مایاوتی کی زندگی تضادات سے بھرپور ہے اور وہ سودےبازی کرنےمیں ماہر ہیں۔ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو چاہیے کہ وہ تضادات کو سلجھانے کے ساتھ مایاوتی جیسی پکی سودےباز لیڈر کو رام کرنے کا ہنر سیکھ لیں۔
بہوجن سماج پارٹی کے بنیاد گزار کانشی رام مرکز میں ایک مجبور اور کمزو ر سرکار چاہتے تھے، نہ کہ ایک مضبوط سرکار، جب تک کہ کوئی دلت بر سر اقتدار نہ آ جائے۔یہ 1980 کے اوائل کی بات ہے، جب ہزاروں ہزار دلت اپنے ہیروز کانشی رام اور مایاوتی کو سننے ٹوٹی پھوٹی سائیکلوں سے یا پیدل میلوں کا سفر کرتے تھے۔دہائیوں بعد بھی بی ایس پی سپریمو مایاوتی اپنے سرپرست کے ان خیالات کا پوری طرح لحاظ رکھتی ہیں۔
ان کی منصوبہ بندی کے مطابق سن 2019 میں ان کی وزارت عظمیٰ کا خواب پورا کرنے کے لیے مرکز میں کانگریس کا کمزور ہونا ضروری ہے۔ حال میں ہونے جا رہے تین صوبوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ ودھان سبھا کے الیکشن میں کانگریس کے ساتھ کسی بھی طرح کے گٹھ بندھن کو ٹھکرا دینا، ان کے اسی رجحان کی توثیق کرتا ہے۔
اپنے آپ میں مضبوط اور جیتنے والی کانگریس مایاوتی کے لیے یقیناً ایک بری خبر ہوگی، جو سن 2019 میں وزارت عظمیٰ پر دعوےداری کا بہت پختہ ارادہ کیے بیٹھی ہیں۔ باوجود اس کے کہ بہت سے پرجوش جغادری سیاستداں کا خواب بھی یہی ہے، لیکن مہاگٹھ بندھن یا این ڈی اے مخالف پارٹیوں کا ساتھ آنا ابھی بھی دور کی کوڑی نظر آ رہا ہے۔جولائی 1996 میں کانشی رام اتر پردیش ودھان سبھا الیکشن کے لیے کانگریس کے ساتھ گٹھ بندھن کر رہے تھے اور مایاوتی اس کی شاہد تھیں۔
1996 کے عام انتخاب کا وقت بھی قریب تھا، کانگریس تازہ دم بی جے پی اور جارح علاقائی پارٹیوں کے خلاف جدوجہد کر رہی تھی۔ نئی دہلی میں جب کانگریس اور بی ایس پی کے انتخابی اشتراک کا باضابطہ اعلان کیا جانے والا تھا، تب سیٹوں کے بٹوارے پر وزیر اعظم اور کانگریس کے صدر پی وی نرسمہا راؤ نے ایک شاطرانہ رویہ اختیار کر لیا۔ کانشی رام وزیر اعظم نرسمہا راؤاور اتر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر جِتندر پرساد کے پاس ہی بیٹھے تھے۔ کانشی رام نے پہلے طے کی جا چکی باتوں کے مطابق گٹھ بندھن کی شرائط کا ذکر شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ یو پی ودھان سبھا انتخاب میں بی ایس پی 300 اور کانگریس 125 سیٹوں پر الیکشن لڑے گی۔ اس پر راؤ نے چپی اوڑھ لی، جبکہ اس اشتراک میں بنیادی کردار ادا کرنے والے جِتندر پرساد دوسری طرف دیکھنے لگے۔پھر 1996 کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کو کراری ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ تب آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے اس شکست کے اسباب پتہ کرنے کے لیے تجربہ کار سیاستداں کے کروناکرن کی صدارت میں ایک وفد یوپی بھیجا۔ گورکھپور، بستی، بہرائچ جیسے اضلاع میں جا کر پتہ چلا کہ وہاں زیادہ کچھ نہیں بدلا، بس کانگریس کے ضلعی دفتروں میں بورڈ بدل گئے ہیں۔ پہلے جہاں کانگریس کے بورڈ تھے وہاں اب بی جےپی کے لگ گئے ہیں۔
دلتوں کو چھواچھوت، غربت، استحصال اور ان کے صدیوں پرانے پچھڑےپن سے نجات دلانے کا دعویٰ کرنے والی مایاوتی چار بار اتر پردیش کی مکھیہ منتری رہ چکی ہیں۔ 2012 کے یو پی الیکشن میں مایاوتی کی ہار کے بعد دلت مفکر ڈی آر داراپوری نے لکھا؛
مایاوتی کا دلت ووٹ بینک ان سے دور ہو جانے کی اہم وجوہات میں ان کی بدعنوانی، انتظامیہ میں لاپرواہی، وکاس نہ ہونا، دلت مسائل پر دھیان نہ دینا اور ان کا آمرانہ رویہ ہے۔
1995 میں مایاوتی پہلی بار یوپی کی گٹھ بندھن سرکار کی مکھیہ منتری بنیں۔ تب وزیر اعظم پی-وی نرسمہا راؤ فرانس کے دورے پر تھے۔انہوں نے وہاں سے مایا وتی کی تاج پوشی کو ‘جمہوریت کا کرشمہ’قرار دیا تھا۔ایک بےحد غریب خاندان میں بطور مایاوتی پربھو داس جنم لینے والی مایاوتی کی زندگی غیر معمولی اور متاثر کرنے والی ہے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام انہوں نے دہلی کے قریب بادلپور (نوئیڈا) میں گزارے، جہاں ان کے والد محکمہ ڈاک میں ایک معمولی سی پوسٹ پر تھے اور مقامی سرکاری اسکول میں پڑھ رہے اپنے بچوں کی 15 روپے جیسی معمولی سی ٹیوشن فیس کے لیے بھی اکثر پریشانی اٹھانے پر مجبور تھے۔
انہی حالات میں مایاوتی نے دہلی کے کالندی کالج سے گریجویشن کر لیا۔ پھر انہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور بی ایڈ بھی کر لیا۔ جس کے بعد غازی آباد کے ایک اسکول میں وہ ٹیچر ہو گئیں۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے اڑان بھری اور چار بار اتر پردیش کی مکھیہ منتری بنیں۔ وہ ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی خاتون ہیں اور تجسس جگانے والے تضادات کا مجموعہ بھی۔
حقیقت یہی ہے کہ مایاوتی کی زندگی تضادات سے بھرپور ہے اور وہ سودےبازی کرنےمیں ماہر ہیں۔ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو چاہیے کہ وہ تضادات کو سلجھانے کے ساتھ مایاوتی جیسی پکی سودےباز لیڈر کو رام کرنے کا ہنر سیکھ لیں۔ کیونکہ مایاوتی ایک مقصد حاصل کرنے کے فوراً بعد اگلے بلند مقصد کی جانب اپنا رخ کر لیتی ہیں۔وہ ایک بار پھر کرشمہ دکھانے کے موڈ میں ہیں۔ سن 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت پانے والی آئرن لیڈی ملک کی وزیرِاعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہو گئی ہیں۔
Categories: فکر و نظر