خاص خبر

یوپی پولیس نے محمد زبیر پر ملک کے اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگایا: رپورٹ

اتر پردیش پولیس نے کٹر ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند کی مبینہ ہیٹ اسپیچ پر پوسٹ کرنے کے معاملے میں فیکٹ چیکر اورآلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کے خلاف ہندوستان کی خود مختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی کارروائیوں سے نمٹنے سے متعلق قانون کا استعمال کیا ہے۔

محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

نئی دہلی: اتر پردیش پولیس نے کٹر ہندوتوا لیڈرکی مبینہ ہیٹ اسپیچ پر پوسٹ کرنے کے معاملے میں فیکٹ چیکر اور آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کے خلاف ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرہ میں ڈالنے والی کارروائیوں سے نمٹنے والے قانون کا استعمال کیا ہے۔

بار اینڈ بیچ کی رپورٹ کے مطابق، کیس کے تفتیشی افسر نے بدھ (27 نومبر) کو الہ آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کا جرم زبیر کے خلاف ایف آئی آر میں شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایف آئی آر میں آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 بھی شامل کی ہے، جو ‘کمپیوٹر کے جرائم’ سے متعلق ہے، جس میں بصورت دیگر دشمنی کو فروغ دینے، ثبوت گھڑنے، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، ہتک عزت اور مجرمانہ جرائم سے نمٹنے کی دفعات کو لاگو کرتی ہے۔

واضح ہو کہ غازی آباد پولیس نے زبیر کے خلاف کٹر ہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند کے ایک ساتھی کی شکایت کے بعد گزشتہ ماہ ایف آئی آر درج کی تھی ۔

نرسنہانند کی معاون اور یتی نرسنہانند سرسوتی فاؤنڈیشن کی جنرل سکریٹری، ادیتہ تیاگی نے الزام لگایا کہ زبیر نے 3 اکتوبر کو ان کے خلاف تشدد بھڑکانے کے لیے نرسنہانند کی ایک پرانی کلپنگ پوسٹ کی تھی۔ اس مہینے کے شروع میں، نرسنہانند پیغمبر اسلام کے بارے میں اشتعال انگیز تبصرہ کرنے کی وجہ سے سرخیوں میں آئے تھے اورانہیں 29 ستمبر کو غازی آباد میں ایک تقریب میں انہیں لوگوں کو پیغمبر محمد کا پتلا جلانے پر اکساتے ہوئے سنا گیا تھا۔

بتادیں کہ غازی آباد کے ڈاسنہ مندر کے پجاری اور کٹر ہندوتوا لیڈر یتی نرسنہانند کے  29 ستمبر کومبینہ اسلام مخالف ریمارکس کو لے کر  کئی ریاستوں میں ایف آئی آر درج کی گئی تھیں اور یوپی پولیس نے انہیں حراست میں لیا تھا۔ نرسنہانند کے متنازعہ ریمارکس کو لے کر یوپی، مہاراشٹر، تلنگانہ اور جموں و کشمیر میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔

زبیر نے الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر ایک رٹ پٹیشن میں اپنے خلاف درج ایف آئی آر کو چیلنج کیا اور تعزیری کارروائی سے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ نرسنہانند کے بارے میں ان کی پوسٹ میں ان کے خلاف تشدد کی اپیل نہیں کی گئی تھی، بلکہ صرف نرسنہانند کے اقدامات کے بارے میں پولیس کو آگاہ کیا گیا تھا اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی  مانگ  کی گئی تھی۔

ان کی رٹ پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب نرسنہانند نے مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز بیان دیا تھا، تو وہ ہیٹ اسپیچ کے معاملے  میں ضمانت پر باہر تھے اور ان کی ضمانت کی شرائط میں کہا گیا تھا کہ انہیں فرقہ وارانہ نفرت کو فروغ دینے والے بیانات دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، زبیر نے یہ بھی دلیل دی کہ نرسنہانند کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے کے لیےان کے ویڈیو کو عوامی طور پر شیئر کرنا ہتک عزت کا معاملہ نہیں مانا جا سکتا۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق، عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 3 دسمبر کو مقرر کی ہے۔

واضح ہو کہ زبیر کے خلاف یہ پہلی ایف آئی آر نہیں ہے۔ انہیں جون 2022 میں بھی 2018 میں کی گئی ایک پوسٹ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کو قومی اور بین الاقوامی میڈیا، سول سوسائٹی اور اپوزیشن جماعتوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جنہوں نے الزام لگایا تھاکہ یہ اختلاف رائے کو دبانے اورفیکٹ چیکرکو نشانہ بنانے کی کوشش تھی۔

زبیر فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی ہیں۔ آلٹ نیوز نے بدھ کو جاری  ایک بیان میں کہا کہ وہ اس قانونی دھمکی کا سامنا کر رہے زبیر کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ‘یہ حلف نامہ اس بات کی ایک اور مثال ہے کہ کس طرح نفرت اور غلط معلومات کو بے نقاب کرنے کے مرتکب افراد اور تنظیموں کو دھمکانے کے لیے ریاستی مشینری کا استعمال کیا جا رہا ہے۔’