2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔
ماہر سیاسیات اسٹیون ول کنسن نے 2008 میں ایک مضمون لکھا تھا -آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمان؛ اس میں انہوں نے نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ‘ہندوستان اور ہندوستان کے 13 کروڑ مسلمانوں کے لیے یہ اچھی خبر ہےکہ ہندو راشٹروادیوں کے ذریعے ایک ہندو راشٹر کے قیام کی کوشش کے بیچ کئی ایسے عوامل حائل ہیں، جن کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو مستقل دوسرے درجے کا شہری نہیں بنا سکتے۔ ان میں پہلی وجہ عوام الناس کے بیچ کی جانے والی رائے شماری ہے، جو یہ بتاتی رہتی ہے کہ دو تہائی سے زیادہ ہندوستانی اس خیال کی نفی کرتے ہیں اور وہ تکثیریت کو پسند کرتے ہیں۔ دوسرا اقتدار پر قابض رہنے کے لیے اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے کی سیاستدانوں کی قوت پر ہندوستان کی مضبوط عدلیہ اور سول سوسائٹی کی سخت گرفت ہے۔
تیسرا 1980 کے اوائل سے شروع ہوئی ووٹوں کے لیے بھاری رسہ کشی مسلمانوں کے حق میں ہے، کیونکہ مسلم ووٹ کے لیے پارٹیوں میں جاری مقابلہ آرائی نے مسلم ووٹس کے لیے بھی مقابلہ آرائی کی صورت پیدا کر دی ہے۔’ایک ہفتہ اگر سیاست میں ایک طویل عرصہ ہوتا ہے تو ایک دہائی کسی ملک کی حیات میں جاودانی ہوتی ہے۔ 2008 میں پروفیسر ول کنسن اگر ہندوستان میں تکثیری اقدار کے پھلنے پھولنے کے لیے موزوں ماحول دیکھ رہے تھے تو 2019 میں اس بابت اتنا پر امید ہونا ناممکن ہے۔
ہندوستان میں تکثیریت کی بقاء کو لے کر اس طرح مایوس ہونے کی پہلی وجہ تاریخ میں موجود یہ سبق ہے کہ جب بھی یہ اقتدار کو متاثر کرنے لگتی ہے تو ایک پرعزم اور مستقل مزاج اقلیت ہمیشہ ایک کمزور اور متذبذب اکثریت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ 1917 کے بعد روس میں یہی ہوا تھا، جب لینن اور اسٹالن نے ان لوگوں کو بالشیوک بربریت کا شکار بنانا شروع کر دیا تھا، جو اسے نہیں چاہتے تھے۔ 1933 کے بعد جرمنی میں بھی یہی ہوا تھا۔ہندوستان میں 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے واضح اکثریت (کل ووٹوں کا 31 فیصد) حاصل کرنے کے بعد ہندو تفاخر اور ہندو بالادستی کے ایجنڈے کو عمداً آگے بڑھایا۔
پچھلے چند سالوں کے دوران ہندوستان نے عوامی مباحث کی ایک غلیظ شکل دیکھی۔ ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن نے اسے محسوس کرتے ہوئے لکھا کہ جو لوگ متعصب ہندووں کے خیالات سے متفق نہیں تھے، کیسے اس زہریلے طبقے نے؛ انہیں ڈرا دھمکا کر، ان پر حملے کر کے قوم کی ‘رگوں میں گندگی’ بھر دی۔ عام چناؤ کے دوران شمالی ہندوستان کے دیہی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے رپورٹر ایم این پارتھ نے ان علاقے کے کئی ہندوؤں میں ایک غیر واجب اسلاموفوبیا بڑھا ہوا پایا۔ انہوں نے لکھا کہ ‘بی جے پی نے اپنی بات لوگوں کے ذہن میں بٹھانے کے لیے سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال کیا۔’نیز یہ کہ ‘اس نے اکثریت کو مظلوم ٹھہرا کر اسے غیر محفوظ اور شکی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی۔’ انہوں نے یہ بھی پایا کہ’بے چین کر دینے والا میرا مشاہدہ یہ بھی ہے کہ زمینی سطح پر پرجوش ہندوؤں کی اکثریت، مسلمانوں پر ظلم کو جائز سمجھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ لنچنگ کے سنگ دلانہ واقعات بھی ان کی نظر میں ٹھیک ہیں۔ ویسے ہر کوئی نہیں چاہتا کہ مسلمانوں کو اس طرح مارا جائے، لیکن بہتوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔’
ہندوستان میں تکثیریت کو لے کر قنوطی ہونے کی دوسری وجہ عدلیہ کا اس طرح مضبوط نہیں رہ جانا ہے، جس کی امید کوئی معقول شخص کرتا ہے (یا 2008 میں پروفیسر ول کنسن نے کی تھی۔) شمالی ہند کے کئی صوبوں کی پولیس اس معاملے میں لاپرواہ؛ کہا جاتا ہے کہ پوری طرح متعصب ہے۔ یہ صحیح بھی ہے کہ جب ایم ایل اے، ایم پی ، یہاں تک کہ مرکزی وزراء بھیڑ کے تشدد کے ملزمان کا کھلے عام استقبال کریں، تب پولیس اور نچلی عدالتوں کا انصاف کے حق میں فوری اور غیر جانب داری سے کارروائی کرنا مشکل ہی ہوگا۔ ایسے ماحول میں معصوم مسلمانوں کے چند، محض چند ہی قاتلوں کے خلاف مقدمے چلے اور انہیں ان کے جرم کی سزا دی گئی۔
ہندوستان میں تکثیریت کو لے کر مایوسی کی تیسری وجہ جہاں تک ہمارے ملک کی دو بڑی پارٹیوں کا سوال ہے، اب ان میں ‘مسلم ووٹوں کے لیے مقابلہ آرائی‘ کا فقدان ہونا ہے۔ 2014 کے عام انتخاب میں نریندر مودی کا نعرہ ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ کم از کم نظریاتی سطح پر ہندوؤں کے ساتھ ہی مسلمانوں سے بھی ووٹ کے لیے اپیل تھی۔ لیکن 2019 میں بی جے پی کی مہم خصوصی طور پر ہندو اکثریت کے لیے ہے۔ پارٹی ان کے خوف اور عدم تحفظ کے احساسات کو بنیاد بنا کر ووٹ مانگ رہی ہے۔ اسی لیے امت شاہ مسلمانوں کو ‘دیمک’ بتا چکے ہیں، آدتیہ ناتھ بجرنگ بلی کو علی کے بالمقابل کھڑا کر چکے ہیں اور مودی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ مغربی بنگال میں ہندو ‘جئے شری رام‘ کا نعرہ بھی بلند نہیں کر سکتے۔
اس بیچ کانگریس خود کو ایک ‘ہندو’ پارٹی بتانے میں آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ پھر چاہے وہ راہل کا خود کو شو بھکت بتانا ہو یا جنیو دھاری ہندو، یا پھر مشرقی ہند میں نو منتخبہ کانگریس حکومتوں کے ذریعے گئو شالائیں بنوانے کی بات۔ ہندو ووٹ کے لیے بی جے پی کانگریس کے بیچ مقابلہ آرائی بھوپال پارلیامانی حلقے کے لیے ہو رہے انتخاب میں بھی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں بی جے پی کی طرف سے ہندوتو کی فائر برانڈ پرگیہ ٹھاکر کی نامزدگی کے ساتھ ہی کانگریس کے نامزد امیدوار دگوجے سنگھ بھی پوری طرح ہندو شناخت کی طرف پلٹ گئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے گھر میں سات مندر ہیں، جن میں سے چار میں اکھنڈ جیوت جلتی رہتی ہے۔ مختلف قسم کے بابا لوگوں کو انہوں نے ہون کے لیے بلایا اور کئی تو کانگریس کی ریلی سے خطاب بھی فرما رہے ہیں۔ حالانکہ دگوجے سنگھ اپنے طویل پارلیامانی نیز بطور وزیر اعلیٰ تجربات کا ذکر کر سکتے تھے، کہ ان کی مخالف کے پاس اس قسم کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ لیکن صرف یہ جتانے کے لیے کہ وہ بھی کسی طرح پرگیہ سے کم ہندو نہیں ہیں، پوری شدت سے بھگوا ہوئے جا رہے ہیں۔
اگست 1947 میں جب ملک آزاد ہوا اور کانگریس نے اقتدار سنبھالا تو مہاتما گاندھی کی پارٹی نے مسلمانوں کے لیے بھی ہندوؤں کے مساوی حقوق کا وعدہ کیا۔ اس سرکار کے مقاصد اور نظریات اس خط سے واضح ہوتے ہیں جو دسمبر 1947 میں وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو لکھا تھا۔ نہرو نے لکھا تھا کہ؛
مجھے پتہ ہے کہ ایک مخصوص معاملے میں ملک کے جذبات کیا ہیں… یہ کہ مرکزی سرکار کمزور ہے اور مسلمانوں کی منہ بھرائی کی پالیسی پر چل رہی ہے۔ یہ یقیناً ایک فضول بات ہے۔ سرکار کی کمزوری اور منہ بھرائی جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے یہاں مسلم اقلیت کی ایک بڑی تعداد ہے، جو خود بھی چاہے تو کہیں نہیں جا سکتی۔ انہیں ہندوستان میں ہی رہنا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا رد ممکن نہیں۔ چاہے پاکستان کتنا بھی بھڑکائے یا وہاں غیر مسلموں کی توہین کی جائے اور ان پر زیادتیاں ہوں، ہمیں اپنی اقلیت کے ساتھ شائستگی سے پیش آنا ہے۔ ہمیں ان کا تحفظ کرنا ہے اور ایک جمہوری سرکار میں حاصل تمام حقوق انہیں دینے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ہندوستان، ایک ہندو پاکستان نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پاکستان اگر اپنی ہندو آبادی کے ساتھ دوئم درجے کے شہریوں سا سلوک کرتا ہے، تو بھی ہندوستان اپنی مسلم آبادی کے ساتھ ہر معاملے میں مساوات کا رویہ رکھے گا۔ یہ کانگریس کے بنیادی اصول تھے، جن پر نہرو قائم تھے۔ اس سب کے باوجود کانگریس پر ‘مسلمانوں کی منہ بھرائی’ کا الزام کبھی دور نہ ہو پایا۔ یہ اس وقت مزید اہم ہو گیا؛ جب نہرو خود یکساں سول کوڈ لانے میں ناکام رہے، جس کا وعدہ دستور میں کیا گیا تھا، جب اندرا گاندھی وقت وقت پر اماموں سے اپیل کرتی رہیں کہ وہ مسلمانوں کو کانگریس کو ووٹ دینے کو کہیں، جب راجیو گاندھی شاہ بانو کیس میں ملا مولویوں کے دباؤ کے آگے جھک گئے، جب منموہن سنگھ سے کہلوایا گیا کہ ملک کے وسائل پر –خواتین یا عام غریب غرباء کے بجائے– اقلیتوں کا ‘پہلا حق’ ہے۔
اس طرح کے اقدامات نے سب سے بڑی حریف پارٹی بی جے پی کو اس کا موقعہ دیا کہ وہ کانگریس کو مسلم منہ بھرائی والی پارٹی کے طور پر پیش کر دے۔ یہ الزام کانگریس پر چپک کر رہ گیا؛ اسی بناء پر 2014 کے عام چناؤ میں کراری شکست کا سامنا کرنے والی کانگریس اس الزام کو دھونے کی کوشش میں دن رات ایک کرنے لگی۔ اس جدوجہد میں وہ دوسری انتہا کی جانب چل نکلی۔ اب کانگریس خود کو ہندوؤں کی بی جے پی سے بھی بڑی پارٹی بتانے میں جٹ گئی۔
اس لیے جمہوریہ ہند اب مزید ‘ہندو’ ملک ہوا چاہتا ہے؛ جیسا اب اس کے شہری سوچ رہے و محسوس کر رہے ہیں، جیسا اس ملک کے افسران بالا سوچ رہے اور اس پر عمل کر رہے ہیں، جیسا اس کی بڑی پارٹیاں ووٹ کے لیے موقعے بنا رہیں اور چناؤ لڑ رہی ہیں۔ ہلکا سا تعجب اس بات پر ہے کہ وہ لوگ جو پیدائش سے ہندو نہیں ہیں یا جن کہ پرورش بطور ہندو نہیں ہوئی ہے، ان میں ایک طرح کا خوف اور احساس عدم تحفظ گھر کر رہا ہے۔ آئین میں کیا گیا تکثیریت کا عہد ابھی بھی موجود ہے؛ لیکن حقیقت میں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں اکثریت کا حکم چل رہا ہے۔ ہندوستان ابھی ایک ہندو پاکستان نہیں ہوا ہے؛ اپنے قیام کے بعد سے، اب بس وہ ہوا چاہتا ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)
Categories: فکر و نظر