مدیران کا کام اقتدار کے لحاظ سےمواد کو بنائے رکھنے کا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ اقتدار کے موافق تشہیر کی ایک ہوڑ مچی ہوئی ہے۔ آہستہ آہستہ حالات یہ بھی ہو چلے ہیں کہ اشتہار سے زیادہ تعریف نیوز رپورٹ میں دکھائی دے جاتی ہے۔
کیا واقعی ہندوستانی میڈیا کو جھکنے کو کہا گیا تو وہ رینگنے لگا ہے؟ کیا واقعی ہندوستانی میڈیا کی قیمت محض 30 سے 35 ہزار کروڑ کی کمائی سے جڑی ہے؟ کیا واقعی میڈیا پر نکیل کسنے کے لئے بزنس کرو یا دھندہ بند کر دو، والی حالت آ چکی ہے؟جو بھی ہو پر ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے سے پہلے آپ کو لوٹ کرچلنا ہوگا چار سال پہلے۔ جب مینڈیٹ جمہوریت کی تعریف کو ہی بدلنے والے ایک شخص کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔ یعنی اس سے پہلے جمہوریت پٹری سے اترے، مینڈیٹ اس سمت میں بڑھ گیا۔
یاد کیجئے ایمرجنسی۔ یاد کیجئے بوفورس۔ یاد کیجئے منڈل کمنڈل کی سیاست۔ ہندو توا کی لیبارٹری میں بابری مسجدکی مسماری۔حالانکہ 2014 اس کے برعکس تھا کیونکہ اس سے پہلے تمام دور میں مدعے تھے لیکن 2014 کے مینڈیٹ کے پیچھے کوئی مدعا نہیں تھا بلکہ ترقی کی چکاچوندھ کا خواب اور ماضی کی ہر بری حالت کو بہتر بنانے کا ایسا دعویٰ تھا جو کارپوریٹ فنڈنگ کے کندھے پر سوار تھا۔
جتنا خرچ سال 1996، 1998، 1999، 2004، 2009 کے انتخاب میں ہوا، ان سب کو ملاکر جتنا ہوتا ہے اس سے زیادہ صرف 2014 کے انتخاب میں ہوا۔30 ارب روپے سے زیادہ الیکشن کمیشن کا خرچ ہوا تو اس سے زیادہ بی جے پی کا۔ اور وہ بھی صرف ایک شخص کو ملک کا ایسا چہرہ بنانے کے لئے جس کے سامنے رہنما ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعت بھی چھوٹی پڑ جائے۔
ہوا بھی یہی، کانگریس یا حزب مخالف ہی نہیں خود حکمراں بی جے پی اور بی جے پی کی پیرینٹ آرگنائزیشن آر ایس ایس بھی اس شخص کے سامنے بونا ہو گیا، کیونکہ جس مینڈیٹ نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھا کر اس میں نہ صرف کانگریس مخالف کے روایتی ووٹ تھے بلکہ دلت، مسلم اور او بی سی ووٹ بھی شامل تھے۔یعنی 1977 کے بعد پہلا موقع تھا جب ہر طبقہ، کمیونٹی، فرقوں نے ووٹ بینک ہونے کی لکیر مٹائی۔ پہلی بار عوام کی امید بھی جوش مار رہی تھی اور مودی حکومت کے اعلان در اعلان بھی اڑان بھر رہے تھے۔
کالا دھن واپس لانے کے لئے ایس آئی ٹی بنی۔ داغدار رکن پارلیامان کے خلاف سپریم کورٹ جلد کارروائی کرےگی، یہ چنی ہوئی حکومت نے دعویٰ کیا۔ ‘ نہ کھاؤںگا اور نہ کھانے دوںگا ‘ کا نعرہ ایسے لگایا گیا جیسے کرونی کیپٹل ازم اور سیاسی گلیارے میں دلالی ختم ہو جائےگی۔اسٹودنٹ،کسان،مزدور،خواتین کے علاوہ ہر طبقے کو راحت اور سہولیات کی پوٹلی کھولنے سے لےکر حاشیے پر پڑے سماج کی بہتری کی بات۔ یہ سب حکومت کے الگ الگ وزیر نہیں بلکہ واحد سپر منتری یعنی وزیر اعظم ہی بار بار کہتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ‘ وزیر اعظم ‘ نہیں بلکہ ‘ پردھان سیوک ‘ ہیں۔ جادو چلتا رہا اور اسی جادو کو دکھانے میں وہ میڈیا بھی گم ہو گیا جس میڈیا کی آنکھیں کھلی رہنی چاہیے تھی۔تو ملک کی تصویر چار سال تک یہی رہی۔ وزیر اعظم نریندر مودی بولتے رہے۔ میڈیا دکھاتا رہا۔ ناظر دیکھتے رہے۔ سب کچھ جادوئی رہا۔شروع کے تین سال تک مودی کا جادو نیوز چینلوں کی اسکرین پر چھایا رہا پر چوتھے سال میں قدم رکھتے رکھتے مودی حکومت کا جادو اترنے لگا اور مودی پالیسی کمزور دکھائی دینے لگی۔
چار سال میں 106اسکیموں کا اعلان صرف اقتدار کے ذریعے کامیابیوں کے اعداد و شمار میں کھونے لگا۔ جیسے بےروزگاری ہے پر حکومت نے کہا کرنسی اسکیم سے 70 لاکھ روزگار ایک سال میں ملے۔ اسٹارٹ اپ سے دو کروڑ نوجوانوں کو فائدہ ہوا۔ اسکل انڈیا سے ڈیڑھ کروڑ طالب علموں کو فائدہ ہوا۔حالانکہ زمینی سچائی ہر اسکیم کو لےکے اتنا کمزور تھی کہ گراؤنڈ زیرو سے رپورٹنگ کرتے وقت سرکاری اسکیموں کے سرکاری مستفید ہی بتانے لگے کہ ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
اسی کڑی میں سرجیکل اسٹرائیک، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی بھی بوم رینگ کر گیا۔ تو حکومت نے چاہا اس کی کامیابیوں کا ہی تذکرہ نیوز چینل کریں، انہوں نے کیا اور اسی کے ساتھ تین سچ بھی سامنے آ گئے۔پہلا، میڈیا کیسے کسی بزنس سے زیادہ نہیں ہے۔ دوسرا، بزنس میں منافع ہوگا یا نہیں اس کو اقتدار نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ تیسرا، جس نے ہمت دکھائی اس کو اعلانیہ طورپر دبا دیا گیا۔
یعنی پیغام صاف تھا۔ لوگ سچ جاننا / دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر اس سے ٹی آر پی بھی بڑھ رہی ہے تو پھر اشتہار سے کمائی بھی بڑھےگی۔ حکومت کی پالیسیوں کو لےکر گراؤنڈ رپورٹنگ سے اگر ٹی آر پی بڑھتی ہے تو پھر یہ مودی حکومت ہی نہیں بلکہ حکمراں پارٹی کے لئے خطرےکی گھنٹی ہے کیونکہ عام انتخابات میں صرف 8 مہینے بچے ہیں۔ایسے موقع پر میڈیا اگر اقتدار موافق نہ رہکرگراؤنڈ رپورٹنگ کرنے لگے تو مشکل ہوگی کیونکہ داؤ پر وزیر اعظم کا چہرہ ہی ہے۔
نیوز چینل خود کو بزنس کرتا ہوا ہی مانے اس کی بساط صرف کارپوریٹ یا کمپنیوں کے اشتہار پر نہیں ٹکے بلکہ سیاسی تشہیر کا بجٹ اتنا زیادہ ہو گیا کہ ہرکوئی منافع میں ہی کھو گیا۔ایک طرف ہندوستان میں تقریباً 2000 کروڑ روپے کے اشتہار کا بزنس نیشنل نیوز چینلوں کے لئے ہے اور ٹاپ پانچ نیوز چینلوں کی کمائی ہی 1500 کروڑ کی ہو جاتی ہے۔ جس میں نمبر ایک اور دو کی کمائی تقریباً 900 کروڑ روپے کی ہوتی ہے۔
دوسری طرف مرکزی حکومت سے لےکر ریاستوں کی تشہیر کا بجٹ موجودہ وقت میں 30000 کروڑ سے زیادہ کا ہو چلا ہے اور لوٹ اسی بات کی ہے یا کہیں سیاسی سودے بازی اسی کی ہے۔یعنی ایک طرف اقتدار کی تشہیر سے نہ جڑے تو بزنس تباہ ہوگا اور اقتدار کے ساتھ جڑے تو خوب منافع ہوگا۔ یہ نئی تصویر اقتدار کی تشہیر کے لئے بڑھتے بجٹ کی ہے، کیونکہ نجی کمپنیوں کے اشتہار کے متوازی سرکاری اشتہارات کا چہرہ بھی اس دور میں بدل دیا گیا۔
ڈی اے وی پی کے ذریعے سرکاری اشتہار کا بجٹ صرف ایک ہزار کروڑ روپے کا ہے، لیکن مرکز کے علاوہ تمام ریاستوں کی حکومتوں نے اپنی تشہیر کا بجٹ 500 کروڑ سے لےکر 5000 کروڑ روپے تک کا کر لیا ہے۔حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ نیوز چینل ہی اشتہار بناتے ہیں، اس اشتہار کو نیوز چینل ہی خود کو بیچتے ہیں اور خود نیوز چینلوں کی اسکرین پر حکومت کے اشتہار چلتے ہیں۔
اس میں سب سے زیادہ بجٹ ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کا ہے، جو سالانہ دو ہزار کروڑ روپے تک صرف چینلوں کو تقسیم کیا جاتا ہے۔فی الحال ملک کے 29 میں سے 20 صوبوں پر مودی حکومت کی پارٹی بی جے پی کا ہی قبضہ ہے۔ اور بی جے پی کے ہر انتخاب کے مرکز میں وزیراعظم مودی کا ہی چہرہ رہتا ہے تو پھر ریاستوں کی تشہیر کے بجٹ کو پانے کے لئے وزیر اعظم مودی کی تعریف خاصا معنی خیز ہے۔
بی جے پی کے موافق تشہیر کرنے کا فائدہ مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتوں سے بھی ملتا ہے اور اس کو کوئی کھونا نہیں چاہتا ہے۔یعنی مدیران کام اقتدار کی تشہیر کے موافق مواد کو بنائے رکھنے کا ہے اور حالات ایسے ہیں کہ اقتدار موافق تشہیر کی ایک ہوڑ ہے۔ آہستہ آہستہ حالات یہ بھی ہو چلے ہیں کہ اشتہار سے زیادہ تعریف نیوز رپورٹ میں دکھائی دے جاتی ہے۔
یعنی اشتہار بنانے والا بھی نامہ نگار اور حکومت کے کام کاج پر رپورٹنگ کرنے والا بھی نامہ نگار اور دفتر میں زیادہ اعتبار اس کو جو حکومت سے زیادہ قریب نظر آئے۔اکثر ریاستوں کی تشہیر کو دیکھنے والے الگ الگ ریاستوں کے افسر جب کسی میڈیا چینل یا اخبار کے ذریعے تیار ہونے والے اشتہار کی کلپ یا صفحے پر مواد کو دیکھتے ہیں تو اتفاقاً یہ کہہ دیتے ہیں، ‘ آپ نے جو تیار کیا ہے اس سے زیادہ بہتر تو اپنے فلاں نامہ نگار نے فلاں رپورٹ میں دکھا دیا۔ ‘
تو اشتہار کا نیا چہرہ، بغیر اشتہارات بھی کیسے میڈیا کے ذریعے تشہیرو توسیع کرتا ہے یہ اپنے آپ میں انوکھا ہو چلا ہے۔ ایک وقت جب نیوز چینل سانپ، بچھو، بھوت، پریت میں کھوئے تھے تب نیوزروم میں یہ بحث ہوتی تھی کہ آنے والے وقت میں کیسے سماجی اور اقتصادی مدعوں پر رپورٹ لکھ پائیںگے۔اب یہ بحث عام ہو چلی ہے کہ کیسے بنا تعریف رپورٹ لکھی جائے اسی لئے آزادی کے بعد پہلی بار سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر ججوں کی تقرری کو لےکر وزیر اعظم کے سامنے سوال اٹھاتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، تب بھی میڈیا کو کوئی برائی سسٹم میں نظر نہیں آتی۔
پھر سپریم کورٹ کی تاریخ میں پہلی بار چار جج عوامی طور پر سپریم کورٹ کے اندر روسٹر سسٹم سے ہوتے ہوئے جمہوریت کے لئے خطرہ کے اشارہ دیتے ہیں۔ پھر بھی میڈیا اس کو تصویر سے زیادہ اہم نہیں مانتا۔ایسے میں جب سپریم کورٹ ہی لوک پال کی تقرری سے لےکر بھیڑ تنترکے انصاف کےعادی بنائے جا رہے ملک کو خبردارکرتی ہے۔ حکومت قانون سازمجلس کو قانون کی حکومت نافذ کرانے کے لئے حرکت کرنے کو کہتا ہے تو پھر کسی پر اثر نہیں ہوتا۔
پھر انفارمیشن کمیشن کے اندر سے آواز آتی ہے اقتدار اطلاع کے حق کو کند کر رہی ہے۔ تب بھی میڈیا کے لئے یہ خبر نہیں ہوتی۔سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما ہی سی بی آئی کے اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا اور ان کی ٹیم کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں۔ اس کے پیچھے سیاسی منشا اشارہ دیتے ہیں پر اقتدار کی گود میں کھویا ہوا میڈیا کے لئے یہ بھی سوال نہیں ہوتا۔
الیکشن کمیشن گجرات کے انتخاب کی تاریخوں کا اعلان کریں اس سے پہلے حکمراں پارٹی کے رہنما تاریخ بتا دیتے ہیں پر سوائے ہنسی مذاق کی بات سے آگے بڑھتی نہیں اور جب حملہ مین اسٹریم کے ہی ایک میڈیا ہاؤس پر ہوتا ہے تو مین اسٹریم کے ہی دوسرے میڈیا ہاؤس خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔جیسے سچ دکھانا جرم ہے اور وہ مجرم نہیں ہیں۔ اسی کا اثر ہے کہ پہلی بار ہندوستانی نیوز چینل سرکاری پالیسیوں کی گراؤنڈ رپوٹنگ کی جگہ الگ الگ مدعوں پر بحث میں ہی چینل چلا رہے ہیں۔
حالات یہاں تک بگڑ گئے ہیں کہ ہندی کے ٹاپ چینلوں کو حکومت کی مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ کی بنیاد پر بتایا جاتا ہے کہ وہ کس مدعے پر چینلوں پر بحث کریں۔جو حکومت کے موافق رہتا ہے اس کے لئے ہر دروازہ کھلتا ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے چار سال میں کبھی پریس کانفرنس نہیں کی پر جو آٹھ انٹرویو دئے وہ انہی نیوز چینل یا اخباروں کو جو کاؤنٹر سوال نہ کریں۔
چار ٹی وی انٹرویو انہی چار چینلوں کو جو ان کی تشہیرو توسیع میں لگا رہا۔ پرنٹ میڈیا کے انٹرویو میں بھی سوال جواب کے موافق بنائے گئے، جس میں انٹرویو لینے والے صحافی کا نام نہیں تھا، اخبار کی ٹیم کا نام تھا۔آخری سچ یہی ہے کہ وزیر اعظم جس چینل کو انٹرویو دے رہے ہیں اس چینل کے بزنس میں چار چاند لگ جاتے ہیں اور ذاتی منافع ہوتا ہے، جو راجیہ سبھا کی سیٹ پانے سے لےکر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
وہیں دوسری طرف یہ کوئی بھی دیکھ نہیں پاتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں جمہوریت اقتدارکے پاس گروی ہو چلی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر