برقع اور ٹوپی کو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتانے والوں کو اپنے تعصبات کے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے۔
ایسے وقت میں ہی یہ ممکن تھا کہ رام چندر گہا جیسے سنجیدہ اسکالر نے بر قع اور ٹوپی کا موازنہ ترشول سےکر دیا۔ کسی روایت کا موازنہ بھلےہی وہ کتنی ہی ترقی مخالف ہو،مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف چلائے جا رہے ایک فعال تشدد آمیز مہم سے کرنا بھلےہی بےایمانی نہ ہو، لیکن ظالمانہ ضرور ہے۔یہ موازنہ بدقسمتی ہے کیونکہ وہ یہ جانتے ہوںگے کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ کئی دیگر ممالک میں مسلم مخالفین کے ذریعے برقع پہننے والی خواتین سماج کے لئے خطرہ سمجھی جاتی ہیں اور اس لئے ان کو کئی بار بے عزتی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مجھے دکھ ہے کہ گہا ہرش مندیر کو صحیح سے نہیں سمجھ پائے، جب مندیر نے ہندوستانی مسلمانوں کے الگ تھلگ ہونے کی طرف اشارہ کیا۔ ہرش ایک معمولی سی بات کہہ رہے تھے کہ ہماری سیاسی تحریک، جن میں سے کچھ ترقی پذیر مدعوں کی حمایت بھی کرتے ہیں، کے ذریعے مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ ان کی ‘ مسلم شناخت ‘ کے ساتھ ان کے لئے ملک کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اب تو کانگریس بھی ان سے دوری بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔اس سیکولر فکر کو سمجھنے کے لئے میں آپ کو تب کا قصّہ سناتا ہوں جب عام انتخابات کے وقت بنارس میں اروند کیجریوال اور نریندر مودی آمنے سامنے تھے۔ تب کیجریوال کی ریلیوں میں بڑی تعداد میں مسلم آیا کرتے تھے۔
تب عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سینئر رہنما جو سیکولراسکالر اور سمجھدار شخص ہیں، نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ مسلمانوں کا اس طرح کھلکر حمایت میں آنا ان کے لئے فکر کا سبب ہے کیونکہ اس سے ہندو ضرور پیچھے ہٹ جائیںگے۔گزشتہ سال دہلی کے ترلوک پوری میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے وقت جب ہم نے عآپ کی قیادت سے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو کہا تب ہمیں کہا گیا کہ انتخاب قریب ہے اور ایسے میں مسلمانوں کی طرف کھڑے دکھنا سمجھداری نہیں ہوگی۔ دادری کے اخلاق کے رشتہ داروں سے ملنے جانے پر راہل گاندھی کی ان کی پارٹی میں ہی تنقید ہوئی تھی۔کمیونسٹ کی جانب جھکاؤ رکھنے والے میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ لالو پرساد یادو کو راجیہ سبھا کے لئے ایک مسلم کے بجائے کسی بہت پس ماندہ ذات کے یا دلت امیدوار کو کھڑا کرنا چاہئے تھا۔ ان کے مطابق ایسا کر کے ان کی پارٹی ہندو ؤں کے حلقے میں بھی پیر جما سکتی تھی ۔
آج 16 سال گزر چکے ہیں لیکن سونیا گاندھی آج تک ذکیہ جعفری سے ملنے اور ہمدردی کرنے کی ہمت نہیں جٹا سکی ہیں۔ ذکیہ کانگریسی رہنما احسان جعفری کی بیوی ہیں جن کو 2002 کےگجرات تشدد میں مارکر جلا دیا گیا تھا۔حال ہی میں ہم راجسمند میں ایک اجلاس میں تھے جہاں ایک شخص نے ایک مسلم کو اس لئے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مار دیا کیونکہ اس کو لگتا تھا کہ مسلمان خطرہ ہے۔ وہاں مسلم مقرر بھی تھے لیکن وہ بھی اس مدعے سے بچتے رہے اور مقامی ہندو مقرر دوستی کی بات کر رہے تھے، اور تو اور ایک گاندھی وادی نے تو اس بات پر بھی زور دیا کہ اینٹی ڈرگس اور اینٹی الکوہل مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
ایک دوسرے دوست نے اسی جلسہ میں افرازل کے قتل کی گفتگو کے درمیان ایک اور خاتون (جو مسلم نہیں تھی) کے ساتھ ہوئے تشدد کا مدعا اٹھانا ضروری سمجھا۔ ایک مسلم کے قتل کو ہندوؤں کے ذریعے نوٹس کیا جا سکے اس کے لئے اس کو تشدد کے ایک بڑے دائرے میں رکھا جاتا ہے۔ صرف تبھی مارے گئے یا ستائے گئے مسلمان کو انسان سمجھا جاتا ہے۔
ہماری سیاسی اور عوامی تہذیب میں مسلمانوں کو لےکر اسی پس و پیش سے ہرش مندیر کو پریشانی ہے۔ یہ مسلمانوں کو پسِ پشت ڈال دینا اور اپنی دنیاوی فکر سیکولر ہندوؤں کو دینے کے لئے کہنا ہے۔ مسلمانوں نے اب تک یہی کیا ہے۔رام گہا کی شکایت ہے کہ کوئی سیکولر اور اعتدال پسند مسلم قیادت نہیں ہے۔ لیکن ملک کے مسلمانوں نے ہمیشہ سیکولر جماعتوں کو اپنی سیاسی حمایت دی ہے! بی جے پی کو چھوڑکر ملک کی تمام پارٹیوں کو کبھی نہ کبھی مسلمانوں کی حمایت ملی ہے۔یہاں لندن کے میئر صادق خان کا ذکر کرنا صحیح ہوگا۔ ہندوستان کے تناظر میں یہ تصور کر پانا بھی مشکل ہے کہ کوئی سیکولر پارٹی بنا ڈاڑھی، ٹوپی والے کسی مسلمان کو بھی ایک ہندو اکثریتی علاقے سے اپنا امیدوار بنائےگی۔ یہی بات دلت اور پچھڑوں پر بھی نافذ ہوتی ہے۔
کرپوری ٹھاکر ابتک پسماندہ ذاتوں کے رہنما ہیں۔ ”اپر کاسٹ” کبھی بھی کسی دلت یا پچھڑے کو اپنے رہنما کے طور پر نہیں قبول کرےگی۔ کیا دلت کبھی ‘نارمل’ ہو پائیںگے؟ کیا جگنیش میوانی کو ایک یونیورسل رہنما کے طور پر قبول کیا جائے گا؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ایک مسلمان کوئی پارٹی شروع کرتا ہے تو اس کو فوراً فرقہ وارانہ سمجھ لیا جاتا ہے؟جب ہم قیادت کی بات کرتے ہیں تب یہ صرف سیاست کے بارے میں نہیں چاہئے۔ ہمیں سوال کرنا چاہئے کہ میڈیا سمیت ایسے کتنے تعلیمی اور الگ ادارے ہیں جو کسی مسلم کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں؟ یہاں ان کی حالت دلتوں اور عورتوں جیسی ہے۔
میں گزشتہ 4 سالوں کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ کیا ہمارا مدعا یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنے تعلیم یافتہ اور مہذب مسلم نہیں ہیں جو وہاں پہنچنے کے قابل ہوں؟ وہیں دوسری طرف اکثر یہ شکایت سننے کو ملتی ہے کہ صرف مسلمانوں کو ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) اور جامعہ ملیہ کی ذمہ داری دی جاتی ہے! پڑھےلکھے ہندو چاہتے ہیں کہ مسلم اپنی مذہبی شناخت چھوڑکر ایک عام انسان بنیں۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ آر ایس ایس بھی چاہتا ہے کہ مسلم اپنی مسلم شناخت چھوڑدیں اور عام انسان بن جائیں۔ان کا ماڈرن نہ بننے کی عدم دلچسپی کو ان سے نفرت کرنے کی ایک وجہ کےطور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی المیہ ہی ہے کہ جہاں مسلمانوں کو جدید بننے کے لئے کہا جا رہا ہے وہیں ہندوؤں کو روایتوں سے جڑے رہنے کی نصیحت دی جا رہی ہے۔
رام چندر گہا نے نیاز فاروقی کی کتاب کی حمایت کی تھی۔ نیاز نے بتایا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے ایک ‘ عام ‘ انسان بننا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ہمیں یہ بھی جاننا ہوگا کہ کیسے پڑھے لکھے، جدید، ٹیک سیوی مسلمانوں کو لباس بدلے دہشت گرد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور یہ جاننے کے لئے ہمیں منیشا سیٹھی، کویتا شریواستو یا راجیو یادو سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔میں ایسے مسلمانوں سے ملتا رہتا ہوں جو صرف اس لئے دوسرا کوئی پیشہ چھوڑکر صحافت میں آنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے دوست مسلمانوں کی کہانیاں بتا سکیں۔
رام نے مسلمانوں کے درمیان اعتدال پسند قیادت کی غیرموجودگی پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ ایسی کمیونٹی جس نے غالب، حالی، نظیر اکبرآبادی، جعفر زٹّلی، قاضی نذر الاسلام، سر سید احمد خان، رقیہ سخاوت حسین، رشید جہاں، سجّاد ظہیر، احمد علی، عصمت چغتائی، منٹو اور دیگر نے اپنے ہندو دوستوں سے بہت پہلے جنسی موضوعات پر بات کرنا شروع کیا تھا اس سے اعتدال پسند قیادت بنانے کی بات کہی جا رہی ہے! اگر ہم شروعاتی کمیونسٹ تحریک کی بات کریں تو مسلم مردوں اور خواتین کے نام یکساں تعداد میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کیا ہم مسلمانوں کے بغیر موسیقی اور سینما کی دنیا کا تصور کر سکتے ہیں؟ کیوں ان کو لبرل اور رہنما نہیں مانا جا سکتا؟
کچھ سال پہلے بھی رام گہا نے اسی طرح کی فکر ظاہر کی تھی اور تب ایک ‘ لبرل ‘ ‘ ستائے گئے ‘ داؤدی بوہرا مسلم اصغر علی انجینئر نے ان کی اس دلیل پر ان کی غلطیاں بتاتے ہوئے جواب دیا تھا۔ کیا اصغر علی ایک لبرل مسلم رہنما تھے یا نہیں؟رام گہا نے ان کا ایک بھی بار حوالہ دینے کی ضرورت کیوں نہیں سمجھی؟ وہ اسی پرانی بحث کو کیوں دوہرا رہے ہیں؟ ساتھ ہی ترقی پسند مسلم کے طور پر ان کا صرف دو مسلمانوں کا نام لینا دکھاتا ہے کہ ہماری مین اسٹریم میڈیا کی طرح ان کی مسلم سماج کی سمجھ بھی محدود ہے۔ان سب کے علاوہ ہمیں اس بات پر بھی زور دینا ہوگا کہ ایک شہری کے حقوق اس کے ترقی پذیر یا لبرل ہونے پر منحصر نہیں ہونا چاہئے۔ کسی روایت پرست، متشدد ہندو، عیسائی یا مسلم کو وہی یکساں حق ملنا چاہئے جتنا کسی دہریہ، لبرل یا ترقی پسند کو۔
جمہوریت سبھی کو یکساں طورپر سیاسی حقوق دیتی ہے جس سے وہ برابری سے دوسروں کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ مسلم خواتین کو اپنی جمہوری پہچان بتانے کے لئے برقع ہٹانے کی ضرورت نہیں ہےبلکہ اس طرح کے مضمون لکھنے والوں کو اپنے تعصبات کے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں،اوریہ مضمون اختصار کے ساتھ انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا تھا۔)