پچھلے دو الیکشن میں مودی نے مسلمانوں کو گالیاں دینے کے لئے نعرہ دیا تھا’’ ہم پانچ ہمارے پچیس‘‘۔اس بار وہ تمام حدیں اس وقت پار کر گئے جب انہوں نے یہ الزام لگایا کانگریس نے پاکستانی فوج کی مدد سے گجرات میں احمد پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنوانے کی سازش رچی ہے۔
ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دو صوبائی انتخابات ہماچل پردیش اور گجرات میں کامیابی تو حاصل کی ہے، مگر یہ ملک کی تاریخ کے تلخ ترین انتخابات میں گنے جائیں گے۔ اپوزیشن کانگریس نے معاشی بدحالی اور ترقی کے عوامی ایشوز کو بنیاد بناکر مودی کیلئے خاصی مشکلات کھڑی تو کیں، مگر بی جے پی کے لیڈروں نے فرقہ وارانہ ایشوز کو کیمپین کا موضوع بناکر ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے میں آخر کارکامیابی حاصل کی۔ہندوستان میں گائے، مسلمان اور پاکستان ہندو فرقہ کو یکجا کرنے، انکے جذبات کو برانگیختہ کرنے اور تعمیر و ترقی کے ایشوز سے توجہ ہٹاکر ووٹ بٹورنے کا ایک آزمودہ فارمولہ ہے۔ مودی نے فرقہ وارانہ خطوط پر ووٹروں سے اپیل کرتے ہوئے ان تینوں ایشوزکا بھر پور استعمال کرکے انتخابات میں کامیابی تو حاصل کی، مگر اپنے عہدہ کے وقار کو مٹی میں ملانے کا کام کیا۔ اس صوبہ میں مسلمان ویسے تو آبادی کا 9 فیصد ہیں، مگر وہ اس حد تک حاشیہ پر چلے گئے ہیں، کہ سیکولرازم کی دعویدار کانگریس نے بھی ان کو ہاتھ لگانے یا ان کے علاقوں میں انتخابی مہم چلانے سے گریز کیا۔
ان انتخابات میں فرقہ واریت اس حد تک گھل گئی کہ کانگریس نے اپنے مقتدرمسلمان لیڈروں سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل اور ایوان بالا میں اپوزیشن کے قائد غلام نبی آزاد کو انتخابی مہم سے دور رکھا۔وزیر اعظم تو اس انتہا تک چلے گئے کہ سابق نائب صدر حامد انصاری ،سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ساتھ سابق آرمی چیف جنرل دیپک کپور، سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ ، سابق خارجہ سکریٹری کے رگھوناتھ اور چند سینئر صحافیوں پر سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور ہندوستان میں پاکستان کے سفیر سہیل محمود کے ساتھ مل کر گجرات میں بی جے پی کو شکست دینے کی سازش کرنے کا الزام لگایا ۔ مودی نے10 دسمبر کو گجرات کے پالن پور سمیت کئی ریلیوں میں اس سازش کی خبر خود ہی عام گجراتیوں کو دیتے ہوئے ان سے گجرات اور گجرات کے بیٹے (مودی) کی عزت بچانے کی اپیلیں کی ۔ انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ منی شنکر ائیر کے گھر پر یہ سازشی میٹنگ پورے تین گھنٹے چلی تھی۔ یہ معاملہ اب اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اپوزیشن نے کہا ہے کہ جب تک مودی معافی نہیں مانگتے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کی کارروائی نہیں چلنے دے گی۔ غلام نبی آزاد اور کانگریس کے ڈپٹی لیڈر آنند شرما، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ڈی راجہ اور سماج وادی پارٹی کے نریش اگروال کا کہنا ہے کہ یہ کوئی معمولی الزام نہیں ہے اور نہ ہی کسی عام شخص کے خلاف لگایا گیا ہے۔ الزام لگانے والے بھی خود وزیر اعظم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں :جیت گئے الیکشن تو’وکاس‘ یادآیا…
اس صوبہ میں پچھلے بائیس سالوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اقتدار پر قابض ہے اور 12 سال تو مودی خود وزیر اعلیٰ تھے۔ چونکہ تعمیر و ترقی کے ایشوز کے حوالے سے عوام کے سامنے وہ جوابدہ تھے، اس لئے مودی کی پہل کے بعد بی جے پی لیڈران نے گجرات میں ترقی ، تعلیم، صحت، روزگار جیسے اہم ایشوزکو چھوڑ کر ذاتی حملوں، اصلی نقلی ہندو اور مندر جیسے ایشوز کو پکڑا۔ مودی نے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو اورنگ زیب کا خلف بتا دیا تو ان کی پارٹی کے ایک ترجمان جی ایل نرسمہا نے راہل کو مغلوں اور علاء الدین خلجی کا وارث قرار دے دیا۔ان دونوں مسلمان بادشاہوں کے ناموں کا استعمال کرنے کا مقصد گجراتی ہندوں کے جذبات بھڑکانا تھا۔ جذباتی نعروں کو استعمال کرنے کا مقصد شاید یہ رہا ہو کہ مودی اور بی جے پی لیڈران کی پبلک میٹنگ میں بھیڑ کم ہورہی تھی دوسری طرف راہل گاندھی اور پٹیل برادری کے سرخیل ہاردک پٹیل کی ہر میٹنگ میں پچھلی میٹنگ سے زیادہ بھیڑ نظر آرہی تھی بی جے پی نے دو تین فحش سی ڈیز جاری کرکے ہاردک پٹیل کو بھی بدنام کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
تجزیہ کار حسام صدیقی کے بقول جس طرح کینسر کے مرض میں مبتلا کوئی مریض ہر ایسی دوا کھانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے جس سے اسے فائدہ کی ذرا بھی امید ہو ٹھیک اسی طرح گجرات میں کافی لمبی مدت کے بعد نریندر مودی بھی سہارے کے لئے تنکے چنتے نظر آرہے تھے۔ کانگریس کے ایک معمولی ورکر رہے شہزاد پونا والا نے اپنی اوقات بھول کر راہل گاندھی کے پارٹی صدر چنے جانے کے خلاف گھٹیا بیان بازی کر دی تو مودی دن بھر پبلک میٹنگوں میں اس کا نام لے کر اس کی حمایت اور بہادری کا تعریفیں کرتے رہے۔ اگلے دن انہوں نے منی شنکر ائیر کے ایک بیان کے سہارے تمام میٹنگوں میں راہل کے الیکشن کو اورنگ زیب سے جوڑنا مناسب سمجھا۔ وزیراعظم نے اپنی ایک میٹنگ میں یہ بھی کہہ دیا کہ ایک بار جب قدرتی آفات کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں چلی گئی توتھیں تو اندرا گاندھی یہاں آئی تھیں تو ناک پر رومال رکھ کر کھڑی تھیں کیونکہ انہیں بدبو برداشت نہیں تھی اور اسی بدبو میں گھس کر آرایس ایس ایس کے سویم سیوک گھس کر بدبوکی پرواکئے بغیر لاشوں کو اٹھانے کا کام کر رہے تھے۔ناک پررو مال رکھے ہوئے اندرا گاندھی کی تصویر اس وقت چتر لیکھامیگزین میں شائع بھی ہوئی تھیں۔ان کا یہ جھوٹ چند منٹو ں میں پکڑا گیا۔ کانگریس نے چتر لیکھا میں چھپی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی جس میں آر ایس ایس کے سویم سیوک بھی منھ پر کپڑا باندھے ہوئے کام کرتے دکھ رہے ہیں۔
اول تو مودی کا اندرا گاندھی پریہ الزام غلط تھا دوسرا اگر صحیح بھی ہوتا تو آج کے گجرات کے الیکشن میں اس بات کو لانے کا کیاجواز تھا؟ نو سال پہلے دہلی میں امریکی سفارتخانے میں لنچ میں راہل گاندھی کا وکی لیک کا ایک ڈاکومینٹ صوبہ میں تقسیم کیا گیا، جس میں کانگریسی لیڈر نے امریکی سفیر سے کہا تھاکہ ہمارے ملک کو لشکر طیبہ اور نکسلی دہشت گردوں سے زیادہ بڑا خطرہ ہندو بھگوا دہشت گردوں سے ہے۔دو دسمبر کو ان کے ایک اوروکیل وزیر خزانہ ارون جیٹلی پہنچے توانہوں نے بتایاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہی اصل ہندو پارٹی ہے، کانگریس تو ہندووں کا’کلون‘یعنی نقلی پارٹی ہے۔اب سوال اٹھنے لگا کہ کیا بقول ارون جیٹلی اصل ہندووں کی سرکار ہی کسی ملک کی ترقی کی ضمانت ہے؟مطلب ہے صاف ہے کہ نریندرمودی کی بی جے پی کسی بھی قیمت پر ہر الیکشن ذات ۔پات،مذہب اورہندو مسلم کے نام پر ہی لڑے گی۔ان لوگوں کو ملک کی ترقی، عوام کی خوشحالی اور آئین پر پابندرہنے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
وزیر اعظم کے ان پینتروں کے ردعمل میں میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے جب منی شنکر ائیر نے کہا کہ ’’ وہ بہت نیچ قسم کا شخص ہے جس میں کوئی تہذیب نہیں ہے‘‘۔ ان کے اس بیان کو سبھی نے غلط کہا مگر بی جے پی اور مودی نے تو اسکو ووٹ لینے کا ذریعہ بنا لیا اور فوراً ہی ایک پبلک میٹنگ میں کہہ دیا کہ منی شنکر نے انہیں ’نیچ ذات‘ کا کہا ہے کیونکہ وہ پچھڑے سماج میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ مودی کا جھوٹ تھا کیونکہ منی شنکر ائیر نے ان کی ذات یا خاندان کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔ کانگریس کے نئے صدر راہل گاندھی کچھ زیادہ اتاولے ہوگئے کہ انہوں نے ائیر کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سے ہی معطل کردیا۔ مودی کی ایک مرکزی وزیر نے دہلی الیکشن کے دوران کہا تھا کہ رام زادے، بی جے پی کو اور حرام زادے دوسری پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اتر پردیش سے لوک سبھا ممبر سچیدانند ساکچھی نے ایک نہیں درجنوں بار مسلمانوں کو کھلے عام گالیاں بکیں۔ ایک وزیر گری راج سنگھ اکثر زہر اگلتے رہتے ہیں۔ خود مودی مسلمانوں کے قتل عام کو کتے کے پلے موازنہ کرچکے ہیں۔ کرناٹک کا ان کا ایک لیڈر کھلے عام کہتا ہے کہ اسلام دہشت کا مذہب ہے دنیا میں اسلام کے رہتے دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں ان کی ہندو یووا واہنی کے ایک رکن نے کہا تھا کہ مسلم لڑکیوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کیا جائے گا۔ ہریانہ کا ایک وزیر انل وج ، میرٹھ کے سردھنا سے پارٹی کا ممبر اسمبلی سنگیت سوم جب منہ کھولتے ہیں تو زہر ہی اگلتے ہیں۔ نریندر مودی اور انکی پارٹی نے اس قسم کی گھٹیا اور نیچ بیان بازی کرنے والوں کے خلاف منی شنکر کی طرح معافی اور کاروائی تودور وارننگ تک نہیں دی۔ گجرات میں جس طرح کی سیاست اور انتخابی مہم دیکھنے میں آئی، اس میں ’’نیچ‘‘ لفظ تو بالکل فٹ ہوتا نظر آتا ہے۔ لکھنوکے ایک سینئر صحافی کلاندھی مشرا نے گوسوامی تلسی داس کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے ایک پوسٹ لکھی کہ ’نیچ شخص وہی ہوتا ہے جو احترام پانے کے بعد سب سے پہلے اسی شخص کو برباد کرتا ہے جس کی مدد سے بڑا بنتا ہے‘۔
تلسی داس کا یہ قول مودی پر کس حد تک فٹ بیٹھتا ہے اگر اسکے مربی لال کرشن اڈوانی کے ساتھ اسکے رشتوں اور گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں ہوئی اڈوانی کی حالت کو دیکھا جائے۔بطور وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے غیر ذمہ دارانہ سیاست کی حد تو کر دی تھی، مگر اب یہ امید تھی کہ وہ وزیر اعظم جیسے عہدہ کے وقار کے تحفظ کیلئے ایک مدبر اور بالغ نظر سیاستدان کا کردار ادا کریں گے۔ 2007 کے صوبائی انتخابات میں مودی نے ہر جلسے میں ’’میاں مشرف‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کرکے سابق پاکستانی صدر مشرف کے خلاف عوام کو لام بند کرکے ووٹ بٹورے۔ لگتا تھا کہ اس صوبہ میں مشرف انتخابات میں انکے حریف ہیں۔ اسی طرح 2012میں گجراتی سیاستدان اور سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو تختہ مشق بنایا۔ چونکہ احمد پٹیل صوبہ کے قد آور رہنماؤں میں گنے جاتے ہیں، مودی نے ہندو ووٹروں کو خوف دلایا کہ اگر وہ کانگریس کو ووٹ دیتے ہیں، تو احمد بھائی وزیر اعلیٰ بن جائیں گے۔
ایک سیکولر نظام میں اگر احمد بھائی وزیر اعلیٰ بنتے بھی ہیں، تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ مہاراشٹرہ میں عبد الرحمان انتولے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، آسام میں انورہ تیمور کانگریس حکومت کی سربراہ رہ چکی ہے، کیرالا میں سی ایچ محمد کویا کانگریس ۔مسلم لیگ مخلوط حکومت کی قیادت کر چکے ہیں۔ پچھلے دو انتخابات میں مودی نے مسلمانوں کو گالیاں دینے کے لئے نعرہ دیا تھا’’ ہم پانچ ہمارے پچیس‘‘۔ان کے کہنے کا مطلب صاف تھا کہ ایک مسلمان چار شادیاں کرتا ہے پھر پانچ مل کر پچیس بچے پیدا کرتے ہیں۔ اس بار تو وہ نیچے گرنے کی تمام حدیں اس وقت پار کر گئے جب انہوں نے یہ الزام لگایا کر کانگریسی لیڈران نے پاکستانی فوج کی مدد سے گجرات میں احمد پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنوانے کی سازش رچی ہے۔ وزیر اعظم کی سطح سے اتنی نیچ سیاست کی مثال شاید ہی دنیا میں مل سکتی ہو۔اتنا تو طے ہے کہ مودی او ران کی پارٹی نے گجرات الیکشن کو ترقی کے ایشو سے پوری طرح بھٹکا دیا ۔
Categories: فکر و نظر