سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف Impeachment لایا گیا تو ایسا ماحول بنا جیسے ایسا کرنے سے عوام کا انصاف سے اعتماد اٹھ جائےگا اور جمہوریت خطرے میں پڑ جائےگی۔
عام طور پر عدلیہ اور میڈیا، مجلس عاملہ اور حکومت پر نظر رکھتی ہے ؛ جس سے وہ بے لگام نہ ہو۔ اس کا الٹا ہونا جمہوریت کے لئے مہلک ہوتا ہے۔ لیکن تب کیا کریں جب عدلیہ کے اندر سے ہی یہ آواز اٹھے کہ ان کے مکھیا حکومت کے دباؤ میں کام کر رہے ہیں ؛ جب عدلیہ، میڈیا اور حکومت مل جائیںگے تو پھر ایک دوسرے پر نظر کون رکھےگا؟چیف جسٹس کو برطرف کرنے کی تجویز کو لےکر اس وقت ملک میں حزب اقتدار، میڈیا کاایک طبقہ اور کچھ روشن خیال وکیل نے ملک میں ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے، جیسے چیف جسٹس ہر برائی، تنقید اور جائزے سے پرے ہے۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں کس کا فائدہ ہے؟
جمہوریت میں ایڈمنسٹریشن کے کسی بھی حصے کو تنقید اور کارروائی سے دور ماننا خطرناک روایت ہے اور خاص کر حزب اقتدار جب کسی ادارے پر لگے الزامات کے حق میں مورچہ سنبھالے۔اگر ایسا ہوگا تو ایک شخص سب سے طاقتور ہو جائےگا ؛ تب جمہوریت نہیں رہےگی، بلکہ مونارکی ہو جائےگی۔ اور جیسا کہ 19ویں صدی کی ایک مشہور انگریزی کہاوت ہے، ‘ اقتدار بدعنوانی کرتا ہے اور مکمل اقتدار پوری طرح بدعنوانی کرتا ہے ؛
Power tends to corrupt، and absolute power corrupts absolutely. Great men are almost always bad men.
آزادی کے 71ویں سال میں آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہمارے جج کورٹ سے باہر عوام کے دربار میں انصاف مانگنے آ گئے ہیں۔ ایسے میں جب ملک کی سب سے بڑی عدالت پر اس کے ہی چار سینئر جج اپنے ہی کورٹ کے چیف جسٹس پر حکومت کے اشارے پر کام کرنے کا الزام لگاکر عوام سے جمہوریت بچانے کی اپیل کریں تو قاعدے سے عوام، وکیلوں اور حزب مخالف جماعتوں کو سڑک پر آکر انقلاب برپاکر دینا چاہئے۔ہم پاکستان کو کتنا بھی طالبانی کہیں لیکن جب، 2007 میں وہاں کے سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو جنرل پرویز مشرف نے برخاست کر کے عدالت میں دخل دیا تو سپریم کورٹ کے ججوں اور وکیلوں نے ‘ عدلیہ بچاؤ تحریک ‘ کے نام سے آندولن چھیڑ دیا تھا۔
وہاں کی میڈیا نے پورا ساتھ دیا اور سینکڑوں وکیل اور لاکھوں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر اتر آئے۔ یہ تحریک دو سال تک چلی تھی۔ آخر میں برخاست ججوں کو جب ازسرنوبحال کیا گیا تب تحریک ختم ہوئی۔لیکن، ہندوستان میں ان چار ججوں کی آواز پر ہندوستان کی سول سوسائٹی اور سیاسی جماعت سوئے رہے۔ میڈیا اور سپریم کورٹ کے روشن خیال وکیل عدلیہ میں دخل نہ دینے کی سفارش کا راگ الاپتے رہے۔ایسا ماحول بنا دیا گیا جیسے یہ صرف ججوں اور سپریم کورٹ کی بار کے اپنے گھر کا معاملہ ہو۔ اتناہی نہیں میڈیا نے ان کو باغی جج قرار دے دیا ؛ جبکہ دوسرے کسی ادارے کا کوئی اندرونی شخص ادارے کی سچائی عوام کے سامنے لاتا ہے تو اکثر میڈیا اور عدلیہ اس کی عزت کرتی ہیں۔
خاص کر تب جب سپریم کورٹ کے چار سینئر جج چیف جسٹس پر کھلےعام بنچ فکسنگ کا الزام لگا چکے تھے، تب تو ان کو ویزل بلوئر مانکر چیف جسٹس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے تھی۔ایسا نہیں ہے یہ آواز پہلی بار اٹھی ہے ؛ فرق صرف اتنا ہے، پچھلے سابق چیف جسٹس جسٹس جے ایس کھیہر نے خود حکومت کے ذریعے عدلیہ میں تقرری کو لےکر دخل پر کئی بار عوامی طور پر بولا تھا۔ لیکن موجودہ چیف جسٹس حکومت کے دخل کو لےکر نہ صرف خاموش ہیں ؛ بلکہ ان پر ہی اس میں شامل ہونے کا الزام ہے۔
اب، ذرا Impeachment کی تجویز کو دیکھئے۔ کانگریس اور اس کے ساتھ دوسرے6 حزب مخالف جماعتوں کی طرف سے ہندوستان کے چیف جسٹس کے خلاف Impeachment لانے کا قدم سیاسی ہو سکتا ہے ؛ اسی طرز پر باقی حزب اختلاف کی جماعتوں اور حکمراں جماعت بی جے پی کی اس پر مخالفت کرنا بھی ایک سیاسی قدم مانا جائےگا۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کا کام عوام کے مدعوں پر سیاست کرنا ہوتا ہے اس میں غلط کیا ہے؟ اس معاملے میں حکمراں جماعت کی چیف جسٹس کے حق میں سفارش کرنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے اور اس سے تو چاروں ججوں کے الزام اور پختہ ہوجاتے ہیں۔
لیکن حزب مخالف جماعتوں اور کانگریس کے دوسرے اہم لوگوں کی اس معاملے میں مخالفت سمجھ سے پرے ہے۔ اتناہی نہیں، اس میں حد تو بیجو جنتا دل نے کر دی۔ ابھی تک ہم رہنماؤں اور باہو بلیوں کے معاملے میں ذات پات دیکھتے تھے، لیکن انہوں نے تو چیف جسٹس کے عہدے کوبھی علاقائیت کی بھینٹ چڑھا دی! جبکہ سچائی یہ ہے کہ چیف جسٹس پر لگے کئی الزام تو کانگریس کے Impeachment میں ہے ہی نہیں۔ بار اینڈ بنچ ویب سائٹ پر سزرس وائف، رڈکس نام کے اپنے کالم میں ہرپریت سنگھ گیانی نے اس بارے میں تفصیل سے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ میں حالات کتنے برے ہیں۔
12 جنوری سے اٹھے اس سوال کو دبانے کی کوشش اقتدار میں مفاد رکھنے والا میڈیا، قانون ساز اور دانشوروں کا ایک گروہ لگاتار کر رہا ہے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ جو سپریم کورٹ عوام کے مفادات کی حفاظت کے لئے عوام کے بھرےہوئے ٹیکس (یہاں ٹیکس سے مطلب صرف آمدنی محصول سے نہیں ہے ؛ کیونکہ، حکومت کی اصل آمدنی عوام کے ذریعے خریدی گئی چیزوں پر ملنے والے محصول سے ہوتی ہے، آمدنی محصول سے نہیں) سے چلتی ہے۔سپریم کورٹ کے کچھ سینئر وکیل اور قانون سازوں کے ذریعے اس کو اندرونی معاملہ بتاکر مثبت تنقید کی ساری آوازوں کو دبانا غلط ہے۔ سپریم کورٹ میں گڑبڑی کے ہر مدعے سے ملک کے ہر شہری کا لینادینا ہے اور سیاسی جماعتوں کا بھی اتنا ہی لینادینا ہے۔
لیکن اس معاملے پر دیر آید درست آید کی طرز پر جب کانگریس سمیت 6 حزب مخالف جماعتوں نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف Impeachment لایا تو ایسا ماحول بنایا گیا جیسے کسی نے بھگوان، اللہ یا گاڈ کے وجود پر سوال اٹھا دئے ہو! ایسا ڈرایا جا رہا ہے جیسے ایسا کرنے سے عوام کا انصاف سے اعتماد اٹھ جائےگا اور ملک کی جمہوریت خطرے میں پڑ جائےگی۔اس معاملے میں خاص طور پر مشہور قانون ساز فلی نریمن کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وہ بہت ہی جانے مانے ماہر آئین ہیں۔ لیکن انصاف کی غیر جانبداری کا تقاضہ یہ کہتا ہے کہ ان کو اس مدعے پر اپنی رائے نہیں رکھنی تھی۔
ایسا اس لئے کیونکہ ایک تو فی الحال ان کے بیٹے روہنٹن نریمن سپریم کورٹ میں جج ہے۔ دوسرا سزرس وائف، رڈکس نام کے کالم میں فلی نریمن کی سوانح عمری کے ذریعے سے بتایا گیا ہے کہ 1975 میں ماسٹر آف روسٹر کے تحت چیف جسٹس کے ذریعے چنندہ ججوں کو معاملے دئے جانے کے وہ اس حد تک خلاف تھے کہ انہوں نے سابق اٹارنی جنرل سی کے دفتری کو اس کے لئے تیار کیا تھا کہ وہ ان کے لئے اس وقت کے چیف جسٹس سے بات کرے۔فلی نریمن یہ دیکھ کر خوش ہوئے کہ چیف جسٹس نے اپنے چنندہ لوگوں کی بنچ نہیں بنائی تھی ؛ پانچ سینئرججوں کی بنچ بنائی۔ تو پھر اب اس معاملے میں وہ چیف جسٹس کا بچاؤ کیوں کر رہے ہیں؟
خیر وہ تو شرافت اور روایت کے خلاف اپنے بیٹے کی کورٹ میں سفارش بھی کر چکے ہیں اور اس مدعے پر اپنے رشتہ دار کی کورٹ میں سفارش نہ کرنے کی بحث 2014 میں اٹھ چکی ہے۔ وہیں جب جسٹس وی آر کرشنا ایر سپریم کورٹ کے جج بنے تو ان کے وکیل بیٹے نے طے کیا کہ وہ ملک کے کسی بھی کورٹ میں سفارش نہیں کریںگے اور انہوں نے وکالت چھوڑ کر اور کہیں نوکری کر لی۔اصل میں جو لوگ سپریم کورٹ میں اپنے تجارتی یا کہیں پروفیشنل مفاد رکھتے ہیں ان کو اس مدعے پر خاموش ہی رہنا چاہئے۔ کیونکہ جن قانون سازوں کی سپریم کورٹ میں کروڑوں روپےسال کی پریکٹس ہے، وہ آج اس مدعے پر بولتے ہیں تو ان پر ایسے الزام لگ سکتے ہیں کہ ان کو اپنے تجارتی مفاد کے چلتے فکر ہو رہی ہے۔ جیسے مندر کے پجاری کے بدنام ہونے پر وہاں بیٹھنے والے دکاندار کو اپنے دھندے کی فکر ہو جاتی ہے ؛ اس لئے، وہ اس کے حق میں بولتا ہے۔
ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی کو خطرہ کس سے ہے؟ حزب اختلاف کی Impeachment تجویز سے یا حزب اقتدار میں عدلیہ کے دخل سے؟ حکومت ملک کی آئینی عدالتوں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو غیر فعال بنانے میں لگی ہے ؛ وہاں لمبے وقت سے ججوں کی تقرری نہیں ہو رہی ہے۔سابق چیف جسٹس جسٹس ٹی ایس ٹھاکر تو اس موضوع میں عوامی طور سے بولتے ہوئے رو پڑے تھے ؛ ان کو بھی اپنے دور میں کئی بار اس بارے میں عوامی طور پر بولنا پڑا تھا۔بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی اس بات کو نہ تو میڈیا نے سنجیدگی سے لیا اور نہ سول سوسائٹی نے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں نے۔ حالت یہ ہے کہ اب وہ پھنسی ناسور بن گئی ہے۔ ملک کی کئی ہائی کورٹ عارضی چیف جسٹسوں کے بھروسے چل رہی ہیں۔
ججوں کی کمی کی وجہ سے یہاں تمام معاملے لٹکے ہوئے ہیں ؛ اس کو لےکر کلکتہ ہائی کورٹ بار کی پچھلے کئی مہینوں سے ہڑتال جاری تھی ؛ سنا ہے اب حکومت وہاں پانچ ججوں کی تقرری کرنے جا رہی ہے۔بہر حال یہ خاموشی اس حد تک مہلک ہو گئی کہ سپریم کورٹ کے چار سینئر جج آگے آکر سپریم کورٹ میں حکومت کے دخل اور بنچ فکسنگ کو لےکر عوامی طور پر بولنے کو مجبور ہوئے۔
جمہوریت، پالیسی، انصاف اور عہدے کے وقار کا تقاضہ تو یہ کہتا ہے کہ ان الزامات کی تفتیش ہونے تک چیف جسٹس کو خود اپنے آپ کو اس سے الگ کر لینا تھا اور حکومت کو بھی ان کا بچاؤ کرنے سے بچنا تھا۔مجھے نہیں معلوم جس رام کو حزب اقتدار اپنا آدرش پرش مانتا ہے انہوں نے تو شہر کے دھوبی کے الزامات پر اپنی بیوی تک کو اگنی پریکشا کے لئے مجبور کر دیا تھا (حالانکہ میں ذاتی طور پر اس سے اتفاق نہیں رکھتا ؛ اس کو پرش وادی سوچ مانتا ہوں)۔ وہ نہ صرف چیف جسٹس کا بچاؤ کر رہا ہے بلکہ ان سے رام مندر معاملے میں اپنی سوچکے حق میں فیصلے کی امید کر رہا ہے! ویسے، اس طرح کی توقع کئی طرح کے خدشات کو جنم دیتی ہے۔
ویسے تو حزب اقتدار ہونے کے ناطے ان کی جوابدہی تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں کے الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے خود ہی چیف جسٹس کے خلاف Impeachment لاتے۔ آئین میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو اپنے عہدے سے ہٹانے کے لئے جو انتظام ہے اس کے لئے پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔اس سے صاف ہے کہ آئین ساز یہ مانکر چل رہے تھے کہ جب کوئی جج اپنی جوابدہی ایمانداری سے نہیں نبھائےگا تب ان کو ہٹانے کے عمل میں حزب اقتدار کا اہم رول ہوگا۔ لیکن اس میں صرف حزب اقتدار اپنے مطابق اسے نہ اچھے لگنے والے جج کو نہ ہٹا پائے ؛ ان کو حزب اختلاف کو بھی اپنے ساتھ لینا پڑے اس لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت رکھی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں زیادہ سے زیادہ معاملے شہری بنام حکومت کے ہوتے ہیں۔ اس لئے عدلیہ سے اس کے حق میں فیصلے کی توقع اور اس کے لئے کوشش اس دور کا حزب اقتدار کرتا ہے ؛ اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔پھر وہ کانگریس ہو یا بی جے پی، فرق صرف یہ ہے کہ اس بارحزب اقتدار کا دخل اس حد تک پہنچ گیا کہ سپریم کورٹ کے چار سینئرججوں کو سانس لینا مشکل ہو گیا۔ ان کو ناامید ہوکر جمہوریت بچانے کے لئے عوام کے سامنے آنا پڑا۔ اس لئے Impeachment کو لےکر کانگریس پر یہ الزام لگانا کہ وہ اپنے مطابق فیصلے کروانے کے لئے یہ دباؤ بنا رہی ہے غلط ہے۔
ہماری جمہوریت کے تین اہم ستون ہیں؛ قانون، حکومت اور عدلیہ۔ یہ تینوں ایڈمنسٹریشن کا حصہ ہیں اور چوتھا ستون ہے میڈیا۔ یہ سچ ہے کہ عام طور پر عدلیہ ہی مقننہ اور مجلس عاملہ پر کچھ حد تک نظر اور قابو رکھتی ہے۔ان کے خلاف عوام ان کے پاس قانون اور آئین کے دائرے میں عرضی دائر کر کے راحت پا سکتے ہیں اور میڈیا اپنی طرح سے ان تینوں کے طریقہ کار پر نظر رکھتا ہے۔ یہ بات تب اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے جب جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا بھی اس پر خاموشی اختیار کر لے ؛ یا یوں کہیں کہ ساتھ میں ہو لے، تب مٹھی بھر ہی صحیح لیکن اس سازش کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔
(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد کے نیشنل ایگزیکٹو کے ممبر ہیں اور مدھیہ پردیش کے بیتول شہر میں رہتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر