خاص خبر

انکل سیاہ فام کے نام پہلا خط

میں ایک خوشحال ملک کا شہری ہوں اور معترف ہوں کہ یہ خوشحالی آپ کی بدولت ہے۔ آپ کے اقتدار سے پہلے یہ ملک دنیا کا سب سے غریب ملک تھا ۔لوگ زندہ درگور تھے۔ آپ نے ہمیں غربت ، جہالت اور ذلت  کی دلدل سے آزاد کیا۔ میری طرح آپ کے لاکھوں پرستار ہیں۔ ایک اداکارہ تو آپ کی دیوانی ہے۔ اس نے بجا فرمایا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں ۔ آپ نے ہمیں آزادی، عزتِ نفس اور تاریخی افتخار سے آشنا کیا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

 پونم ساگر،نیانگر

 میرا روڈ، مہاراشٹر

 سات  ، اگست2025

 چچاجان، آداب ونیاز!

 میں آپ کی ہمہ داں شخصیت کا معترف ہوں اور آپ کی سیاسی ، سماجی، معاشی پالیسیوں اور جنگی حکمت عملی کا مداح ہوں۔

گزشتہ دو دہائیوں میں تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ایک عظیم رہنما کی طرح آپ نے جو مشکل فیصلے لیے، میری نظروں میں وہ نہ صرف اس ملک بلکہ اس خطے اور کرۂ ارض کے لیے انتہائی مفید اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔

آپ کی اَن تھک محنت نے مجھے آپ کا گرویدہ بنا لیا ہے۔ جب میں نے پہلی بار آپ کو خواب میں دیکھا تب آپ نے کہا تھا میں تم سب کا ہوں۔اس مٹی کا بیٹاہوں ۔ تم سب کا رشتہ دار ہوں۔ اِسی نسبت سے میں آپ کو اپنا چچا مانتا ہوں۔

خدا کی قسم! آپ نہ ہوتے تو ہم کبھی یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ہم ایک عالمی معاشی طاقت بن سکتے ہیں۔علاقائی سپر پاور بن سکتے ہیں۔جنگ کے میدان میں چین اور پاکستان کو شرمندہ اور رسوا کر سکتے ہیں۔

آپ نےجس سنجیدگی سے تمام مذاہب اور اقلیتوں کی فلاح و بہبودی کے لیے منصوبہ سازی کی اور جس چابکدستی سے انتظامیہ کو ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے متحرک کر رکھا ہے، اس نے آپ کو دنیا کے عظیم رہنماؤں میں ایک خصوصی مقام عطا کیا ہے۔

آپ کے لیے مندروں، خانقاہوں، مزاروں، گرودواروں، چرچ اور مے خانوں میں یکساں عقیدت اور احترام سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ میں نے خود عقیدت مندوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ہیں۔ سبھی ، ہر سو ، ہر جا آپ کی صحت اور سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔

پچھلے دنوں ایک بار میں نے خواب میں آپ کو مقدس ہستیوں کے ساتھ دیکھا ۔وہ بھی آپ کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔چنانچہ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے آپ کو خط لکھنے کی جسارت کی۔

آپ تو سب کچھ جانتے ہیں، یہ بات بھی آپ سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ سعادت حسن منٹو نے بھی ایک دن جسارت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنے چچا سام کو خط لکھنا شروع کیا تھا۔

پہلے خط میں اس نے لکھا کہ میں سارے ہندوستان کا ایک بڑا افسانہ نگار تھا۔ اب پاکستان کا ایک بڑا افسانہ نگار ہوں۔ میرے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں، لوگ مجھے عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ سالم ہندوستان میں مجھ پر تین مقدمے چلے تھے۔ یہاں پاکستان میں ایک ،لیکن…منٹو جس آسانی سے اپنے چچا کو اپنے ادبی مرتبے سے واقف کر سکا شاید میں نہ کر سکوں۔

لیکن پھر بھی اتنا بتانا ضروری ہے کہ میں آزاد بھارت کا ایک بڑا ناول نگار ہوں اور پاکستان میں بھی میرے چار ناول شائع ہو چکے ہیں۔ لوگ مجھے بھی عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور میرے بھی ایک ناول پر آزاد بھارت میں مقدمہ چلا تھا ۔

بھارت میں پہلے مجھے فحش نگار سمجھا گیا لیکن پاکستان میں مجھ پر کسی نے یہ الزام نہیں لگایا حالانکہ بھارت کے لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی شدت پسندی ادب پر زیادہ حملہ آور ہوتی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہاں کی مذہبی شدت پسندی دوسری مذہبی اور سیاسی اکائیوں کو ختم کرنے میں مصروف ہے۔ ادب ان کا ہدف نہیں ہے۔

ورنہ، روحزن، زندیق ، خدا کے سائے میں آنکھ مچولی، اور ایک طرح کا پاگل پن جیسے ناولوں پر پاکستان کی متعدد یونی ورسٹیز میں طلبہ و طالبات مقالے تحریر نہ کرتے۔

منٹو کے چچا سام امریکی تھے لیکن آپ تو اس ملک کا افتخار ہیں۔ اس لیے آپ میری باتوں پر غور کریں گے ، مجھے قوی امید ہے۔چچا جان! منٹو نے اپنے پہلے خط میں اپنی نجی پریشانیوں کا ذکر کیا ہے اور پھر اس کافر نے وہ خط کبھی پوسٹ نہیں کیا لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔

میں ایک خوشحال ملک کا شہری ہوں اور معترف ہوں یہ خوشحالی آپ کی بدولت ہے۔ آپ کے اقتدار سے پہلے یہ ملک دنیا کا سب سے غریب ملک تھا ۔لوگ زندہ درگور تھے۔ آپ نے ہمیں غربت ، جہالت اور ذلت کی دلدل سے آزاد کیا۔ میری طرح آپ کے لاکھوں پرستار ہیں۔

ایک اداکارہ تو آپ کی دیوانی ہے۔ اس نے بجا فرمایا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں ۔ آپ نے ہمیں آزادی، عزتِ نفس اور تاریخی افتخار سے آشنا کیا ہے۔

  عزیز چچاجان! میں دراصل اردو میں لکھتا ہوں۔ جانتا ہوں آپ اردو سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لیکن پڑھ نہیں سکتے ، اس لیے میں کوشش کر رہاہوں میرےتمام ناول ہندی میں شائع ہوں تا کہ پہلی فرصت میں آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں۔

روحزن کا سرورق

آپ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میرا ناول ’روحزن‘ وانی پرکاشن نے ہندی میں شائع کیا ہے۔ اس کا ایک نسخہ بھی میں اس خط کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

اس ملک کے ادیب اور شاعراِس بات پر نازاں ہیں کہ آپ خود ایک بڑا تخلیقی ذہن ہیں۔ شاعری کا بھی شغف رکھتے ہیں۔ آپ پر ملک اور دنیا جہان کے صحافی اور محقق کتابیں لکھ رہے ہیں۔ ہر پبلشر آپ کی کتاب کو شائع کرنے کے لیے بے چین ہے۔ کتاب کی ہر دکان پر صرف اور صرف آپ پر لکھی گئی کتابیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر میں خوشی سے سرشار ہو جاتا ہوں۔

آپ کی سیاسی بصیرت نے دنیا میں ہمیں سرخ رو کیا ہے۔ آپ کی کاوشیں نہ ہوتیں تو ملک میں ادب پڑھنے کے رحجان کو فروغ نہیں ملتا۔ آپ علم ِتاریخ، جغرافیہ، معاشیات، سماجیات، کیمیا، سائنس، ادب، جنگ، فلسفہ، ادویات اور ایسے کئی دیگر علوم پر دسترس رکھتے ہیں اسی سبب ان تمام شعبوں میں بیش بہا ترقی ہو رہی ہے۔

میں جانتا ہوں آپ کے خلاف متحرک سیاسی پارٹیاں آپ کے ان اوصاف کی منکر ہیں۔ دراصل وہ آپ کے علم، حکمت اور استقلال سے خائف ہیں۔ آ پ نے اچھا ہی کیا ہے انھیں نظرانداز کر رکھا ہے۔ دراصل وہ بھی آپ کی نظرِ التفات کو ترستے ہیں لیکن جب محروم ہوتے ہیں تو محاذ آرائی کے ذریعے آپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 چچا جان !اس خط میں ،میں آپ کی توجہ اس بات کی جانب مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ کسی عاقبت نا اندیش نے آپ سے مشورہ کیے بغیر صرف ج ک میں دو درجن سے زائد کتابوں پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ یہ کتابیں بقول ایک صحافی ،گمراہ کن بیانیہ ہیں جس سے ج ک کی عوام کو گمراہ کرنا مقصود ہے۔

اگر اِن نان فکشن کتابوں پر پابندی کا واحد سبب یہی تھا تو اس تاریخی کام کو اس طرح خموشی سے کرنا دراصل آپ سے ایک تاریخی کام کو انجام دینے کا کریڈٹ چھین لینے کے مترادف ہے۔

دیکھیے، جشنِ آزادی کی تقریب میں بہ مشکل چند دن باقی ہیں۔ اس دن لال قلعے سے آپ کی تقریر کو ساری دنیا سماعت کرتی ہے ۔ آپ کی علمیت اور بے باکی پر دنیا کے لیڈر رشک کرتے ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ ایک بار میں نے خواب میں دیکھا کہ دیوی دیوتا آسمان سے آپ پر پھول برسارہے ہیں۔ آپ جب لال قلعے سے تقریر کرتے ہیں تو جنگل میں مور ناچتے ہیں۔ اڑتے پرندے ہوا میں ٹھہر کر آپ کی تقریر سے محظوظ ہوتے ہیں۔

سوچیں چچا جان! کتنا شاندار منظر ہوتااگر لال قلعے سے تقریر کرتے ہوئے آپ ان ملک دشمن ادیبوں کا نام لیتے اور ان کی مکروہ کتابوں کے متن کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے۔ آپ اعلان کرتے ہیں کہ ان کتابوں کو ملک…بلکہ میں تو کہوں گا ایسی کتابوں کے لیے آزاد دنیا میں کہیں بھی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔

جس کسی گھرمیں یہ کتابیں ہوں، ضبط کی جائیں۔ جس کتاب خانے میں ہوں، ضبط کی جائیں۔ اگر کوئی پڑھتا ہوا دکھائی دے تو اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جائے اور ایسے سنگین جرم پر مجرم کو دہائیوں تک ضمانت نہ ملے۔ اس کے رشتے داروں کو بھی حراست میں لیا جائے اور پوچھ گچھ کی جائے کہ جب وہ ایسی موذی کتاب پڑھ رہا تھا تو آپ نے روکا کیوں نہیں۔ موذی کتاب پڑھنے سے نہ روکنا بھی ایک جرم قرار دیا جائے۔

 میرے چچا جان! میں تو کہوں گا ان اشتعال انگیز مصنفین کی دیگر کتابوں کی بھی مہذب اور متمدن معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ ملک کے طول وعرض میں جشن کا سماں ہوتا اگر آپ لال قلعے سے ان غدار مصنفین کی گرفتاری کا اعلان کرتے۔

جوں ہی آپ اعلان کرتے، لوگ ان مصنفین کو جمہوری طرز زندگی کا سبق سکھاتے۔ ہر سو، آپ کے حق میں نعرے بلند ہوتے۔ جلوس نکلتے، ہر شہر، ہر گاؤں اور محلے میں لوگ ان مجرم مصنفین کے پتلے جلاتے اور آپ کی صحت اور سلامتی کے لیے دعا ئیں مانگتے۔ ملک کا میڈیا ایک ہفتے تک ان مصنفین کے جرائم کو چاک کرتا ۔

اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ مستقبل میں پھر کوئی ایسی گستاخی کرنے کی جسارت نہ کرتا۔ آپ ان غدار مصنفین سے اس عظیم جمہوریت کو بچانے کی مہم کا سمبل بن جاتے۔

چنانچہ میں سوچ رہا ہوں وہ کون بدبخت تھا جس نے ایک اہم موقع آپ سے چھین لیا۔ چچا جان! میری محبت اور عقیدت کا تقاضا ہے کہ میں آپ سے التجا کروں کہ اس آدمی کا پتہ لگایا جائے، ممکن ہے وہ آپ کے خلاف سرگرم اپوزیشن کا ہمدرد ہو، ایسا ہمدرد ملک اور قوم کے لیے خطرہ ہے۔

 میں امید کرتا ہوں آپ ایسے دشمن کو اپنی صفوں سے نکال دیں گے۔

 آپ کا ناول نگار بھتیجا

 رحمٰن عباس، سکنہ آزاد بھارت