اخبارات کے کالم نگاروں کا موازنہ آپ نیوز چینلوں کے اینکرز سے کر سکتے ہیں کہ چینلوں کی تعداد جس رفتار سے بڑھی ہے، اچھے اینکرز کی اہمیت و مقبولیت بڑھتی گئی ہے لیکن جس طرح چینلوں پربہت سے بھانڈ اورمسخرے میڈیا کی رسوائی کا سامان کرتے ہیں، ہمارے درمیان بھی قلم کی روشنائی سے اپنی روسیاہی کاسامان کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔
صحافت بھی ایک عروس ہزار داماد ہے۔جس کو دیکھیے وہی اس وادی پرخار میں چلا آتا ہے۔ دور سے نظرآنے والی چمک دمک کس کو نہیں کھینچتی ،لیکن ان میں کتنے ہیں جو اس پیشے کی نزاکتوں، اس کے تقاضوں اور دشواریوں کو نگاہ میں رکھ کرآتے ہیں۔ بہت سے تو حادثاتی طور پر آجاتے ہیں، جیسے کسی نے ان کو دھکا دے دیا ہو اورجیتے جی کبھی اس نفسیات سے نہیں نکلتے۔ ان کےبھی دو قبیلے ہیں ایک جن کواس باوقار پیشہ کی اخلاقیات تک کاکچھ پاس و لحاظ نہیں ہوتا، دوسرے جواپنے ماحول سے دل برداشتہ رہاکرتے ہیں، مقدرکوکوستے ہیں،یہاں سے نکلناچاہتے ہیں پرنکل نہیں سکتے۔ اس لیے یہ پیشہ بدنام بھی بہت ہے۔ اس کوئلے کی کان میں کچھ ہیرے بھی ہیں اورہرزمانے میں رہے ہیں مگر بہت کٹھن ہے ڈگرپنگھٹ کی۔
ہمارے ایک دوست ہیں، خیر سے علی گڑھ اور جے این یو کے برانڈڈ پروڈکٹ ہیں؛ ڈاکٹر آف فلاسفی۔ آج کل ڈاکٹر صاحب بہت دل برداشتہ ہیں۔ کہتے ہیں اب وقت آگیا ہے جب صحافت کو الوداع کہہ دیا جائے، سرکارنے اردو اخبارات کی نسیں کاٹ دیں اور قوم کے متمول طبقے اردو میڈیا کوچندے کا دھندہ سمجھتے ہیں۔میاں!وہ صحافت ہی کیا جس کی نسیں سرکاریں کاٹ دیاکریں ۔ آپ ہی بتائیں کہ ایسی صحافت کوقوم کے لوگ کیاسمجھیں اوراس کاذمہ دارکون ہے؟ جناب کو اس کا بھی صدمہ ہے کہ کاش! تھوڑی سی عیاری، مکاری، دلالی اورچالاکی وہ بھی سیکھ پاتے۔ جی چاہتا ہے پاگلوں کی طرح بےتحاشا قہقہے لگاؤں یہاں تک کہ اس کوچے کے سارے لڑکے بالے پتھر اٹھالیں۔
حکایت ہمارے ہنسنے رونے کی
یہ کوئی آٹھ دس سال ادھر کی بات ہے ۔نئی دہلی میں ایک خصوصی ملاقات کے دوران ‘اردو ٹائمز’ نیویارک کے ایڈیٹر خلیل الرحمن نے ہندوستانی دانشوروں کو اپنے اخبار کی کاپیاں پیش کیں اور بتایا کہ یہ امریکہ کے دس مختلف شہروں سے شائع ہوتاہے اوراس کی تعداد اشاعت 12ہزار سے زائد ہے تووہاں موجود لوگ حیران رہ گئے ۔ آنکھوں کے سامنے کوئی سہ ورقی چہارورقی کشکول صحافت نہ تھا، یہ توکوئی پچاس باون صفحات کا ایک مکمل اخبار تھا، رنگین ودیدہ زیب۔ ہمارے مدیران محترم حسرت سے اس کے اوراق الٹ پلٹ رہے تھے۔ان کی آنکھیں بول رہی تھیں‘ کاش ! خود ان کو بھی ایسا ہی مکمل اور خوبصورت اخبار شائع کرنے کا اعزاز حاصل ہوتا’۔
ابھی اس پر مختلف زاویے سے تبصرے کا سلسلہ جاری تھا کہ یہ جان کر ان کی حیرانی کاکوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ یہ اخبار اپنے قارئین سے کوئی قیمت یا چندہ بھی نہیں لیتاحتیٰ کہ ان کے گھروں تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی ناشرین خودہی اٹھاتے ہیں۔ پھر جب ایک سوال کے جواب میں یہ وضاحت کی گئی کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں حکومت کسی غیر سرکاری پریس کوکوئی اشتہار یا امداد نہیں دیتی کیونکہ یہ جمہوریت کی روح کے منافی ہے، اس سےپریس کی آزادی متاثر ہوتی ہے جس کی اجازت امریکہ کا آئین نہیں دیتا توہمارے مدیران گرامی کا منھ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ابھی ہم ان کی سادہ لوحی پرمسکراہی رہے تھے کہ کولکاتہ، رانچی اور نئی دہلی سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے سن رسیدہ مدیر اعلی ایک دم پھٹ پڑے ‘‘تو پھر آپ یہ اخراجات کہاں سے پورے کرتے ہیں محترم؟’’(گویا سرکار اشتہار نہ دے تو اخبار نکل ہی نہیں سکتا ) اورمحترم ایڈیٹر نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ اس میں ساٹھ سے اسی فیصد تک اشتہارات ہیں تو ہم اپنی ہنسی روک نہ سکے۔ مگر یہ ہنسنے کا نہیں رونے کا مقام ہے۔ میں اکثر اس سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ جس دن ہماری حکومتوں نےبھی جمہوریت کی روح کوسمجھ لیا (جو امریکہ کے ‘نیوورلڈآرڈر’کےاس زمانے میں بعیدازامکان بھی نہیں) توان اخباروں کا کیا بنےگا جو سرکاری اشتہارات پرمنحصرہیں اورغازی و مجاہد بھی بنے پھرتے ہیں۔
معشوق ہزارداماد
صحافت چاہے جس قسم کی بھی ہو، بنیادی طور پر اس کی ذمہ داری اپنے معاشرے کے افراد کوبا خبر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم وتفریح ہے۔ یہ لوگوں کو معلومات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تفریح کا سامان بھی کرتی ہے اورملک و قوم کی ثقافتی وراثتیں ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ افراد اور اداروں کو ان کی حیثیت یاد دلاتے رہنا اس کے فرائض میں داخل ہےاسی لیے پریس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ۔ لیکن ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں کیا ہماری صحافت پوری مضبوطی اور ایمانداری سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟ صارفیت کی یلغار اور بازار کے پھیلاؤ کے اس دور میں اس فن شریف کو قدم قدم پرچنوتیاں درپیش ہیں مگر جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ اس کے بنیادی کردار کا تحفظ اور حقیقی منصب کی بقا ہے۔ انڈین نیوزپیپرزکانگریس کی ایک سالانہ کانفرنس میں کہاگیاکہ صلاحیتوں کی کمی اخبارات کے لیے ایک سب سے بڑی چنوتی ہے۔ بہتر پروڈکٹ پیش کرنے کے لیے زیادہ باصلاحیت افراد کی ضرورت ہے لیکن جس رفتار سے اشاعتیں بڑھ رہی ہیں اس تناسب سے باصلاحیت افراد نہیں پیدا ہورہے ہیں۔ میاں! کبھی اس پربھی ٹھندے دل سے غور کیاہے کہ صلاحیتیں پیدا نہیں ہورہی ہیں یااس کوچے میں یہ ٹھہر نہیں رہی ہیں؟ صلاحیتیں پیداتو جب ہوتی ہیں کہ آپ ان کی قدر بھی کریں۔
قارئین کا بھروسہ جیتنا پبلی کیشن کی سب سے بڑی چنوتی ہوتی ہے اور یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ آج ساری دنیا میں رو بہ زوال ہے۔ میڈیا پر لوگوں کا اعتماد کتنی تیزی سے گھٹ رہا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں ایک تازہ مطالعہ میں یہ بات سامنے آئی کہ وسط 1989ء کے54 فیصد کے مقابلے میں اب صرف 36 فیصد قارئین اخباروں کی صداقت پر یقین کرتے ہیں۔ہمارے یہاں غالباً اب تک اس نوعیت کا کوئی مطالعہ نہیں آیا۔ اگرجائزہ لیاجائے تو کیا تصویر سامنے آئے گی، اندازہ لگایا جاسکتاہے ۔
یہ کہاں ہماری قسمت
برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں کے اخبارات تاریخ کے اس نازک ترین دور میں بھی کہ جب ان کی آمدنی اور اشاعت لگاتارگھٹ رہی ہے، ارباب اقتدارو حکومت سے زندگی کی بھیک نہیں مانگ رہے ہیں۔ چونکہ ان کا انحصار سرکاری اشتہارات اور سیاستدانوں کی دلالی پر نہ پہلے تھا نہ اب ہے، قارئین کی تعداد اور بازار پر تھا، اس لیے وہ اس ہوشربا دور میں بھی، صورت حال کی سنگینی کا مقابلہ تعداد اشاعت اور معیارصحافت بڑھا کر کر رہے ہیں۔ ابھی بہت دن نہیں ہوئے کہ اوچھے حربے اختیار کرنے کی پاداش میں ‘نیوز اینڈ دی ورلڈ’ کو اپنی اشاعت معطل کر نی پڑی۔ کیا اس کی کوئی مثال ہمارے یہاں بھی ملے گی ۔ ہم بات تو اخلا ق و کردار کی کرتے ہیں لیکن رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائیں تو سینہ زوری سے کام لیں گے ۔ ہمارے یہاںشام کا اخلاق باختہ صبح ہوتے ہوتے غازی ملت بن بیٹھے گا اور کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آئے گی۔
برطانیہ کے اخبارا ت جن کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے ،آج اپنے وجود کی کڑی کشمکش میں گرفتار ہیں ۔جن اخبارات نے دور بادشاہت میں استبداد سے لوہا لیا، آزادیٔ صحافت کی جنگیں لڑیں اور دشوار ترین مالی بحرانوں کا سامنا کیا لیکن سرخرو رہے،ٹیلی ویژن کے سامنے آج ان کی تجارت ہردن سکڑتی جارہی ہے۔2004ء سے 2010 ء کے درمیان برطانیہ میں اخبارات کے قارئین میں22 فیصد کی کمی آئی اور یہ گراوٹ لگاتار جاری ہے۔یورپ و امریکہ کے شہروں میں مفت اخبارات کا رجحان اگرچہ نیا نہیں ہے۔ یہ اخبارات صرف اشتہارات کی بدولت چلتے ہیں لیکن اب ‘ایوننگ اسٹنڈرڈ’ جیسا پرانا اور معتبر اخباربھی مفت بٹنے لگا اورجب یہ اخبار مفت تقسیم ہونا شروع ہوا تواس کی اشاعت سات لاکھ سے تجاوز کر گئی اور اشتہارات سے اس کی آمدنی نے سارے ریکار توڑ دئیے۔کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے یہاں بھی اخبارات کا اصل مقابلہ ٹی وی اور انٹرنیٹ سے ہےاور ہمیں برطانیہ کے اخبارات سے سبق لینا چاہیے۔
…اوریہ مردوخی صحافت
’’نیوز آف دی ورلڈ’’،جی ہاں! ساکھ گئی تو ایک 168 سال کی سر بفلک عمارت گھڑی بھر میں زمین پر آگئی۔ اور ساکھ صرف آپ کی باتوں کی صداقت اور معلومات کے حصول کے طورطریقوںمیں ہی نہیں ہوتی، اس کی طرز پیشکش میں بھی ہوتی ہے، اسلوب نگارش،طرز بیان، زبان کے معیار، الفاظ کے انتخاب، جملوں کی ساخت،حتی کہ ان کے بین السطورمیں بھی ہوتی ہے ۔
’نیوز آف دی ورلڈ’کی اشاعت1843ء میں شروع ہوئی تھی۔یہ ملک کے محنت کش طبقات کا پسندیدہ اخبار تھا۔ 1891ء میں برطانیہ کی ایک بڑی تجارتی فرم پاپولر پریس نے اسے لاکھوں پونڈمیں خریدا۔ اس وقت بی بی سی کا بجٹ اسکی قیمت کے دسویں حصے سے بھی کم تھا۔1950ء تک اس کی اشاعت 90لاکھ کو تجاوز کرگئی۔ 1959ء میں اسے روپرٹ مردوخ نے خریدا۔ اس نے سنسنی خیزی، اشتعال انگیزی اور مفروضات کی گرم بازاری کی تمام حدیں توڑ دیں۔ نظریہ دیاکہ اب نیوزنہیں ویوز کازمانہ ہے۔ پہلے اخبارات زور دیتے تھے کہ رپورٹنگ صرف خبر کی ہونی چاہیے تاکہ قاری یا ناظرین ازخود اپنی رائے قائم کریں۔مردوخ نے یہ رجحان بدل دیا۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا،غیر اخلاقی طور طریقوں کے استعمال کا انکشاف اس کی آخری ہچکی ثابت ہوئی۔ بدقسمتی سے ہندوستان جنت نشان میں اس عبرتناک واقعہ کے کئی برس بعدبھی و ہی مردوخی صحافت چاروں کھونٹ شان دکھا رہی ہے، کس کوچنتا ہے کہ سچ کیا اورجھوٹ کیاہے۔
وکیل، مشیر،جج، ناصح اوررہنما
انیسویں صدی کے ایک عہد ساز صحافی ہنری ڈیمارسٹ لایڈنے آج سے تقریبا سواسوسال پہلے، جب جدید صحافت اپنے پر پرزے نکال رہی تھی، اپنے ایک رفیق کارسے کہا تھا:‘ینگ مین!یاد رکھوصحافی کا کام جج سے کم نہیں۔ عدالتیں صرف اورصرف شواہد کی بنیاد پرمقدمات کا فیصلہ کرتی ہیں۔ججوں کے فیصلے میں تعصب کا کوئی دخل نہیں ہوتا’۔ اوراپنے الحاج غلام سرور کہا کرتے تھے:‘صحافت اطلاعات کی فراہمی اور ان کی ترسیل، توسیع، تبلیغ اور نشرواشاعت کا فن ہے۔ صحافی کو دنیائے سیاست کا حریف کہا گیا ہے۔ وہ پیچیدہ مسائل اور اختلافات سے بھری اس دنیا میں بھی عدل و انصاف کی عدالت کے جج کی طرح کرسی جما کر بیٹھتا ہے اورفریضۂ انصاف ادا کرتے ہوئے ہر موضوع، ہر حادثہ، ہرواقعہ پر اپنا دوٹوک فیصلہ صادر کرتا ہے۔ وہ بیک وقت سماج اور قوم بلکہ انسانی برادری کا رہنما، ناصح، وکیل اور مشیر بھی ہوتا ہے’۔اپنے گردوپیش کاجائزہ مت لیجیے مایوسی ہوگی اور مایوسی کفرہے، اچھے بھلے انسان کو کافروباغی بنا دیتی ہے۔
بندگلی کے مسافر
ہم لوگ ایک بند گلی کے مسافر ہیں۔ اردو میں جب بھی صحافت کے موضوع پربات چلتی ہے، لوگ باگ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بڑی اورزندہ زبان کی صحافت پر گفتگو کررہے ہیں۔ پہلے تو وہ اس کو ہندوستان کی اردو صحافت میں محدود و محصور کرتے ہیں ، پھراردو صحافت اور مسلم صحافت میں تمیزوتفریق قائم نہیں رکھتے۔ پھراپنے شہر اوریہاں تک کہ اپنی تنگ و تاریک گلیوں میں سمٹ آتے ہیں اور ساری گفتگوکا محور ان ہی تنگ وتاریک گلیوں سے نکلنےوالے چیتھڑوں کو بنالیتے ہیں جس سے اردو صحافت کی ایک غلط اور گمراہ کن تصویر بنتی ہے۔ یہ خیال بالکل ہی نہیں رہتا کہ جنگ ، جسارت، نوائے وقت، ایکسپریس اوراخبارجہاں بھی اردو ہی کے اخبارات ہیں، جدہ ، لندن ، دبئی اور نیویارک جیسے عالمی مراکز سے بھی اردو کے اخبارات و رسائل شائع ہوتے ہیں۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ، ڈوئچے ویلے، جیو، ایکسپریس، اے آر وائی اور دوسرے چینلز اور آن لائن سروسز بھی ہمیں یاد نہیں رہتے۔ وطن عزیز میں ہی انقلاب، سیاست، منصف اورکئی دوسرے اخبارات ہیں جو ملک کی دوسری زبانوں کے اخبارات سے کئی معنوں میں بہترہیں۔ یہ دیکھےبغیرکہ دنیا میں کمیونٹی نیوزپیپر کا تصور نیا نہیں ہے ختنہ، عقیقہ اور نکاح کی خبریں شائع کرنے والے اخباروں کو پانی پی پی کر کوسا جاتاہے۔ میاں!کمیونٹی جرنلزم بھی بزنس میڈیا کا ایک بڑا شعبہ ہے، شرط ہے کہ آپ تربیت اور سلیقہ کے ساتھ بازار میں اتریں۔ اگر ان کی حالت پر آپ کا دل دکھتا ہے تو لاحاصل تنقید کے بجائے ان کو تربیت دیں اور سنجیدگی پر آمادہ کریں جوآج اردوکی ایک بڑی خدمت ہوگی لیکن کون سنتا ہے صدائے درویش ۔
بندگلی سےآگے
یہ امریکہ میں جنگ میکسیکو کا زمانہ تھا۔ اخبارات کے قارئین اس جنگ کی پل پل کی خبریں جاننا چاہتے تھے اور امریکہ کے اخبارات اس کی سعی بھی کررہے تھے لیکن خبروں کی ترسیل پر آنے والے خرچ سے پریشان تھے۔کشتی، گھوڑے اور ٹیلی گراف خبروں کی ترسیل کے رائج الوقت ذرائع تین تھے اور تینوں مہنگےتھے۔ نیویارک کے پانچ روزناموں نےباہمی تعاون کا فیصلہ کیا تاکہ یہ اخراجات بٹ جائیں۔ اس طرح 1846ء میں ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) وجود میں آئی جو آج دنیا کی ایک سب سے بڑی نیوز ایجنسی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا اردو صحافت کی دوسوسالہ تاریخ میں اس کی ایک بھی مثال ملے گی؟ کیا ہمارے اخبارات آج بھی چھوٹے یا زیادہ سے زیادہ اوسط زمرے کے اخبارات نہیں ہیں جن کو تعاون باہمی سے کام لے کرمضبوطی کے ساتھ بازار میں پیرجمانے اور آگے بڑھنے کی جدوجہد کر نے کی ضرورت اوروں سے زیادہ تھی کہ دوسری زبانوں کے اخبارات کا مقابلہ آپس میں ہے جبکہ اردو کے اخباروں کودوسری زبانوں کے اخبارات کا مقابلہ بھی کرناہے؟ لیکن اردوصحافت میں اس طرح کے تعاون کی کوئی روایت کل تھی نہ آج ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ شریک کار، ہم پیشہ یا کاروباری حریف کے بجائے مخالف اور دشمن کا سا تعلق رکھتے ہیں اس لیے یہاںنہ صالح مقابلہ ہے نہ باہمی تعاون اور نہ پیشہ ورانہ رقابت ۔
دربیان کالم نگاری
کسی نے کتنی خدالگتی بات کہی ہے‘انسان کی خود پسندی اسے اپنی ہرچیز کے ساتھ عظمت وابستہ کرنے پر مائل کرتی ہے اور خیالات اس کی اہم ترین چیزوں میں سے ایک ہیں چنانچہ انسان ان کے ساتھ بڑی آسانی اوربڑی رغبت کے ساتھ ایسا کرتا ہے لیکن یہ عظمت اسی وقت تک باقی رہتی ہے جب تک خیال انسان کے دماغ میں رہتا ہے۔ وہ جیسے ہی اس کو لکھتا ہے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجاتا ہے’۔ دراصل آپ کے خیالات کی یہ عظمت اس کے غیرواضح ہونے کی وجہ سے محسوس ہورہی ہوتی ہے، خیال واضح ہوکرسامنے آگیا تو اس کی ساری آب و تاب رخصت ہوگئی۔ اصناف صحافت میں کالم نگاری صحیح معنوں میں اپنے آپ کو لکھنے کا عمل ہے، واحد متکلم کے اظہار کا فن۔ اس لیے یہ بہت آسان بھی ہے اورنہایت مشکل بھی۔
صحافت کی اصطلاح میں اداریہ، فیچر اور کالم؛ خبر کی ہی اعلی سطحیں ہیں۔ ان میں بھی کالم زیادہ غوروفکر اور گہرے علم کا متقاضی ہے۔ اصناف نگارش میں یہ سب سے کم سن ہے۔ اس کی باقاعدہ ابتدا بیسویں صدی میں ہوئی اور اردو میں اس کے آغازکا سہرا فکاہیہ انشاپردازی کے سر جاتا ہے۔کبھی حاجی لق لق اور ملارموزی جیسے بذلہ سنج انشاپرداز ہی اس فن کے بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ سنجیدہ کالم نگاری کی ابتدا یہاں اوربھی دیرسے ہوئی لیکن ہوئی توخوب ہوئی۔ خبروں کا حصول جیسے جیسے آسان اور اس کے ذرائع جتنے عام ہوتے گئے، کالم نگاروں کی ضرورت و اہمیت بڑھتی گئی۔ اخبارات کے کالم نگاروں کا موازنہ آپ نیوز چینلوں کے اینکرز سے کر سکتے ہیں کہ چینلوں کی تعداد جس رفتار سے بڑھی ہے، اچھے اینکرز کی اہمیت و مقبولیت بڑھتی گئی ہے لیکن جس طرح چینلوں پربہت سے بھانڈ اورمسخرے میڈیا کی رسوائی کا سامان کرتے ہیں، ہمارے درمیان بھی قلم کی روشنائی سے اپنی روسیاہی کاسامان کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔
خبروہ علم ہے جو ایک شخص دوسرے کو منتقل کرتا ہے اور ادراک (Perception)جب منظم ہوجائے تو اسے علم کہا جاتا ہے۔ حواس خمسہ کے ذریعے آنے والے مدرکات حسی عقل کے کارخانے میں آتے ہیں تو ان کو حس مشترک قبول کرتی ہے، خیال محفوظ کرتا ہے، واہمہ ان کے معانی اور جزئیات اخذکرتا ہے اور حافظہ ان کو اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔اس کے بعد ظاہری صورتوں اور معانی کو ملانے کا کام متصرفہ کرتی ہے۔گویا عقل اپنے پانچوں شعبوں کی مددسے نتیجہ اخذ کرتی ہے۔ مدرکہ، متخیلہ، واہمہ، حافظہ اورمتصرفہ سب ٹھیک ٹھاک کام کرے توعلم حاصل ہوتا ہے ورنہ بارہا آپ کا ادراک خیال یا واہمہ کی منزل میں ہوتا ہے اور آپ اس کو علم سمجھ لیتے ہیں اوراسے دوسروں تک منتقل کرنے کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں۔یہ نفس(Mind) کا وہ دھوکہ ہے جس سے انسان کو بچنا چاہیےاور اسے تو اوربھی زیادہ جس پرمعلومات کو اوروں تک منتقل کرنے کی ذمہ داری ہے ۔ غلطی سے بچنے کی شعوری کوشش ہی دانشمندی (Wisdom) کی ابتداہے۔
انسان ایک ایسا جاندارہے جو ہرچیز کے ہونے کی وجہیں جاننا چاہتا ہے(Man is a reason seeking animal) اورجان لینے کے بعد وہ اس علم کودوسروں تک منتقل کرنا چاہتا ہے، صحافت کے سارے کاروبار کی بنیاد انسان کی یہی نفسیات ہے۔ انسانوں کی اکثریت منظم انداز میں سوچنے (Organized thinking ) یاادراکات کومنظم کرکے دیکھنےکی اہل نہیں ہوتی۔ لکھنے کی مشق انسان کے سوچنے کے عمل کو منظم اور مربوط کرتی ہے اور انسان دیر تک اور دور تک سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسےریزہ خیالی سے نجات مل جاتی ہےلیکن خیالات ذرا گہرے اور سنجیدہ ہوجائیں تو مواد اور زبان کی ہم آہنگی اور دشوار ہوجاتی ہے،پھروہ مرفوع القلم نہیں رہ جاتا۔ میر، غالب اور اقبال کی عظمت صرف یہی نہیں ہے کہ ان کے پاس خیال اور تجربہ بڑا ہے بلکہ ان کا فن مواد اور زبان کی کامل ہم آہنگی کا عکاس ہے۔شاعری کی طرح نثر میں بھی زبان اور اسلوب کی اہمیت کم نہیں۔ یہی وہ نکتہ ہےکہ جس کوپالینے والے کالم نگار اخباروں کی ضرورت اور پہچان بن جاتے ہیں۔
…اوریہ جو’ فکرفردا‘ہے
قلم اٹھانے کا ہوش آیا تو فضا میں بعض اخبارات و رسائل کے کالموں کی گونج دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غلام سرور‘سنگم’ میں ‘پہلا کالم’ لکھنے لگے تھے اور‘جنگ’ لاہور کے ایڈیٹرارشاد احمدحقانی نے ‘حرف تمنا’ شروع کیا تھا، فکر تونسی کا ‘پیاز کے چھلکے’ ،مشفق خواجہ کا ‘خامہ بگوش’ ، ارشدالقادری کا ‘تعزیرات قلم’، ابن العرب مکی کا ‘مسجد سے میخانے تک’ اوراس نوع کے دوسرے کالموں کے تذکرے پڑھنے لکھنے والوں کی زبانوں پر عام تھے۔ کلدیپ نیر کے ’ بین السطور ‘اورخوشونت سنگھ کے ‘ کاہوسے دوستی نہ کاہو سے بیر’ کا ہفتے بھر انتظار کیا جاتا تھا۔ جعفرعباس کا ‘آئینہ’ اور محمداسدکا ‘تھپڑاخیں’ مزے لے لے کے پڑھے جاتے تھے۔ ایک دور افتادہ و پسماندہ گاؤں کایہ لڑکا اخباروں کے لیے کب اور کیسے قلم اٹھانے لگااورکب اپنے گردوپیش سے نکل کر دور دراز علاقوں میں جانا جانےلگا، اس کا تواس وقت اسے کچھ خاص ادراک نہ تھا لیکن برسوں بعد جب اس نے اپنے ایک دوست کی تحریک واصرار پر اس شوق کو پیشہ بنالیا تو ذہن و شعور میں دوباتیں نقش تھیں، ایک تو یہی کہ صحافت کار طفلاں نہیں ہے اور دوسری ’حرف تمنا’ اور‘بین السطور’ جیسے کالموں کے مصنف اس فیلڈ کے دلیپ کمار ہیں۔
سنجیدہ کالم نگاری گرچہ ہماری صحافت میں ایک نیا رجحان تھی لیکن اب یہ اتنی نئی بھی نہیں رہ گئی تھی۔ اس کی پائدار افادیت و مقبولیت نے عام قارئین کو ہی نہیں لکھاریوں کی ایک فوج کوبھی متوجہ کیا، وہ ان کی نقل کرنے لگے، عام تبصرے ، تجزیے اور مضامین بھی مستقل عنوانات سے شائع کیے جانے لگے۔ ہر ایراغیرا ہفتے میں کوئی دن مقرر کرکے لکھنے لگا،یہاں تک کہ اخباروں میں بروقت اچھےمضامین کی گنجائش بہت کم رہ گئی کہ بہت سے نام نہادکالم نگاروں نے جگہیں گھیررکھی تھیں۔ ‘فکرفردا’ کا سلسلہ شروع ہوا تو دہلی سے سرینگر، لکھنؤ، بھوپال، پٹنہ اور کلکتہ تک شمالی ہند کےاردو اخباروں میں اداریہ اور کالم کی روایت دم توڑ چکی تھی۔ اداریہ میں پرانی خبریں’ری پروڈیوس‘ کردینے یا ہندی انگریزی اخباروں کے اداریوں کو اپنی زبان میں اور اپنی سطح پر اتاردینے کو کافی سمجھا جاتا تھا ، کلدیپ نیر اور ایم جے اکبر جیسے کچھ بڑےصحافیوں کے ہندی یا انگریزی میں تحریر کردہ کالموں کے ترجمے ضرور کرائے جاتے تھےلیکن ترجمہ میں تحریر کی روح کب برقرار رہ سکتی تھی اور اس کا کس کو خیال تھا۔ دوسرے لکھنے والے بھی زیادہ تر وہی کررہے تھے جومدیران گرامی اپنے اداریے میں کرتے تھے۔ ہاں، کچھ غیرملکی مصنفین کی تحریریں اورممبئی یاحیدرآبادکے اخباروں کےبعض کالموں نے اردوصحافت کی لاج بچائی ہوئی تھی جویہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ بلاحوالہ نقل کرتے اور کسی کے ماتھے پربل نہ آتا۔
یہ دہلی کےجواں سال صحافیوں کا ایک مختصر گروپ تھا جو اپنے قارئین کو ایک معیاری اور قابل مطالعہ اخبار دینے کا عزم رکھتا تھا۔ خالد انور کی تحریک پر منظم ہونے والے اس کارواںمیں جو افسوس! جلد ہی بکھرگیا اورجس کے بکھرنے کا درد ہمارے دلوں سے جیتے جی کبھی نہ جائےگا، احمدجاوید بھی اپنی جملہ شرائط کے ساتھ شامل کرلیا گیا تھا۔ ’فکرفردا‘ کے ساتھ ’جہاں نما‘ (انبساط احمدعلوی)، قلم گوید(اسفرفریدی)، خامہ بکف(ارشدندیم)، شہرآشوب(خالدانور) اور کئی اور کالموںکی اشاعت شروع ہوئی۔دہلی کے معروف و مقبول کالم نگار عظیم اختر لکھنا ترک کرچکے تھے،ہم نےان کو ‘حرف نیم کش’ لکھنے پر آمادہ کیا۔ ‘ہندوستان ایکسپریس’ کا اجرا ایک سنگ میل تھا جس نےیہاں اردو کی سوتی جاگتی صحافت کو جھنجھوڑکر جگا دیا۔معاصرین میں مسابقت چھڑگئی، اداریہ کی بازیافت بھی ہوئی، کالم نگاری کا احیا بھی ہوا، تحقیقاتی رپورٹنگ بھی ہونے لگی، بائی لائن خبریں بھی آنے لگیں، نامہ نگاروں اور مصنفین کی تصویروں کا التزام بھی کیا جانے لگا اوربلاحوالہ نقل پربھی تھوڑی روک لگی کیونکہ ‘ہندوستان ایکسپریس’ بیرونی مصنفین کی قومیت، ان کی وابستگی اور اصل اشاعتوں کے نام کی وضاحت شائع کرنے لگا تھا۔مگرافسوس! خوب درخشید ولے شعلہ مستعجل۔
علوی صاحب مرحوم ‘جہاں نما’ کا سلسلہ بہ مشکل تین چار ماہ جاری رکھ سکےکیونکہ وہ جلدہی دل برداشتہ ہوکر اخبار سے علاحدہ ہوگئے تھے اورکوئی چھ ماہ بعد ان کی وفات ہوگئی، ‘قلم گوید’ اور‘خامہ بکف’ وقفہ وقفہ سے کچھ زیادہ دنوں تک جاری رہا ۔ صرف ‘فکرفردا’ اور ‘حرف نیم کش’ پانچ سال تک مسلسل بلاناغہ ‘ہندوستان ایکسپریس’ میں ہرہفتے شائع ہوا اور اس کے بعد بھی جاری ہے۔ قلم اٹھایا تھا تو شوکت تھانوی، مجید لاہوری، فکر تونسوی، ابراہیم جلیس،مشفق خواجہ،تخلص بھوپالی، ابن انشا، احمد جمال پاشا، عطاء الحق قاسمی اور مجتبیٰ حسین جیسے صحافت کی ٹکسال میں ڈھلے ادب کے سکے بھی نگاہوں میں تھے اورارشاد احمدحقانی، کلدیپ نیر، منوبھائی ، ہارون الرشیداور جاوید چوہدری بھی ۔ نہ ویسی ذہانت، حاضرجوابی اورشگفتہ مزاجی پائی تھی، نہ اتنی اچھی زبان تھی، نہ ایسا وسیع مطالعہ، گہرا علم اورقدرت بیان دسترس میں تھی ، سچ پوچھیے تو کالم نگاروں کے دونوں قبیلوں میں سے کسی بھی صف میں جگہ بنانے کے قابل نہ تھا، نہ فرصت، نہ وسائل نہ دماغ۔ قلم کے مزدوروں کی صف میں شامل ایک بےبساط قسم کے خامہ بگوش نے جوکچھ لکھا، خوان علم و ادب کی خوشہ چینی سے زیادہ کیا تھا، ماضی کے جھروکوں سے مستقبل کو دیکھنے دکھانے کی ایک اپنی سی کوشش۔مگر اس کو بھی ہماری توقع سے بہت زیادہ پذیرائی ملی، بے پناہ محبتیں، شفقتیں اوردعائیں حصے میں آئیں۔اورشایدیہ نہ ہوتا تو‘فکرفردا’ کا مصنف بھی جلد ہی تھک گیا ہوتا مگر یہ جس کو اپنی توانائی سمجھتا رہا ہے، محترمہ روحی جاوید اسے نفس کی خوراک کہتی ہیں۔ پتہ نہیں اس خامہ فرسائی میں کچھ سامان نجات بھی ہے یا صرف نامہ اعمال تو سیاہ نہیں ہورہاہے ؟
می تراشدفکرما ہردم خداوندی دگر
رست یک بندتا افتاد دربندی دگر
(مضمون نگارروزنامہ انقلاب ،پٹنہ ایڈیشن کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں ، اور یہ مضمون ان کی تازہ ترین کتاب-فکر فرداکا دیباچہ ہے)