خبریں

مرکزی حکومت نے کہا؛ میلا ڈھونے کا کام کرانے والوں کو سزا دینے سے متعلق کوئی رپورٹ نہیں

مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے نے لوک سبھا میں بتایا کہ پچھلے تین سالوں میں 88 لوگوں کی سیور یا سیپٹک ٹینک کی صفائی کے دوران موت ہو گئی۔ سب سے زیادہ 18 اموات دہلی میں ہوئیں۔

(فوٹو :جاہنوی سین / دی وائر)

(فوٹو :جاہنوی سین / دی وائر)

نئی دہلی: منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ نے منگل کو لوک سبھا میں قبول کیا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ 1993 میں اور پھر 2013 میں مینول اسکیوینجنگ (ہاتھ سے میلا اٹھانا) کو غیر قانونی قرار دینے  کے بعد بھی ابھی یہ روایت ہمارے سماج میں موجود ہے۔خاص بات یہ ہے کہ وزارت نے بتایا کہ ریاستوں یایونین ٹریٹری سے میلا ڈھونے والوں کو روزگار دینے یا اس طرح کا کام کرانے کے لئے کسی بھی شخص کو مجرم ٹھہرانے یا سزا دینے کے بارے  میں کوئی جانکاری نہیں ملی ہے۔

جھارکھنڈ کے پلامو سے بی جے پی رکن پارلیامان وشنو دیال رام کے ذریعے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر رام داس اٹھاولے نے کہا کہ ملک بھر میں کل 53398 میلا ڈھونے والوں کی پہچان  ہوئی ہے، لیکن کسی بھی ریاست یا یونین ٹریٹری سے یہ جانکاری حاصل نہیں ہوئی ہے کہ میلا ڈھونے کا کام کرانے والے کسی بھی شخص کو سزا ہوئی ہے یا نہیں۔

وزیر نے کہا کہ ‘میلا ڈھونے والے کے طور پر روزگار ممنوع اور ان کی بازآبادکاری قانون 2013 ‘ کے تحت، ضلع مجسٹریٹ یا کسی متعلقہ محکمہ کو یہ یقینی بنانا  ہوتا ہے کہ ان کے دائرہ اختیار میں کسی بھی شخص سے میلا ڈھونے کا کام نہ کرایا جائے اور اگر کوئی یہ قانون توڑتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا، ‘ ریاستی حکومتوں سے ان اہتماموں کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے اور اس سے متعلق  ماہانہ پروگریس  رپورٹ پیش کرنے کی گزارش  کی گئی ہے۔ ‘

رکن پارلیامان اسدالدین اویسی اور امتیاز جلیل کے ذریعے پوچھے گئے ایک دوسرے سوال کے جواب میں اٹھاولے نے بتایا کہ پچھلے تین سالوں میں 88 لوگوں کی سیور یا سیپٹک ٹینک کی صفائی کے دوران موت ہو گئی۔ سب سے زیادہ 18 اموات دہلی  میں ہوئیں۔انہوں نے بتایا کہ 88 مرنے والے لوگوں  میں سے 36 لوگوں کے رشتہ داروں کو 10 لاکھ کا معاوضہ حکومت کے ذریعے دے دیا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1993 سے لےکر اب تک 620 لوگوں کی سیور صفائی کے دوران موت ہو چکی ہے۔

اٹھاولے نے کہا کہ ان 620 میں سے 445 فیملیوں کو 10 لاکھ روپے کا پورا معاوضہ دیا جا چکا ہے۔ سب سے زیادہ 141 اموات تمل ناڈو میں ہوئیں ہیں۔ وہیں دوسرے نمبر پر گجرات ہے، جہاں 131 صفائی ملازمین کی موت ہوئی ہے۔حالانکہ میلا ڈھونے کی روایت کو ختم کرنے کی سمت میں کام کر رہے سماجی کارکنوں  کا کہنا ہے کہ یہ معاوضہ ناکافی ہے۔ اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ متعلقہ افسر اپنی ذمہ داری سے بچ رہے ہیں اور قانون کو صحیح طریقے سے نافذ کرنے کے لئے مناسب قدم نہیں اٹھا رہے ہیں تاکہ ان اموات سے بچا جائے۔

کارکنوں  نے حکومت کی بازآبادکاری سے متعلق حل کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار میں 40000 روپے کی نقد منتقلی یا کاروبار شروع کرنے کے لئے قرض دینے سے کوئی بھی شخص نئے سرے سے اپنی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتا ہے۔ملک بھر میں میلا ڈھونے والوں  کی صحیح تعداد کا پتا لگانے کے لئے حکومت کے ذریعے کئی بار سروے کرائے گئے ہیں اور رام داس اٹھاولے جن اعداد و شمار کا ذکر کر رہے تھے وہ 8ویں سروے پر مبنی ہے۔

آج کے دور میں بھی میلا ڈھونے کی روایت ہونے کے باوجود مقامی افسر یہ نہیں قبول کرتے ہیں کہ ان کے علاقے میں بھی میلا ڈھونے والے ہیں۔