے۔ کشتواڑ، جموں اور کشمیر کا سب سے بڑا ضلع ہے جو 7737 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔
اس مناسبت سے اس کو ایک اضافی سیٹ دی گئی ہے۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ سرحدی علاقوں کے لیے اضافی اسمبلی نشستیں رکھیں گئی ہیں۔ اس دلیل کی رو سے سامبا اور کٹھوعہ اضلاع کو اضافی نشستیں دی گئی ہیں،کیونکہ یہ بین الاقوامی سرحد پر واقع ہیں۔ تاہم، یہ منطق راجوری (62.7فیصد مسلم) اور پونچھ (90.4فیصد مسلم) کے اضلاع میں لاگو نہیں کی گئی ہے، جو لائن آف کنڑول پر واقع ہیں اور کشیدگی کی صورت میں ان کو گولہ باری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جموں کے ادھم پور ضلع میں، جس کے اندر تین اسمبلی حلقے ہیں، کمیشن نے ایک اور حلقہ اس طرح تجویز کیا ہے کہ کچھ پہاڑی اور ناقابل رسائی علاقوں کو، ایک حلقے میں رکھنے کے بجائے، تقسیم کر کے دو یا دو سے زیادہ حلقوں میں شامل کر دیا گیا ہے۔
چنانی اسمبلی حلقہ کے کئی گاؤں (دودو، جاکھر، سیرا، پتنگڑھ، بارمین اور ستیلتا) کو رام نگر اسمبلی حلقہ میں منتقل کر دیا گیا ہے، حالانکہ وہ جغرافیائی طور پر جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ دیہات چاروں طرف سے چنانی سے گھرے ہوئے ہیں اور ان میں شیڈول کاسٹ یعنی دلتوں کی کی بڑی آبادی ہے۔
اسی طرح ادھم پور کے مضافات میں جکھانی گاؤں، جہاں 92.8 فیصد شیڈولڈ قبائل ہیں اودھم پور حلقہ سے ہٹا کر چنانی کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ روایتی طور پر بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے تھے۔ایک اور مثال راجوری ضلع کی ہے، جس میں 2014 تک چار اسمبلی حلقے شامل تھے: نوشہرہ، کالاکوٹ، راجوری، اور درہل۔ حد بندی کی تجویز نے ایک نیا حلقہ تھانہ منڈی تشکیل دیا۔
راجوری حلقہ جو کہ بنیادی طور پر تحصیل راجوری پر مشتمل ہے، 70فیصد مسلم اور 28فیصد ہندو ہیں۔
راجوری قصبہ 57 فیصد ہندو ہے۔ 2014 کے انتخابات میں راجوری میں، چودھری طالب حسین، جو پہلے نیشنل کانفرنس یا کانگریس کے رکن کے طور پر اس سیٹ کی نمائندگی کر چکے ہیں، نے بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور پی ڈی پی کے امیدوار کو سخت ٹکر دی۔
کالاکوٹ میں، بی جے پی کے عبدالغنی کوہلی نے 6000 ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی، اپنے قریبی حریف نیشنل کانفرنس کے رچھپال سنگھ کو شکست دی۔ بی جے پی کے رویندر رینا نے نوشہرہ سیٹ سے 10000 وو ٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی۔
بی جے پی کو امید ہے کہ حد بندی کا فائدہ اٹھا کر وہ ان تینوں سیٹوں کو دوبارہ حاصل کرےگی۔ 2024 کے پارلیامانی انتخابات میں، کانگریس سے سخت مقابلے کے باوجود، بی جے پی کے امیدوار جگل کشور نے اس حلقہ میں 38848 ووٹ حاصل کیے جبکہ کانگریس کے رمن بھلا نے 23676 ووٹ حاصل کیے، تقریباً 15000 ووٹوں کی برتری حاصل کی۔
انتخابات میں ایک تیسرا اہم عنصر- خاص طور پر پیر پنجال پٹی میں – شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) زمرہ کی نشستیں ہیں۔حد بندی کمیشن نے جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات کے لیے نو ایس ٹی حلقوں کی نشاندہی کی تھی جن میں سے پانچ راجوری-پونچھ سرحدی اضلاع میں واقع ہیں۔
درہل، تھانامنڈی (راجوری)، سورنکوٹ، مینڈھر (پونچھ)، مہور (ریاسی)، کوکرناگ (اننت ناگ)، کنگن (گاندربل) اور گریز (بانڈی پورہ) کو درج فہرست قبائل کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ پہلے صرف گجر طبقہ کی درج فہرست قبائل مانا جاتا تھا، مگر اب اس میں پہاڑی برادری، گڈا برہمن، پڈاری اور کولی برادریوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
ان حلقوں میں صرف ان ہی برادریوں کے افراد بطور امیدوار قسمت آزمائی کرسکتے ہیں۔ راجوری اور پونچھ میں انتخابی سیاست اور سیاسی بیانیہ زیادہ تر گجر-پہاڑی تقسیم یا اتحاد سے طے ہوتا ہے۔ پہاڑیوں کو ایس ٹی کا درجہ دیے جانے سے، نسلی اور مذہبی دونوں تقسیم مزید گہری ہونے اور مقابلہ جارحانہ اور تلخ ہونے کا امکان ہے۔
اگر چند ماہ قبل ہوئے پارلیامانی انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے اور ان کا اطلاق اسمبلی انتخابات پر کیا جائے،، تو نیشنل کانفرنس کو 90 میں سے 34 اسمبلی حلقوں میں برتری حاصل ہوگئی تھی۔ حالانکہ اس نے جموں میں پونچھ، راجوری کو چھوڑ کر دیگر جگہوں پر امیدوار کھڑے نہیں کیے تھے اور ہندو بیلٹ کا میدان کانگریس کے لیے چھوڑا تھا۔ پی ڈی پی کو صرف پانچ سیٹوں پر ہی برتری حاصل تھی۔
سجاد غنی لون کی پیوپلز کانفرنس کو صرف ایک سیٹ پر برتری حاصل تھی۔ انجینئر رشیدکی عوامی اتحاد پارٹی، جس نے عمر عبداللہ اور سجاد لون کو شکست دی نے ایک ہی پارلیامانی نشت سے انتخاب لڑا، مگر 14 اسمبلی حلقو ں میں برتری حاصل کی۔
بی جے پی کو 29 اسمبلی حلقوں میں اور کانگریس کو سات نشستوں پر برتری حاصل تھی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے پارلیامانی انتخابات کے نتائج اسمبلی انتخابات پر اثر انداز ہوں۔ چونکہ کشمیر میں پولنگ ہی کم ہوتی تھی، اس لیے 2019کے پارلیامانی انتخابات میں جموں کے ہندو بیلٹ کو سویپ کرتے ہوئے بی جے پی کو46.67 فیصد ووٹ ملے تھے، مگر چند ماہ قبل ہوئے انتخابات میں یہ گھٹ کر 24فیصد ہی ریکارڈ کیے گئے۔اس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ اگر کانگریس ہندو بیلٹ میں اچھی مہم چلائے گی، تو بی جے پی کا پتہ صاف ہوسکتا ہے۔
خیرایک اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا ان انتخابات کے نتیجے میں خطے میں حقیقی امن قائم ہو سکے گا؟ ویسے تو مودی حکومت بغلیں بجا رہی ہے کہ اس نے کشمیر میں پچھلے پانچ سالوں میں امن قائم کیا ہوا ہے۔
مگر یہ قبرستان کی خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ زمینی سطح پر لوگ ایک طرح کے حبس کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان کو امید ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں شاید کچھ آکسیجن بحال ہو جائےگا، تا کہ وہ چند سانسیں لے سکیں۔
جموں و کشمیر کے بیس اضلاع میں 14 کے ڈپٹی کمشنر یا ڈی ایم غیر مقامی ہیں۔ انتخابات کے بعد کم از کم انتظامیہ کے چہرے مقامی ہونے کی امید ہے۔ اس خطے کی دس لاکھ سے زائد آبادی کو نوکریاں ملنے یا پاسپورٹ وغیرہ ملنے میں دشواریاں ہیں۔
کیونکہ اگر دور کا رشتہ دار بھی کسی ممنوعہ تنظیم یا عسکری گروپ کے ساتھ وابستہ ہو، تو پاسپورٹ یا نوکری کے لیے سیکورٹی کلیرنس ملنا ناممکن ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا منتخب انتظامیہ لوگوں کے حقوق، فلاح و بہبود اور عوامی شراکت پر پالیسی کو دوبارہ مرکوز کرکے سابق ریاست کے لوگوں کی بیگانگی کو کم کرنے میں کردار ادا کرے گی؟
یہ تبھی ممکن ہوگا جب اس نئی انتظامیہ کو عوامی امیدوں و امنگوں کے مطابق کام کاج کرنے دیا جائےگا۔
دوسری طرف گوکہ سابق ریاست کے ایک خطے لداخ میں انتخابات نہیں ہوں گے کیونکہ یہ اب ایک الگ بغیر اسمبلی کے مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے۔ وزارت داخلہ نے حال ہی میں اس خطے میں پانچ اضلاع کا اضافہ کرکے دو لاکھ ستر ہزار کی آبادی کے لیے سات اضلاع بنائے ہیں۔ یعنی 39ہزار افراد پر ایک ضلع۔ چونکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اس خطے میں مسلم آبادی کا تناسب 46 فیصد اور بدھ آبادی کا تناسب 39 فیصد پایا گیا۔ اس لیے ضلعوں کی ترتیب ایسی بنائی گئی، کہ چار اضلاع بدھ اکثریتی اور تین ہی مسلم اکثریتی ہوں گے۔ لیہہ اور کرگل کے علاوہ دیگر اضلاع زنسکار، دراس، شام وادی، نوبرہ اور چانگ تھانگ ہونگے۔ اس علاقے میں بھی سول سوسائٹی کے گروپوں نے پہاڑی کونسلوں کے انتظامی اختیارات کی بحالی اور ایک منتخب انتظامیہ کا مطالبہ کیا ہے۔مگر ان کے لیے لگتا ہے شاید ابھی دلی دورہے۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر