فکر و نظر

رام چندر گہا کا کالم: مودی جی، ہمارا ہندوستان اسٹالن کا روس نہیں ہے…

وزیر اعظم ملکی مفاد کا خیال رکھنے کے بجائے  پارٹی اور اپنی ذات کے لیے کام کرتے دکھ رہے ہوں، تو کیا ہمیں سرکار کی دروغ گوئی اور غلط بیانی کو ٹھکرا دینا چاہیے؟ کیا ہمیں اس پر اور توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے کہ ہندوستان مستقبل قریب میں یا طویل مدت کے لیے دہشت گردی کے سائے سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

 1940 میں جارج آرویل نے ‘میرا ملک دائیں یا بائیں’ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اُس وقت برٹن اور جرمنی کے بیچ جنگ چل رہی تھی۔ نازی افواج لندن کو نقصان پہنچا رہی تھیں اور ان  سب سے الگ، کئی طرح کےشکوک میں مبتلا جارج آرویل جذباتی و جنگ و جدال میں ڈوبے قوم پرستوں کی حمایت کر رہا تھا۔ اپنے ایک مضمون میں اس نے ‘یک طرفہ امن پسندی’ کے خیالات پر شدید تنقید کی ہے۔ بائیں  بازو کے دانشور اس وقت امن پسندی کی تلقین کر رہے تھے۔ ایک سوشلسٹ ہونے کے ناطے آرویل جنگ کے نتائج سے خوفزدہ تھا اور برسوں پہلے جنگ کے خلاف پمفلٹس لکھ چکا تھا۔ لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو آرویل نے پایا کہ وہ ایک دم ‘دل سے محب وطن تھا، وہ جنگ میں مدد کرےگا اور موقعہ ملا تو میدانِ جنگ میں بھی جائےگا، نیز اپنی جانب سے جنگ کے کاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا نہ ہی اس کی مخالفت کرےگا۔’ جنگ کو اس کی حمایت جاری تھی۔ اس نے لکھا کہ برسرِ اقتدار کنزرویٹیو سرکار تک کو ‘میری وفاداری کا یقین تھا۔’

چھہ سال بعد نازیوں کی ہار ہو گئی اور دنیا میں اور خود اس کے ملک میں امن لوٹ آیا تھا۔ تب آرویل نے اپنے مضامین کا مجموعہ ‘میں کیوں لکھتا ہوں’ شائع کیا۔ اس میں اس نے لوگ کتابیں یا مضمون لکھنے کی طرف راغب کیوں ہوتے ہیں، اس کی چار وجوہات بتائیں۔ یہ تھیں ‘گہری انانیت’، ‘جمالیاتی جذبہ’، ‘تاریخی محرکات’ اور ‘سیاسی مقاصد۔’ اپنے خود کے عملِ تصنیف و تالیف کی بابت اس نے لکھا: ‘جب میں کوئی کتاب لکھنے لگتا ہوں تو خود سے یہ نہیں کہتا کہ “میں کوئی شاہکار تخلیق کرنے جا رہا ہوں۔” میں یہ سب اس لیے لکھتا ہوں کہ کچھ جھوٹ عام ہو گئے ہیں، میں ان کا پردہ فاش کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ حقائق ہیں جن کی جانب توجہ دلانا ہے…’

آج کے ہندوستان میں آرویل کا کون سا پہلو زیادہ موزوں ہے، ضرورت سے زیادہ محب وطن یا ایک سچا انسان؟ کیا ادیب، رپورٹر، ایڈیٹر اور ٹی وی اینکر کو سرکار کی جی حضوری کرنا چاہیے؟ یا انہیں ان حقائق کو طشت از بام کرنا  چاہیے، سرکار جنہیں دبانا چاہتی ہے اور ان جھوٹی باتوں کو درکنار کرنا چاہیے، جنہیں سرکار پھیلانا چاہتی ہے؟

اپنے بارے میں کہوں تو جب پلواما میں دہشت گردانہ حملہ ہوا تو میرے اندر کا محب وطن بیدار ہوا اور غصے میں آ گیا۔ پاکستان اور اس کے ذریعے تیار کیے گئے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو کبھی معاف نہ کرنے کی بات دل میں آئی۔ مجھے بے حد سکون محسوس ہوا جب ان ممالک نے اس حملے کی مذمت کی، جو کبھی اسلام آباد کے حلیف تھے، جیسے امریکہ۔ جب ہماری فضائیہ نے ادھر کارروائی کی تو مجھے وہ مناسب لگی۔ 26/11 کو ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہماری سرکار نے دنیا کے سامنے پاکستان کی حرکتیں رکھ کر اسے شرمندگی سے دو چار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن صاف کہا جائے تو پڑوسی ملک اور اس جنگ کے چلانے والوں کو کوئی خجالت نہ ہوئی۔ ایک دہائی کے بعد بھی پاکستان کی پشت پناہی پر پل رہے دہشت گرد ہندوستان پر حملے کر رہے ہیں۔ بالاکوٹ میں جیشِ محمد کے کیمپ پر ہوائی حملہ (خواہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہو یا نہ ہوا ہو) وہی پرانے قرضے چکانے کے مترادف تھا۔

لیکن جلد ہی میں نے پایا کہ مجھے بہت سی باتیں پتہ ہونی چاہئیں؛ جیسے کہ 2019 کا ہندوستان 1940 کا گریٹ برٹن نہیں ہے۔ پھر یہ بھی کہ ہم پوری طرح جنگ نہیں لڑ رہے ہیں۔ بلکہ یہ چھوٹی موٹی جھڑپیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے عام انتخابات سامنے آن کھڑے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے دہلی میں بر سرِ اقتدار سرکار پاکستان کے ساتھ ان جھڑپوں کو دو طرح سے دیکھ رہی ہے۔ ایک یہ کہ ہندوستان کے لیے ان حالات کے کیا معنی ہیں۔ دوسرا یہ کہ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار تک پہنچانے میں اس کی کیا اہمیت ہے۔

ایک پارٹی کے پرجوش حامیوں نے پلواما پر ہوئے آتنک وادی حملے کا فائدہ اٹھانا جلد ہی شروع کر دیا تھا۔ بی جے پی کے رکن پارلیامان اور مرکزی وزراء شہیدوں کے گھروں تک پہنچے اور ان کے جنازوں کے ساتھ سیلفی لینے لگے۔ ایک گورنر جن کا تقرر بی جے پی  نے کیا ہے، اس پر ٹوئٹ کرتے رہے اور بی جےپی  کے قومی صدر کشمیر کے خلاف باقی ہندوستان میں تقریریں کرنے نکل پڑے۔ یہ سب اس لیے کیا جا رہا تھا کہ ملک کے اکثریتی طبقے کو اپنے پالے میں کیا جا سکے۔ یہ بھی ہوا کہ دہشت گردانہ حملے کے دس روز بعد دہلی میں نیشنل وار میموریل کا افتتاح کیا گیا؛ جسے قومی ایکتا کا مظاہرہ کرنے کے لیے گڑھا گیا ایک موقعہ کہا جا سکتا ہے۔ البتہ بر سرِ اقتدار پارٹی اسے اس طرح نہیں دیکھتی ہے۔ ایک سینئر مرکزی وزیر اپنے باس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھ سیلفی لے کر ٹوئٹ کرتے ہیں: ملک کے پہلے وار میموریل کو حقیقت میں بدلنے کا کام وزیر اعظم نریندر مودی نے کر دکھایا، اس کا ملک کو 70 سال انتظار کرنا پڑا۔ اس یادگارِ شہیداں کی تقریبِ افتتاح کو خود باس نے بھی کانگریس پارٹی اور اس کے اولین معمار خاندان پر حملہ کرنے کا ذریعہ بنایا۔ وزیر اعظم نے اس موقعے پر صرف اپنی اور اپنی پارٹی کی بات کی۔

یہ سب بہت ہی بھدا تھا۔ جس میں دہشت کی بڑی تصویر پیش کر کے پاکستان کے ساتھ ممکنہ جنگ کی باتیں کی جا رہی تھیں۔ اس کی حمایت میں کھڑے ہونا تو اور بدترین تھا۔ 25 فروری کو سرحد کے اس پار فضائیہ حملے کے بعد بی جے پی کے صدر امت شاہ نے ٹوئٹ کیا، ‘آج کی کارروائی نے اس کی مزید توثیق کر دی کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مضبوط و ماہرانہ قیادت میں ہندوستان محفوظ و مستحکم ہے۔’ اس کی امید کی ہی جا سکتی تھی، کیونکہ معقولیت و شائستگی امت شاہ کے لیے کسی دوسرے سیارے کی باتیں ہیں۔ وہ چناؤ جیتنے کے لیے سب کچھ کریں گے۔ اس سے بھی زیادہ مایوس کن ایک مرکزی وزیر کا، جو فوج کے سابق افسر بھی ہیں یہ ٹوئٹ دیکھنا تھا کہ مذکورہ فضائی حملہ ‘نریندر مودی کی قیادت میں تشکیل پا رہے ایک فیصلہ کن نئے انڈیا’ کا ثبوت ہے۔ اسی دن وزیر اعظم خود بیک گراونڈ میں پلواما کی تصاویر کے ساتھ راجستھان میں ایک سیاسی تقریر کرتے پائے گئے۔


یہ بھی پڑھیں:کیا پاکستان مودی کی جیت کے لئے جیش محمد کا استعمال کر رہا ہے؟


اب ایک بار پھر جارج آرویل کا ذکر کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے ان کے دو مضامین کا ذکر کیا ہے؛ اب میں ان کی دو کتابوں کی بات کرتا ہوں۔ ایک ‘اینیمل فارم’ ہے۔ اس میں ایک کردار کا نام نیپولین ہے۔ وہ فوت ہو چکے ایک فرانسیسی آمر کی بہ نسبت، ہم عصر روسی تاناشاہ سے بہت متاثر ہے۔ اس سُپر مین کو فکشن کی مدد سے یہاں سُپر اینیمل میں مُنقلِب کیا گیا ہے۔ آرویل لکھتا ہے: ‘نیپولین کو اب سادہ سا “نیپولین” نہیں کہا جاتا بلکہ اب اُسے ہمارا قائد، کامریڈ نیپولین پکارا جا تا ہے۔’ ساتھ ہی ‘یہ بھی عام ہو چلا کہ ہر کامیابی یا اچھے قدم کا سہرہ نیپولین کے سر باندھا جانے لگا۔’

جارج آرویل کی جو دوسری کتاب ذہن میں آتی ہے، وہ یقیناً 1984 ہے۔ اس کی وزارت برائے حق؛ جو جھوٹ پھیلاتی ہے، وزارت برائے محبت؛ جو نفرت کا کاروبار کرتی اور مخالفین کو دباتی ہے، سیاسی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کی جانے والی اس کی گول مول زبان اور اس کی فکری پولیس، اس کے بگ بردر جو آپ پر اور آپ کے کام کاج پر نظر رکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس ناول یعنی 1984 میں ‘ٹو منٹس ہیٹ’ نام سے پیش کی گئی فیچر فلم میں آپ کو بی جے پی کی ٹرول آرمی تک کا عکس نظر آئے گا۔ اس کے ناظرین پاتے ہیں کہ ‘ان میں شامل ہونے سے بچنا نا ممکن تھا… وہ خوف اور جذبہ انتقام کی مجنونی و مہیب گرفت میں ہوتے ہیں، جس کے بیچ ان کے دل و دماغ میں قتل کرنے، ٹارچر کرنے، ایک بھاری ہتھوڑا لے کر چہروں کو کچل دینے جیسے خیالات گردش کرتے رہتے ہیں۔ وہ یہ جذبات تمام لوگوں میں بجلی کی طرح پھیلا دینا چاہتے ہیں۔’

 مودی کا ہندوستان اسٹالن کا روس نہیں ہے۔ اُس ملک نے یکے بعد دیگرے کئی مطلق العنان حکمراں دیکھے۔ زار سے لے کر ایک جابر کمیونسٹ کی حکمرانی سے گزرا۔ ہمارے ملک میں 70سالہ آزادانہ انتخابات کی مستحکم تاریخ ہے۔ اس دوران مرکز و صوبائی سرکاروں میں کئی پارٹیاں و لیڈران آئے اور گئے۔ اسی کے ساتھ میرا ہندوستان آرویل کا انگلینڈ نہیں ہے۔ ہماری پریس حد سے زیادہ سمجھوتہ پرست  ہے۔ ہمارے ادارے بہت کمزور ہیں اور ان پر قضہ جمایا جا سکتا ہے۔ ہمارے سیاستداں عوام کے رہنما ہونے کے بجائے بنیادی طور پر خود غرض واقع ہوئے ہیں۔

جمعرات کو اس کالم کی تیاریاں کرتے وقت پلواما حملے کو پورے دو ہفتے ہو چکے تھے۔ تب تک وزیر اعظم حزبِ اختلاف کے لیڈران سے نہیں ملے تھے، جنہیں اس معاملے کی بابت یقیناً بتایا جانا چاہیے تھا کہ ملک کے تحفظ اور سلامتی کے لیے وہ اور ان کی سرکار کیا کر رہی ہے۔ اس کے بر خلاف اپنی جارحانہ انداز کی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے پورے ملک کے بی جے پی  کارکنان کو ایک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کیا، جس میں انہوں نے حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کو بدعنوان اور موقعہ پرست ٹھہرایا۔

ایسے وقت میں ایک ادیب یا رپورٹر کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ تب، جبکہ پڑوسی ملک نے اس کے خلاف ایک خفیہ جنگ چھیڑ رکھی ہو، کیا وہ سرکار کی ساری باتیں آنکھ بند کر کے قبول کر لے؟ ساتھی وزیروں یا جسے ‘گودی میڈیا’ کا لقب دیا جا چکا ہے، اس کے ذریعے وزیر اعظم کی گڑھی جا رہی شبیہ کے سائے میں اسے چلنا چاہیے؟ یا پھر ایسے میں جبکہ وزیر اعظم ملک کے مفادات کا خیال رکھنے کے بجائے صاف طور پر پارٹی یا اپنی ذات کے لیے کام کرتے دکھ رہے ہوں، ہمیں سرکار کی دروغ گوئی اور غلط بیانی کوٹھکرا دینا چاہیے؟ کیا ہمیں اپنے مضامین اور پروگرامس میں آنے والے انتخابات کا ہوّا کھڑا کرنے کے بجائے، اس پر اور توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے کہ ہندوستان مستقبل قریب میں یا طویل مدت کے لیے دہشت گردی کے سائے سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟

ان سوالات کے جواب عام یا سہل نہیں ہیں۔ یہی کافی ہے کہ ہم ان کے تئیں بیدار ہیں اور ان کا سامنا اپنے ذاتی میلان و شعور کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اپنی زمین، تہذیب، وطن اور ہم وطنوں سے محبت کا جذبہ فطری اور قابلِ ستائش ہے۔ ایسے میں جبکہ ہم سب جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہونا چاہتے ہیں،  باوجود اس کے ادیب کبھی بھی کسی لیڈر، پارٹی یا سرکار کا ڈِھنڈورا پیٹنے والے نہیں ہو سکتے۔

(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)