85سالہ اکانومسٹ اور نوبل ایوارڈ یافتہ امرتیہ سین نے کہا کہ ملک میں آئینی اداروں پر حملہ ہورہے ہیں۔اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کی جارہی ہے ،یہاں تک کہ صحافیوں کو پریشان کیا جارہا ہے۔
نئی دہلی: معروف ماہر اقتصادیات اور نوبل ایوارڈ یافتہ امرتیہ سین نےایکٹر نصیرالدین شاہ کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ،ہمیں ان چیزوں کی مخالفت کرنی چاہیے جن کے سہارے ایکٹر کو پریشان کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ قابل اعتراض ہے۔این ڈی ٹی وی کی ایک خبر کے مطابق، انہوں نے ملک میں لگاتار کمزور ہورہے آئینی اداروں کے تئیں اپنی تشویش کا بھی اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوت کا اس طرح سےختم ہونا باعث تشویش ہے۔
In 2018, India witnessed a massive crackdown on freedom of expression and human rights defenders. Let's stand up for our constitutional values this new year and tell the Indian government that its crackdown must end now. #AbkiBaarManavAdhikaar pic.twitter.com/e7YSIyLAfm
— Amnesty India (@AIIndia) January 4, 2019
غور طلب ہے کہ ایمنسٹی انڈیا کے ہیش ٹیگ اب کی بار مانو ادھیکار (#AbkiBaarManavAdhikaar)کے تحت یہ بات کہی گئی تھی کہ ملک لگاتار بڑے پیمانے پر اظہار رائے کی آزادی اور ہیومن رائٹس پر حملوں کا گواہ بن رہا ہے۔واضح ہوکہ ایمنسٹی کی اس مہم کے تحت نصیر الدین شاہ نے اردو میں ایک پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ ادیب ، شاعر، دانشور اور آرٹسٹ کو دبا یا جارہا ہے۔ ہیومن رائٹس کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو جیل میں بند کیا جارہا ہے ۔ صحافیوں پر لگاتار حملے ہورہے ہیں ، ان کو خاموش کرایا جارہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ،مذہب کے نام پر نفرت کی دیوار کھڑی کی جارہی ہے۔ بے قصور لوگ مارے جارہے ہیں ۔ جو لوگ اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان پر کارروائی کی جارہی ہے۔
غور طلب ہے کہ ایکٹر نصیر الدین شاہ نے حال ہی میں اتر پردیش کے بلند شہر میں گئو کشی کے شک میں بھیڑ کے ذریعے کیے گئے تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ کئی جگہوں پر ایک گائے کی موت کو ایک پولیس افسر کے قتل سے زیادہ توجہ دی گئی ۔ نصیر الدین شاہ نے اس ملک میں اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر بھی تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے کہاتھا کہ ،میں نے اپنے بچوں کو کسی خاص مذہب کی تعلیم نہیں دی ہے ۔ واضح ہوکہ نصیر الدین شاہ کاروان محبت انڈیا کو دیے گئے ایک ویڈیو انٹرویو میں اظہار خیال کر رہے تھے ۔
قرض معافی اتنی غلط پالیسی نہیں جتنا لوگ سوچتے ہیں
دریں اثنا امرتیہ سین نے یہ بھی کہا کہ کسانوں کی قرض معافی اتنی غلط پالیسی نہیں ہے جتنا لوگ سوچتے ہیں۔منٹ کو دئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ قرض معافی پوری طرح سے غلط پالیسی ہے۔انہوں نے کہا، زراعتی بحران کئی مسائل میں سے ایک ہے۔ 1920 کی دہائی سے ہی ہم اس پر بات کر رہے ہیں۔ میں لوگوں کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ قرض معافی پوری طرح سے غلط چیز ہے۔ اس میں یقینی طور پر Incentive Problemہے۔
سین نے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم ترقی پذیر ٹیکسیشن نہیں کریںگے کیونکہ اس میں Incentive Problem ہے تو یہ ایک بڑی غلطی ہوگی۔ یہاں، سوال یہ ہے کہ آپ اپنے مقاصد کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے سے کیسے نپٹ سکتے ہیں۔امرتیہ سین نے اپنے تجربات کو یاد کرتے ہوئے کہا، میں شانتی نکیتن میں پلا جو کہ آدیواسی گاؤوں سے گھرا ہوا تھا۔ ہمارے گھر اور چاول ملکے درمیان تین یا چار میل دور، دھان کے کھیتوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ یہ چھوٹے پلاٹ تھے جو زیادہ تر آدیواسیوں کے تھے۔ اب وہی جگہ گھروں سے بھرا ہوا ہے، کیونکہ کسان قرض میں ڈوب گئے اور ان کو اپنی زمین بیچنی پڑی۔
انہوں نے آگے کہا، اس سے بڑی نصیحت یہ ہے کہ کسانوں کو اپنی زمین بیچنی پڑی کیونکہ وہ بہت زیادہ قرض میں تھے۔ قرض معافی اتنی غلط پالیسی نہیں ہے جتنی آپ سوچ سکتے ہیں۔ جو لوگ قرض میں ڈوب گئے ہیں، ان کے پاس کئی سارے مسائل ہوتے ہیں اور یہ ایک طرح سے ان کی غلطی ہو سکتی ہے۔امرتیہ سین نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس زراعت پر منحصر بہت سارے لوگ ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مینیوفیکچرنگ سیکٹرمیں روزگارکی حالت خراب رہی ہے۔ یو پی اے حکومت کے مقابلے میں یہ اب اور بھی خراب ہے۔
انہوں نے کہا، پچھلی کانگریس حکومت میں تعلیم اور صحت خدمات کو لےکر حالت کافی خراب تھی لیکن انہوں نے موجودہ مودی حکومت کے مقابلے میں زیادہ روزگار پیدا کیا تھا۔ اس حکومت میں اس کی بھاری کمی ہے۔واضح ہو کہ حال میں رگھو رام راجن، اروند سبرامنیم جیسے کچھ ماہر اقتصادیات نے قرض معافی کی پالیسی کو صحیح نہیں بتایا ہے۔ حالانکہ کسانوں اور زراعت سےمنسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر بڑےبڑے بزنس گھرانوں کے کئی کروڑوں کے قرض معاف کئے جاتے ہیں تو کسانوں کے لئے کیوں نہیں ایسا ہو سکتا۔زراعت معاملوں کے جانکاروں کا کہنا ہے کہ قرض معافی زراعتی مسائل کا مکمّل حل نہیں ہے۔ حالانکہ اس سے کسانوں کو تھوڑی راحت ضرور ملےگی۔
Categories: خبریں