عوام کو سماجی تحفظ فراہم کرانے کے علاوہ جس چیز نے ڈنمارک کو بدعنوانی سے پاک رکھا ہے وہ سیاست دانوں کی سادہ زندگی ہے۔
جہاں پاکستان میں انتخابی مہم عروج پر پہنچ رہی ہے، وہیں ہندوستان میں بھی شاید وزیر اعظم نریندر مودی اگلے سال مئی کا انتظار کرنے کے بجائے قبل از وقت انتخابات کا بغل بجائیں گے۔ ان کے حواریوں کے حوالے سے جو خبریں چھن چھن کر آرہی ہیں، ان کے مطابق پارٹی اور اتحادیوں کو انتخابات کی تیاری کا حکم دیا گیا ہے۔
ہندوستان میں مڈل کلاس جو حکمرا ن بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ریڑھ کی حثیت رکھتا تھا، معیشت کی ابتری اور نوٹ بندی کی وجہ سے مودی سے خاصا ناراض ہے۔ اس سے پہلے یہ طبقہ کسی متبادل کو تلاش کرے اور یہ ناراضگی دیگر طبقوں کو بھی حلقہ میں لے، ووٹروں کو رجھانے کیلئے مسلمانوں اور پاکستان کا خیالی خطرہ پیدا کرکے دوبارہ ووٹ بٹورنے کے سامان مہیا کروائے جا رہے ہیں۔
نیز اب ایک بار پھر بدعنوانی سے پاک اور صاف شفاف انتظامیہ کے خواب دکھائے جارہے ہیں، جس کے بل پر 4سال قبل مودی اقتدار میں آئے تھے ۔ہندوستان اور پاکستان میں انتخابات کے مواقع پر سیاستدان اکثر کرپشن سے پاک انتظامیہ کیلئے ڈنمارک کی مثالیں دیتے ہیں۔ مگر ہر پانچ سال بعد یہ دونوں ممالک ڈنمارک کی پیروی کرنے کے بجائے کرپشن کی دلدل میں مزید دھنس جاتے ہیں۔
35ترقی یافتہ ملکوں کی تنظیم آرگنائزیشن آف اکانومک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (OCED)نے ڈنمار ک کو دنیا کا سب سے زیادہ راحت افزا ملک بھی قرار دیا ہے۔ ہر سال ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ ملک بدعنوانی سے پاک ملکوں کی فہرست میں اول نمبر پر آتا ہے۔ دوسری طرف جہاں تک ہندوستان اور پاکستان کا معاملہ ہے تو 178ملکوں کی اس فہرست میں ہندوستان 81 ویں اور پاکستان 117 ویں نمبر پر ہے۔
6 سال قبل ڈنمارک کے دورے کے دوران مجھے یہ جاننے کا بے حد اشتیاق تھا کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جس نے اس ملک کو بدعنوانیوں سے پاک اور سب سے راحت افزا ملک کا درجہ دلایا ہے۔ ڈنمارک میں شہریوں کی خوشی اور بدعنوانی سے پاک سماج کے درمیان واضح طور پر ایک گہرا ربط دکھائی دیتا ہے۔یہ ملک ایک طرف تو انتہائی مطمئن شہریوں کی فہرست میں اول ہے دوسری طرف انسداد بدعنوانی انڈکس میں اسے 10میں سے 9.3 مارکس ملے ہیں اور اس میں بھی یہ سر فہرست ہے۔
میرے ذہن میں بار بار یہی سوالات اٹھ رہے تھے کہ آخر ڈنمارک نے یہ امتیاز کس طرح حاصل کیا ؟اس ملک نے بدعنوانیوں سے پاک رہنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ ڈنمارک کے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں سے میں نے اس سلسلے میں بات کی جنہوں نے مجھے بتایا کہ یہ چیز یہاں کے رگ و پے میں بسی ہوئی ہے۔ بتایا گیا کہ سیاست دانوں کی اعتدال پسند طرز زندگی ‘ لوک پال یعنی محتسب کی موجودگی او رایک آزاد میڈیا بھی اس کی وجہ ہے۔
مگر یہ جوابات مجھے قائل نہیں کر سکے۔ اسی دوران دو ایسے واقعات پیش آئے جن سے مجھے اس سوال کے تشفی بخش جواب مل گئے۔ دس دن کے دورے کا آخری ڈنر ڈینش انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن رائٹس میں طے تھا۔ اس انسٹی ٹیوٹ کے ایک سرکردہ رکن ایک پاکستانی نژاد پروفیسر بھی اس ڈنر میں شامل تھے جو کوپن ہیگن یونیورسٹی سے درس و تدریس کی ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہوچکے تھے۔
میں نے جب ان سے یہ سوال کیا تو کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ حتمی جواب شاید وہ بھی نہیں دے پائیں گے، مگر بتایا کہ وہ اپنا ایک واقعہ گوش گذار کریں گے ، شاید اس میں جواب مل جائے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ ڈنمارک وارد ہوئے اور انہیں یونیورسٹی میں نوکری ملی، تو تنخواہ ملنے کے دن وہ خاصے افسردہ اور ذہنی دباؤکے شکار ہوجاتے تھے، کیونکہ ہر ماہ تنخواہ سے تقریباً25تا30فیصد ٹیکس کی مد میں کٹ جاتا تھا۔
محنت کی کمائی کے اس طرح ضائع ہونے کا قلق رہتا تھا۔ اسی دوران آفس میں ہی ایک دن وہ ہارٹ اٹیک کا شکار ہوگئے۔ فوراً ایمبولینس بلائی گئی اور ایک صاف اور ستھرے اسپتال میں ان کو بھرتی کیا گیا۔ شفٹوں میں ہمہ وقت نرسیں خدمت پر مامور تھیں۔ پانچ ستارہ ہوٹل کی طرح اسپتال میں ہر روز اخبار اور تفریح کے لیے ٹی وی حاضر تھا۔
ڈھائی ماہ اسپتال میں رہنے کے دوران صرف ویک اینڈ پر اہل خانہ عیادت کیلئے آکر پورا دن ساتھ گذارتے تھے ۔ اسی دوران لاتعداد ٹسٹ، آپریشن اور اسٹنٹ وغیرہ ڈالے گئے۔ جب پروفیسر صاحب کام کرنے کے لائق ہوگئے تو ایک گاڑی میں بٹھا کر ان کو گھر چھوڑ ا گیا اور بس چند کاغذوں پر دستخط لئے گئے۔ ان کے بقول ایک بھی پیسہ ان سے وصول نہیں کیا گیا۔
جب کہ پاکستان میں کوئی بھی اسپتال چا ر یا پانچ لاکھ سے کم کا بل چارج نہیں کرتا ۔ اس کے علاوہ اہل خانہ کی پریشانی اور ایک ہمہ وقت تیماردار کی ضرورت الگ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دن وہ سوچنے لگے ، کہ ان کے بچے ایک سرکاری اسکول میں مفت میں زیر تعلیم ہیں۔ ریٹائرمنٹ اور ضعیف العمری میں وہ سوشل سکیوریٹی کے حق دار ہوں گے، تو ٹیکس ادائیگی پر افسردہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔
جب یہ معلوم ہے کہ اس کا مصرف ان کی بہبودی پر ہی کیا جائےگا۔ ہیلے تھورنگ شمٹ ان دنوں ڈنمارک کی وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔اپنے دفتر پہنچنے سے قبل وہ اپنے دو نوں بچوں کو خود ہی اسکول پہونچاتی تھی۔ان کے بچے بھی اسی عام سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے جہاں دوسرے عام شہریوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے تھے۔اس ملک میں پبلک اسکولوں کا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ ایک یونیورسل ایجوکیشن سسٹم قائم ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اس حد تک اسٹیٹ رعایا کا خیال رکھتی ہو ،تو کوئی ٹیکس چوری یا کرپشن کرے تو کیوں کرے۔
دوسرا واقعہ ڈنمارک پارلیامنٹ کے اسپیکر موجینس لائکے ٹافٹ سے ملاقات کے دوران پیش آیا۔ لائکے ٹافٹ اس سے پہلے وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کا عہدہ بھی سنبھال چکے ہیں اور ملک کے سینئر ترین سیاستدان تھے۔بھارتی صحافیوں کے ایک تین رکنی وفد کے ممبرکی حثیت سے اور مقامی میزبانوں کے ہمراہ جب ہم ان کے کمرہ میں داخل ہوئے ، تو ہمیں خوش آمدید کرتے ہوئے انہوں نے ایک لمبی میز کے گر د بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
خود ایک ہوٹل کے بیرے کی طرح ایک ایک کرکے مہمانوں کے پاس آکر ناشتہ پانی کیلئے پوچھنے لگے۔ کسی نے چائے، کسی نے کافی یا کولڈ ڈرنک پینے پر رضامندی ظاہر کی ۔یہ معمر سیاستدان ایک پیڈ پر یہ نوٹ کر رہا تھا۔ پھر کمرے کے ایک کونے میں جاکر چائے اور کافی بنائی، ریفریجریٹر سے کولڈ ڈرنک اور ایک الماری سے بسکٹ کے پیکٹ نکال کر ان کو ایک پلیٹ میں رکھ کر سب کو سرو کیا۔ اور یہ سب کام کرکرنے کے بعد کرسی پر بیٹھ کر ہم سے ہم کلام ہوئے۔
انہوں نے ماتحت عملہ کو آواز دی نہ ہی گھنٹی بجائی۔ حتیٰ کہ ا ن کے کمرہ میں انٹرنشپ کرنے والے چند طالب علم بھی موجود تھے ان کو بھی چائے اورکافی انہوں نے خو د ہی سرو کی۔ وہ بھی ہمارے ساتھ گفتگومیں شامل تھے اور نوٹس لینے کا کام ان کو سپرد کیا گیا تھا۔معلوم ہوا کہ کہ معمر اسپیکر صاحب روزانہ دس کلومیٹر کی مسافت سائیکل کے ذریعہ طے کرکے اپنے دفتر پہونچتے ہیں۔
ان سے بھی میں نے سوال کیا تھا کہ ان کا ملک بد عنوانی سے کیسے پاک ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ان کے سیاسی نظام میں بد عنوانی کی گنجائش نہیں ہے۔ مثال کے طور پر انتخابی مہم چلانے کے لئے سیاسی پارٹیوں کو قومی خزانے سے رقم دی جاتی ہے۔ لائکے ٹافٹ نے بتایا کہ ’’اس کا طریقہ کاریہ ہے کہ سابقہ الیکشن میں جو پارٹی قومی او رعلاقائی سطح پر جتنا ووٹ حاصل کرتی ہے اسی کے حساب سے اسے پیسے دئے جاتے ہیں۔ میری پارٹی سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی (ایس ڈی پی) کو ہر ووٹر کے بدلے 10 کرون (100ہندوستانی روپے) کے حساب سے20 ملین ڈینش کرون ملے تھے‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ 2011 کے الیکشن میں انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب پر20000 ڈالر خرچ کئے تھے لیکن انہیں اپنی جیب سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینی پڑی۔کیوں کہ یہ پیسے یا تو پارٹی نے دئے تھے یا پھر سرکار ی فنڈ سے ملے تھے۔ انہو ں نے کہا کہ ہمارا انتخابی مہم بھی بہت مختصر‘ یعنی تقریباََ تین ہفتے کا ہوتا ہے ‘ جس کی وجہ سے بھی اخراجات کم ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بدعنوانی میں ذرا سا بھی ملوث پائے جانے والوں کے خلاف صرف سرکاری کارروائی ہی نہیں ہوتی بلکہ انہیں عوامی سطح پر بھی سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جہاز رانی کے اس وقت کے وزیر بڑی مصیبت میں پھنس گئے تھے جب معلوم ہوا کہ ڈنمارک کی ایک مشہورکارگو کمپنی کے ایک بڑے شپنگ پروجیکٹ کا افتتاح کرنے کے بعدانہوں نے کمپنی کی طرف سے تحفتاََ پیش کی گئی قیمتی کلائی گھڑی قبول کرلی تھی۔ میڈیا نے اس معاملے پر ان کا ناطقہ بند کردیا جس کے بعد انہیں معذرت کرنی پڑی۔ایسے ہرمعاملے کو جس میں بدعنوانی کا کوئی شائبہ پیدا ہوتا ہو میڈیاپوری شدت سے اٹھاتا ہے۔میڈیا کی اسی سرگرمی کی وجہ سے کئی سیاست دانوں کو فٹ با ل میچ کے مفت میں موصول ہونے والے ٹکٹ واپس کرنے پڑ گئے تھے۔
لائکے ٹافٹ نے بتایا کہ 250ڈینش کرون (تقریباََ2500روپے)کی مالیت سے زیادہ کا کوئی بھی تحفہ یہاں ٹیکس قانون کے تحت آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 80 کی دہائی میں ملک کی ایک وزیر خارجہ کو صرف اس لئے اپنے عہدہ سے استعفی دینا پڑ گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں قیام کے دوران لندن کے سات ستارہ رٹز ہوٹل کا کمرہ بک کرالیا تھا جس کا کرایہ کوئی ایک ہزارڈالر تھا۔’’
حالانکہ وہ یہ رقم اپنی جیب سے ادا کرنے کے لئے تیار تھیں لیکن عوام نے ان کی اس پیش کش کوقبول کرنے سے انکار کردیاکیوں کہ ڈنمارک کے شہریوں کا خیال ہے کہ ان کا ملک کسی بھی سیاست داں کی ایسی فضول خرچی کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے، چاہے وہ اپنی جیب سے ہی کیوں نہ ادا کرے۔
کوپن ہیگن کی ترک نزاد میئر آئفر بیکل کا کہنا تھا کہ یہاں کا انتظامی ڈھانچہ ایسا ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کے لئے سرکاری حکام پر بہت کم انحصارکرتے ہیں۔ غالباََ اس سے بھی ملک کو بدعنوانی سے پاک رکھنے میں مدد ملی ہے۔لیکن ان کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کے خلاف عملی جنگ کا پرچم خود سیاست دانوں نے ہی بلند کیا ہے اور اس معاملے میں وہ عوام کے رول ماڈل ہیں۔جبکہ بدعنوانی سے جنگ میں عوام بھی پوری طرح ساتھ دیتے ہیں اور اطلاعات کی فراہمی میں پوری طرح شفافیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے نائب صدر کنت گاٹ فریڈسن نے بدعنوانی پر قابو پانے میں ڈنمارک کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ ڈنمارک میں قومی آڈیٹر (محتسب) یا لوک آیکت کافی مضبوط ہے۔ ان کا انتخاب پارلیامنٹ کے ذریعہ ہوتا ہے اور ان کی ملک کے سول اور فوجی انتظامیہ پر گہری نگاہ رہتی ہے۔ ملک کی وزیر خارجہ ولی سوونڈل ڈنمارک کے ایک دورافتادہ صوبہ جوٹلینڈ کی مکین تھی اور کوپن ہیگن میں ان کا اپنا کوئی مکان تک نہیں تھا۔وہ دارالحکومت کے نواحی علاقے میں دو کمرے کے کرائے کے ایک مکان میں رہتی تھی اور اپنا دفتر پہونچنے کے لئے عام طور پر سرکاری ٹرانسپورٹ کا سہارا لیتی تھی۔
عوام کو سوشل سکیورٹی فراہم کرانے کے علاوہ جس چیز نے ڈنمارک کو میری تحقیق کے مطابق بدعنوانی سے پاک رکھا ہے وہ سیاست دانوں کی سادہ زندگی ہے۔وہ سادگی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ یہی سیاست داں بیورو کریسی ‘ کارپویٹ اور ملک کے عوام کے لئے رول ماڈل بن جاتے ہیں۔ غالباََ یہی وہ بات ہے جس کی نصیحت موہن داس کرم چند یعنی مہاتما گاندھی نے 1937میں اس وقت کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ کو کی تھی جب انہوں نے مختلف صوبوں میں عہدے سنبھالے تھے۔
گاندھی جی نے انہیں تحریر کردہ اپنے خط میں لکھا تھا ’’…. کانگریسیوں کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ سادگی ان کی ہی اجارہ داری ہے ‘ جس کا مظاہرہ وہ 1920 سے کھادی کے کرتے اور دھوتی کی صورت میں کررہے ہیں۔میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں رام اور کرشن کو مثال کے طور پر اس لئے پیش نہیں کرسکتا کہ یہ ماقبل تاریخ نام ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہارانا پرتاپ اور شیواجی انتہائی سادہ زندگی گذارتے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کیا طرز عمل اپنایا۔
البتہ پیغمبراسلام‘ حضرت ابوبکر اور عمر کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کی جفاکشی اور سادہ زندگی گذاری اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔حضرت عمر نے اپنے گورنروں کو بھی موٹا کپڑا پہننے اور موٹا آٹا کھانے کی ہدایت دی تھی۔اگر کانگریسی وزرابھی اسی سادگی اور کفایت شعاری کو برقرار رکھیں گے جس پر وہ1920 سے گامزن ہیں تو اس سے ہزاروں روپے بچیں گے‘ جس سے غریبوں کی امیدیں روشن ہوسکتی ہیں اور خدمات کے آہنگ میں تبدیلی آسکتی ہے۔
میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب پھٹے حالی ہر گز نہیں ہے ۔سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والے بخوبی دیکھ سکتا ہے۔ پاک صاف اور باوقاررہنے کے لئے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ دکھاوا او رنمائش بالعموم فحاشی کے مترادف ہوتے ہیں۔‘‘
ایسا محسوس ہوتا ہے گاندھی جی کی ان نصیحتوں کو ڈنمارک کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن مہاتما گاندھی کے پیروکار نیز آخری رسول کو ماننے والو نے ان تعلیمات کو بہت پہلے ہی بھلا دیا ہے ‘ جس کا انجام آج عوام کو بدحالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخا بی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں امرا (Oligarchy)کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا، اس نے ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں لوٹا ہے۔
Categories: فکر و نظر