خبریں

1993،1984، 2002 کے فسادات میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے میں سیاسی رہنماؤں اور پولیس کی تھی ملی بھگت: ہائی کورٹ

دہلی ہائی کورٹ نے کانگریس رہنما سجن کمار کو عمر قید کی سزا دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت کے خلاف جرم اور قتل عام ہمارے گھریلو قانون کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کمیوں کو ختم کرنے کی جلد سے  جلد ضرورت ہے۔

علامتی فوٹو: پی ٹی آئی

علامتی فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے 1984 سکھ مخالف فسادات معاملے کے فیصلے میں دوسرے فسادات کو لے کر بھی بے حد سخت تبصرہ کیا ہے۔  جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس ونود گوئل کی بنچ نے سوموار کو سجن کمار کو فسادات پھیلانے اور سازش رچنے کا مجرم قرار دیا ہے اور اس کے لیے ان کو عمر قید کی سزا سنائی۔کورٹ نے کہا کہ سال 1984 میں نومبر مہینے کی شروعات میں دہلی میں آفیشیل اعدادو شمار کے مطابق؛2733اور پورے ہندوستان میں تقریباً 3350 لوگوں کا بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ کورٹ نے کہا کہ اتنے لوگوں کے اجتماعی قتل کی یہ پہلی واردات نہیں تھی اور افسوس کی یہ آخری بھی نہیں تھی۔ تقسیم ہند کے وقت پنجاب، دہلی اور کئی دوسری جگہوں پر اجتماعی قتل ہوئے تھے۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ بے قصور سکھوں کے قتل کی طرح ہی بے حد تکلیف دہ یادیں ہیں جو کہ ہمارے ذہن میں ابھی تک موجود ہیں۔ سکھ فسادات کی ہی طرح 1993 میں ممبئی میں ، 2002 میں گجرات میں، 2008 میں اڑیسہ کے کنگھ مال میں، 2013 میں اتر پردیش کے مظفر نگر میں فسادات ہوئے۔ کورٹ نے مزید کہا کہ ان سبھی اجتماعی جرم کے واقعات میں یہ یکسانیت ہے کہ سبھی فسادات میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا اور قانونی ایجنسیوں کے تعاون سے سیاسی رہنماؤں کے ذریعے حملے کرائے گئے۔

دہلی ہائی کورٹ نے کہا،’ ان معاملوں میں جو مجرم تھے ان کو سیاسی تحفظ دیا گیا ، وہ جانچ اور سزا سے بچنے میں کامیاب رہے۔ ایسے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہمارے  جوڈیشیل سسٹم کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔’ ایسے مجرموں کو سزا دلانے کے لیے کورٹ نے کہا کہ ہمارا  جوڈیشیل سسٹم اور مضبوط کیا جانا چاہیے۔

سکھ فسادات معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ

سکھ فسادات معاملے میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ

دہلی ہائی کورٹ نے کانگریس رہنما سجن کمار کو عمر قید کی سزا دیتے ہوئے کہا،’ نہ تو ’انسانیت کے خلاف جرم‘ اور نہ ہی  ’قتل عام‘ ہمارے گھریلو قانون کا حصہ  ہیں۔ ان کمیوں کو ختم کرنے کی جلد سے  جلد ضرورت ہے۔’غور طلب ہے کہ ہائی کورٹ نے 74 سالہ سجن کمار کو 1984 میں سکھ مخالف فسادات کے دوران دہلی کے راج نگر علاقے میں ایک فیملی کے 5 لوگوں کا قتل کرنے کے لیے مجرم ٹھہرایا ہے۔سجن کمار کانگریس پارٹی کے پہلے ٹاپ رہنما ہیں ، جن کو اس معاملے میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔

سجن کمار کو نچلی عدالت نے اس معاملے میں بری کر دیا تھا جس کے خلاف متاثرین اور سی بی آئی نے ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔ عدالت نے سجن کمار کو 31 دسمبر تک سرینڈر کرنے کے لیے کہا ہے اور شہر سے باہر جانے پر بھی روک لگا دی ہے۔ عدالت نے کہا ‘ مجرموں نے سیاسی تحفظ کا فائدہ اٹھایا۔ پولیس کی ناکامیابی تھی کیونکہ پولیس متاثرین کی شکایتوں کو درج کرنے میں نا کام رہی۔پولیس  مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ‘

عدالت نے سجن کمار کے خلاف لڑنے والی جگدیش کور کی ہمت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ،’متاثرین کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ کتنا بھی چیلنج آئے لیکن سچ کی جیت ہوگی۔‘دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو فسادات پھیلانے والوں کے خلاف ایک بڑی جیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔