ادبستان

نیا ہندوستان پُرانا مسلمان: ادبی مجلہ ’اثبات‘ کا دستاویزی شمارہ

تاریخ، ادب اور صحافت کے بامعنی امتزاج کو پیش کرتی یہ تحریریں آج کے ہندوستان اور مسلمان سے مکالمہ قائم کرتی ہیں اور اس سیاست کو سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہیں جہاں ⸺کرسی⸺ کی بنیاد ہی نفرت اور تشدد پر ٹکی ہوئی ہے۔ جس کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو عام کرنا، اس رویے کو نارملائز کرنا اور اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔

تصویر بہ شکریہ: فیس بک

تصویر بہ شکریہ: فیس بک

’نیا ہندوستان پرانا مسلمان:ہندوستانی مسلمانوں کے گزشتہ 75 سال‘،سہ ماہی ’اثبات‘ کا دو جلدوں پرمشتمل خصوصی اورصحیح معنوں میں دستاویزی شمارہ ہے۔ یوں تواشعر نجمی کا رسالہ ’اثبات‘ اپنے موضوعات ،اسلوب وانداز اور پیشکش کی وجہ سے ادبی دنیا میں پہلے ہی منفرد شناخت رکھتا ہے، لیکن حال کے بعض شماروں خصوصی طو رپر’مزاحمت نمبر‘ نے مزاحمت کے نئے نئے معنی وضع کرکے ادب اور اس کی شعریات کو مرتب کرنے کی غیر معمولی سعی کی ہے۔

ایسے میں ہمارے زمانے میں ہندوپاک کے کسی خلاق ذہن مدیرکا نام لینا ہوتو میں سب سے پہلےاشعر نجمی کا نام لوں گی، آپ چاہیں تو یہاں ان کے رسالہ کےسرقہ نمبر یا عریاں اور فحش نگاری نمبر وغیرہ کو بھی یاد کرسکتے ہیں اور ان کے ادارتی کمالات کی داد دے سکتے ہیں۔

بہرحال، تقریباً 1600 صفحات پر مشتمل پیش نظر شمارے (نیا ہندوستان اور پرانا مسلمان) کو موضوع کی مناسبت سے دیکھا جائے تو شاید یہ نیا نہ لگے کہ آپ اور ہم اسی وجودی بحران کا شکار ہیں جس کا بیانیہ اس کتاب میں پھیلا ہوا ہے۔

ہندوستان کا مسلمان آج اپنے ان بنیادی حقوق کے لیے بھی جدوجہد کر رہا ہے جو اسے آئین سے حاصل ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نئے ہندوستان میں ’ہندو-مسلم کر کے‘ ستّا میں آئی حکومت کے لیے دستور ہند کا کوئی مطلب نہیں ہے؟ اور وہ اس کی جگہ کسی اور کتاب کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘بنانا چاہتے ہیں؟

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ  یہ ’نیا ہندوستان ‘کیا ہے؟ اور اس نئے ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت کیا ہے؟ کیا ہمارا نام ہماری شناخت کے لیے کافی ہے؟ ہماری فکر، نقطہ نظر، خیال کیا صرف اس’ نام‘ سے جڑا ہوتا ہے؟ یا سمجھ لیا جاتا ہے۔ آپ نے نام بتایا اور اگلے نے سمجھ لیا کہ آپ کون ہیں، کیا ہیں، آپ کے خیالات کیا ہیں۔

اس ’نئے ہندوستان‘ میں مسلمانوں کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کئی دفعہ سفر کے دوران ٹی ٹی ای کو نام بتاتے ہوئے شاید آپ نے بھی گھورتی نظروں کو محسوس کیا ہوگا۔ جیسے آپ کا نام ہی آپ کے مجرم ہونے کی دلیل ہو۔ شاید یہی وہ ’نیا ہندوستان‘ہے جہاں⸺ پرانا مسلمان⸺ زندہ درگور ہے۔

ماب لنچنگ ہو یا گئو کشی کے شک میں پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کا واقعہ ہو، بغیر ٹرائل اوربغیر جرم ثابت ہوئے سالوں جیل میں قید رکھنا ہو یا ان کے گھروں پر بلڈوزر چلانا ہو، کسی کا انکاؤنٹر کرنا ہو یا کسی غریب ٹھیلے والے کی سبزیاں اور پھل برباد کر کے اس کی روزی روٹی پر حملہ کرنا ہو، گو کہ اس نئے ہندوستان میں مسلمان ہونا ہی جرم ہے۔

ہمارےدرمیان سے ثقافتی ہم آہنگی ،رواداری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہندو-مسلم کرکے ہی اب الیکشن لڑے جا رہے ہیں اور جیتےبھی جا رہے ہیں۔ حالانکہ اسی نئے ہندوستان میں⸺ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں⸺ جن کے لیے ایک خاص کمیونٹی کو ٹارگیٹ کرنا اب تک نارملائز نہیں ہوا ہے۔

لیکن سوال یہ بھی ہے کہ جب شر پسند عناص کو حکومت کی حمایت حاصل ہو جائے توکیا اعداد وشمار کوئی معنی رکھتے ہیں؟ ہمارا سماج بدل رہا ہے۔ اس نئے سماج میں مسلمانوں کی حیثیت ’دوجی‘ ہے۔ اور ان کی شناخت ہی ان کا جرم ہے۔ اس کتاب کو اسی سیاسی اور المناک بیانیہ نے جنم دیا ہے۔

اس موضوع پرصحافی- صحافتی ادارے ، مضامین، گراؤنڈ رپورٹس شائع کرتے رہتے ہیں۔ اس نوع کی بیش قیمتی تحریریں اس شمارے میں بھی شامل کی گئی ہیں۔ ادبی تحریروں میں بھی ممکن ہے اس موضوع پر آپ نے کافی کچھ پڑھ رکھا ہو۔ لیکن مدیر نے ہندوستانی مسلمانوں کےجس 75 سالہ تاریخی، سیاسی، سماجی اور وجودی بیانیہ کو ہمارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے اورتحریروں کے انتخاب میں جس بوقلمونی کا مظاہرہ کیا ہے اس میں نہ صرف جدت نمایاں ہے بلکہ یہ ان کی تحقیقی سرگرمی سے بھی عبارت ہے۔

اس نئے ہندوستان میں ہندوستانی مسلمانوں کے گزشتہ 75 سالوں کا یہ بیانیہ اشعر نجمی صاحب نے ایک جگہ سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے یہ کام مشکل ترین رہا ہوگا، اس کا اندازہ فہرست سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں ادبی تحریریں بھی ہیں، کچھ پرانی کچھ نئی اور صحافتی بھی۔ یہ امتزاج کسی رسالے کے لیے اپنے آپ میں ذرا منفرد ہے جہاں منٹو،عصمت کے ساتھ رویش کمار اور سدھارتھ وردراجن کو پڑھا جا سکتا ہے۔

اشعر نجمی، تصویر بہ شکریہ: فیس بک

اشعر نجمی، تصویر بہ شکریہ: فیس بک

مدیر نے ہمارے سامنے اس مسئلہ کو ایک صحافی اور بیدار ذہن آرٹسٹ کی نظر سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر باب کی شروعات میں نظم اورآخر میں  فکشن کا باب  اسی کوشش کی ایک کڑی کہا جا سکتا ہے۔ کئی تاریخ دانوں کی تحریریں بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سکے کے دونوں پہلو کو پیش کرنے کی کوشش بھی کتاب میں نظر آتی ہے۔یعنی اختلاف رائے کو بھی جگہ دی گئی ہے۔

مدیر نےموضوع اورتھیم سے متعلق منفردتحریروں/تراجم/ مضامین/ رپورٹس /افسانے/نظم کو اس دستاویزی شمارے میں شامل کیا ہے۔ ان میں زماں و مکاں کی قید نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں کئی زمانے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ تحریریں مختلف زمانوں میں لکھی گئی ہیں جن کی تفصیل تحریر کے آخر میں دی گئی ہے۔ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں پر مشتمل یہ 75 سالہ بیانیہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنے اور وجود ی تشخص سے جڑے سوالوں کا سامنا کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔

تاریخ، ادب اور صحافت کے بامعنی امتزاج کو پیش کرتی یہ تحریریں آج کے ہندوستان اور مسلمان سے مکالمہ قائم کرتی ہیں اور اس سیاست کو سمجھنے میں بھی مدد کرتی ہیں جہاں ⸺کرسی⸺ کی بنیاد ہی نفرت اور تشدد پر ٹکی ہوئی ہے۔ جس کا واحد مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو عام کرنا، اس رویے کو نارملائز کرنا اور اپنا الو سیدھا کرنا ہے۔

تیرہ ابواب پر مشتمل یہ شمارہ کم و بیش عصر حاضر کے ان تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہے جن سےہندوستانی مسلمان دوچارہیں۔ چاہے وہ شہریت قانون ہو، آبادی میں اضافہ کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرائے جانے کا پروپیگنڈہ ہو،ان کی بدترتعلیمی صورتحال ہو، دلت-پسماندہ مسلمانوں کے ریزرویشن کا سوال ہو، مدرسوں کو نشانہ بنایا جانا ہو،مسلمانوں کے روزگارکو نشانہ بنایا جانا ہو،وقف بورڈ سے متعلق بل ہو،مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حقوق محدود کرنا ہو، طلاق ثلاثہ قانون ہو یا مسلمانوں کے خلاف بڑھتا تشدد ،یہ تمام ڈسکورس اس ضخیم شمارے  کا حصہ ہیں۔

تاریخی پس منظر کے ساتھ یہ کتاب عصر حاضر کے مسلمانوں کے مسائل سے بخوبی معاملہ کرتی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ماضی اور حال کے آئینے میں ہندوستان میں مسلمان کی تصویر یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔ان باریکیوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے جو کئی دفعہ تاریخی بیانیہ سے غائب کر دی جاتی ہیں۔ پھر یہ تو گودی میڈیا کا دور ہے۔ اس دور میں اس طرح کے دستاویز کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

تصویر بہ شکریہ: فیس بک

تصویر بہ شکریہ: فیس بک

سیاسی حکمت عملی نے مسلمانوں کو صرف ’دوجا ‘ہی نہیں بنایا بلکہ ان کی حب الوطنی پر بھی سوالیہ نشان لگا یا ہے۔آپ مسلمان ہیں تو ملک سے محبت کیا ہی کریں گے۔ ’راشٹرواد‘ کی تعریف میں مسلمانوں کا شمار ہی کہاں ہے؟شاید یہ نفرت نئی نہ ہو پر شدت ،اس کے کھلے اظہار اور تشددکو نارملائز کر دینے کو ضرور نیا کہا جا سکتا ہے۔

کسی ایک مذہب کو خطرے میں بتا کر دوسرے مذہب کے لوگوں کی نسل کشی اور اس پر ملک کی عوام کا زیرو ردعمل بھی شاید نیا ہے۔یہاں تک کہ اب بچے بھی اس مذہبی نفرت سے اچھوتے نہیں رہے۔ ان کے درمیان بھی ہندو-مسلم کی تفریق اپنی جگہ بنا چکی ہے۔

ایک طرف سب سے بڑی جمہوریت کہا جانے والا یہ ملک اپنے ہی وزیراعظم کی دروغ گوئی کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے۔ وہیں دوسری طرف غریبی، بے روزگاری انتہا پر ہونے، بنیادی سہولتوں کے فقدان کے باوجود آئے دن فرقہ وارانہ فسادات معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔’حکومت‘ کرنے کی تمام نوآبادیاتی حکمت عملی ہمارے سیاسی رہنما آج بھی آزما رہے ہیں اور حیرت ہے کہ ان کا یہ تجربہ اب تک  کامیاب بھی رہا ہے۔

مثال کے طور پر زبان کے مذہبی تشخص کو ہی لیں لے۔اردو کے مسلمان ہو جانے کا بیانیہ نوآبادیاتی دور میں ضرور پیدا ہوالیکن اسے مستحکم کرنے میں ہمارے رہنماؤں نے بخوبی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

تعلیمی درسگاہوں میں حالات اب یہ ہیں کہ دوسرے مضامین پڑھانے والےاساتذہ کرام منچ سے اگر کسی ایسی ہستی کے بارے میں کچھ بولنا چاہتے ہیں جو مسلمان ہے تو اس کے لیے انھیں اردو کا استعمال ضروری معلوم پڑتا ہے اور وہ دو-چار اردو کے لفظ آکر پوچھتےبھی ہیں ۔

دن بہ دن یہ بتانا ،سمجھانا مشکل بلکہ مشکل ترین ہوتا جا رہاہے کہ اردو کا کسی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں۔شاید میں ہی ایک دن تھک کر یہ سمجھانے کی کوشش چھوڑ دوں گی۔مجھے خوشی ہے کہ زبان  کی اس سیاست کو بھی مدیر نے اپنے اس خاص شمارے/کتابی سلسلہ میں جگہ دی ہے۔اس کے علاوہ  ہندوستان میں اردو صحافت کے کردار کو بھی بریکٹ کیا ہے۔کتاب میں شامل نظم ’اردو‘ سے چند اشعار:

بہت سمجھے تھے ہم ا س دور کی فرقہ پرستی کو

زباں بھی آج شیخ وبرہمن ہے ہم نہیں سمجھے

اگر اردو پہ بھی الزام ہے باہر سے آنے کا

تو پھر ہندوستاں کس کا وطن ہے ہم نہیں سمجھے

مجموعی طور پر کہوں تو اگر آپ اس ’نئے ہندوستان‘ کو سمجھنا چاہتے ہیں، اس ہندوستانی مسلمان کےدکھ -درد/مسائل سے معاملہ کرنا چاہتے ہیں،اس کے وجودی بحران کو سمجھنا چاہتے ہیں، اس سیاست کو سمجھنا چاہتے ہیں جس نے مسلمان کودوئم درجے کا شہری بنا دیا ہے تو تاریخی پس منظر کے ساتھ یہ ڈسکورس آپ کو اثبات کے اس نئے شمارے ’نیا ہندوستان پرانا مسلمان:ہندوستانی مسلمانوں کے گزشتہ 75 سال‘ میں مل جائے گا۔

 ہمیں یہ کتاب اس لیے بھی پڑھنی چاہیے کہ اپنے ماضی اور حال کی بنا پر اپنی کمیوں کو سمجھ سکیں، اپنا محاسبہ کر سکیں اور اپنے حقوق کی لڑائی جاری رکھ سکیں۔ آج مسلمان کیوں ایک آسان نشانہ بن چکا ہے، اس میں ہماری کوتاہیوں کا قصور کتنا ہے؟ تعلیم  حاصل کرنا کیوں اہم ہے۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے۔ مسئلہ کا حل تبھی نکالا جا سکتا ہے جب مسئلہ کا اعتراف ہو۔

اشعر نجمی صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے اس موضوع پر جامع تحقیقی مواد فراہم کرنے کی بے مثال سعی کی ہے۔

بہرحال، میں سمجھتی ہوں کہ اثبات کا یہ شمارہ ملک کی تمام اہم لائبریریوں کے علاوہ ہر اردو پڑھنے والے کی میز پر ہونا چاہیے۔

دو جلدوں پر مشتمل یہ دستاویزی شمارہ موبائل نمبر 9372247833 اور 9910482906 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔