26 فروری کے فضائی حملے نے سارے حساب کتاب اور معاملات بدل ڈالے ہیں۔ ایک پر امید کانگریس اب پھر اگلے پانچ سالوں کے لیے حزب اختلاف کی نشستوں پر نظر ڈال رہی ہے۔
پاکستان کے اندر تک گھس کر ہندوستانی فضائیہ کی کارروائی اور اب ابھینندن کی واپسی کے بعد ملک کی حزبِ اختلاف نے نریندر مودی کی قیادت والے این ڈی اے کے خلاف اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلیاں شروع کر دی ہیں۔ اپنی انا یا خود کو آگے رکھنے کے بجائے اب تمام اشتراک اور سمجھوتوں پر پھر سے کام شروع ہو گیا ہے۔ خاص طور سے اتر پردیش، دہلی، ہریانہ، پنجاب میں حزبِ اختلاف کو خاصی مشقت کا سامنا ہے، کیونکہ یہاں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی جیت کا امکانات کافی بڑھ گئے ہیں۔ اس میں اس بات پر خاص غوروخوض کیا جا رہا ہے کہ جموں وکشمیر سے گجرات تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں کے مقابلے ایک ہی مشترکہ امیدوار ہو۔ کیونکہ اس پورے بیلٹ میں 273 سیٹیں ہیں جن میں سے این ڈی اے کے پاس 220 سے زیادہ سیٹیں ہیں۔ حزبِ اختلاف کی پارٹیاں امید کر رہی تھیں کہ اس بار این ڈی اے کو 100 سیٹوں کے آس پاس روک دیا جائے گا مگر 26 فروری کو ہوئے سرجیکل اسٹرائیک نے پورا سیاسی منظرنامہ تبدیل کر دیا ہے۔
اس کے بعد ذاتی اور اجتماعی طور پر کانگریس، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، عآپ یا غیر این ڈی اے اتحاد میں شامل کوئی بھی پارٹی ہو، وہ سمجھ گئی ہے کہ پاکستان پر کارروائی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایکدم زبردست بڑھت دے دی ہے۔ 2019 میں ہونے والے عام انتخاب کا اعلان ہونے میں بمشکل ایک ہفتے کا وقت ہوگا، جبکہ حزبِ اختلاف کی صفوں میں دہشت کی حد تک بے چینی پائی جا رہی ہے۔
دوسری پارٹیوں کی بہ نسبت کانگریس اس ماحول کو لے کر زیادہ فکرمند ہے۔ ابھی تک اس نے ہندوستانی فضائیہ کے ذریعے پاکستان کے اندر جا کر جیشِ محمد کے ٹھکانوں پر حملوں کا کھلے دل سے استقبال کیا ہے۔ لیکن بہت گہرے کہیں کانگریس اس تمام معاملے میں بی جے پی کو ہونے والے بھاری فائدے پر غوروفکر کر رہی ہے۔ پارٹی کو اس وقت سب سے زیادہ فکر تو اپنی ہائی پروفائل جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا کے سیاسی کیریئر کی ہو رہی ہے، جنہیں اس چناو میں “گیم چینجر” مانا جا رہا تھا۔ لیکن اب پچھلے پندرہ دنوں یعنی 14 فروری کو پلواما پر ہوئے دہشت گرد انہ حملے کے بعد سے نہ کیمرے کے سامنے بیان ہیں، نہ عوامی جلسوں میں تقریریں یا کوئی پریس کانفرنس، جو انہیں چیلینجر کی طرح پیش کریں۔ کانگریس میں اندرونی دخل رکھنے والے مانتے ہیں کہ واقعی یہ وقت مشکل ہے اور “مشن پرینکا” کی چمک ماند پڑ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مودی سیاست میں اتنے ایماندار ہیں کہ وہ اپنی ’عیاری‘ کو بھی نہیں چھپاتے…
فی الحال بی جےپی یا اس کی اتحادی پارٹیوں کے امیدواران کے بالمقابل ایک ہی طاقتور امیدوار کھڑا کرنے کی باتیں کہنے میں آسان ہیں، ان پر عمل بہت مشکل ہے۔ بنگال میں ہی دیکھیں تو ممتا بنرجی یا بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ ابھی تک کوئی اشتراک نہیں ہو پایا ہے۔ اس سے بھی بری حالت اُڑیسہ میں ہے، جہاں کانگریس اور نوین پٹنایک کی قیادت والے بیجو جنتا دل میں اتحاد کے امکانات نہیں کے برابر ہیں۔ آندھر پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی اور کانگریس کو، گزشتہ دنوں تلنگانہ میں ہوئے ودھان سبھا الیکشن کے لیے کیے گئے گٹھ بندھن سے ملے زخم ابھی تک سہلانا پڑ رہے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اتر پردیش یا دہلی کے بر خلاف ان ممکنہ اتحادیوں میں سے کسی نے بھی کانگریس کی جانب ہاتھ بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔
اتر پردیش میں بھی اس اتحاد کی کہانی ادھوری ہی ہے۔ یہ ایک کھلا بھید ہے کہ بی ایس پی سپریمو بہن مایاوتی یو پی میں کانگریس کا استقبال کرنے کے قطعی موڈ میں نہیں ہوتیں۔ اس کے بدلے میں کانگریس کے سامنے اپنے اثر و نفوذ والی ریاستوں جیسے مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، پنجاب اور مہاراشٹر وغیرہ میں ایس پی بی ایس پی کو سیٹیں دینے جیسا ناگوار مرحلہ ہے اور پارٹی وہاں انہیں کوئی خاص اہمیت دینے کو راضی نظر نہیں آتی۔
یہ بھی پڑھیں: پرینکا گاندھی کو آپ کتنا جانتے ہیں؟
ان دونوں محاذوں کے پاس مضبوط تنظیمی نیٹ ورک، الیکشن میں کام کرنے والے مؤثر کارکنان اور جیتنے لائق امیدوار ہیں، جن کے بدلے میں انہیں آبرو بچانے کے لیے اتر پردیش میں سیٹوں کا بٹوارہ کرنا ہے۔ اتر پردیش میں باہم متضاد اس معاملے میں غیر بی جے پی اتحاد کے امکانات زیرو فیصدی سے سو فیصدی تک ہیں۔
گویا جہاں چاہ وہاں راہ والا معاملہ ہے۔ اگر ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس کھلے دل سے مل بیٹھ کر، اچھے امیدواروں کا انتخاب کر لیں تو صوبے کی 80 سیٹوں کا مناسب بٹوارہ کرنے میں انہیں زیادہ مشکلات نہیں آئیں گی۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں سونیا گاندھی اپنی ساکھ کا استعمال کر سکتی ہیں۔ احمد پٹیل اور اے کے انٹونی ان کی زیر نگرانی سیٹوں کا بٹوارہ کر سکتے ہیں۔
اس حساب کتاب میں کانگریس کے کام ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ایک بے حد متاثرکن روڈ شو کے بعد پرینکا اور جیوترادِتیہ سندھیا نے مسلسل 2000 با اثر رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس کے لیے انہوں نے 72 گھنٹے (ایک اندازے کے مطابق اس دوران صرف 7 گھنٹے آرام کے رہے) صرف کیے۔ اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ قدیمی عظیم پارٹی بی جے پی کا نہ صرف اچھے سے مقابلہ کر سکتی ہے بلکہ خود کو اس کے قومی متبادل کے طور پر بھی پیش کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا ہماری فوج کا استعمال ایک خاص سیاسی پارٹی کے مفادات کے لئے کیا جا رہا ہے؟
اس میں اتحاد ہونے کے امکانات کم ہیں، البتہ ذاتوں کی بنیاد پر بنی چھوٹی پارٹیوں کو ضرور ٹٹولا گیا۔ لیکن 26 فروری کے فضائی حملے نے سارے حساب کتاب اور معاملات بدل ڈالے ہیں۔ ایک پر امید کانگریس اب پھر اگلے پانچ سالوں کے لیے حزب اختلاف کی نشستوں پر نظر ڈال رہی ہے۔ شہادت کی اس بازی نے مودی کو واپسی کا آسان راستہ دے دیا ہے اور مخالفین کے پاس انتظار کرنے کی عیاشی کا وقت نہیں ہے۔
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )
Categories: فکر و نظر