نیشنل کمیشن فار صفائی کرمچاری (این سی ایس کے) کی رپورٹ کے مطابق، یہ اعداد و شمار صرف 8 ریاستوں اتر پردیش، ہریانہ، دہلی، پنجاب، گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک اور تمل ناڈو کے ہیں۔
نئی دہلی: نیشنل کمیشن فار صفائی کرمچاری (این سی ایس کے) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2019 کی پہلی ششماہی میں سیور کی صفائی کے دوران 50 صفائی ملازمین کی موت ہو گئی۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، یہ اعداد و شمار چونکانے والے ہیں۔ حالانکہ، این سی ایس کے کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار صرف 8 ریاستوں اتر پردیش، ہریانہ، دہلی، پنجاب، گجرات، مہاراشٹر، کرناٹک اور تمل ناڈو کے ہیں۔
حالانکہ، این سی ایس کے کا کہنا ہے کہ ان آٹھ ریاستوں نے مرنے والے ملازمین کی تعداد کم کرکے دکھائی ہے۔ صفائی ملازمین سے متعلق کمیشن کو جو اعداد و شمار ریاستوں نے دئے ہیں، انہی کو سرکاری طور پر شامل کیا ہے۔دہلی کی طرف سے دی گئی جانکاری میں اس سال ایک جنوری سے 30 جون کے درمیان مرنے والے صفائی ملازمین کی تعداد تین بتائی گئی ہے جبکہ اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
مثال کے طور پر جون میں دہلی جل بورڈ کی طرف سے صفائی میں لگائے گئے تین ملازمین کی موت کو ان اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔غور طلب ہے کہ نیشنل کمیشن فار صفائی کرمچاری ہی پورے ملک میں واحد ایسا ادارہ ہے جو ان حادثے میں مرنے والے ملازمین کے اعداد و شمار جمع کرتا ہے۔اس طرح سے اعداد و شمار جمع کرنے کے باوجود کمیشن کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 1993 سے اب تک 817 ملازمین کی موت سیور کی صفائی کے دوران ہو چکی ہے۔ 1993 سے اس سال 30 جون تک کا یہ اعداد و شمار 20 ریاستوں کا ہے۔
کمیشن نے گزشتہ ہفتے پارلیامنٹ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔ کمیشن کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت کے صاف سوکش بھارت ابھیان کو صرف ٹوائلٹ کی تعمیر تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس کے ذریعے میلا ڈھونے والے صفائی ملازمین کی بازآبادکاری بھی کی جانی چاہیے۔کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، سیور کی صفائی کے دوران مرنے والے ملازمین کی تعداد تمل ناڈو میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں کل 210 صفائی ملازمین کی موت ہو چکی ہے۔
گجرات میں مرنے والے صفائی ملازمین کی تعداد 156 ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کے بعد اتر پردیش میں 77 اور ہریانہ میں 70 صفائی ملازمین کی موت ہو چکی ہے۔ ہریانہ میں گزشتہ چھ مہینوں میں ہی 11 صفائی ملازمین کی موت ہو چکی ہے۔
سیور صفائی کے دوران مرنے والے ملازمین کی فیملی کو 10 لاکھ روپے کی رقم مدد کے طور پر دئے جانے کا اہتمام ہے۔ ہرجانہ دینے میں زیادہ تر ریاستوں کا ریکارڈ بہت خراب ہے۔ اس معاملے میں تمل ناڈو کا ریکارڈ سب سے بہتر ہے۔ یہاں 75 فیصدی فیملیوں کو امداد مل چکی ہے جبکہ گجرات میں صرف 30 فیصدی متاثر ہ فیملیوں کو ہی معاوضے کی رقم دی گئی۔
نیشنل کمیشن فار صفائی کرمچاری کےچیئر مین جالا نے ‘میلا ڈھونے والے کے طور پر روزگار ممنوع اور ان کی بازآبادکاری قانون 2013 ‘میں ترمیم کی تجویز رکھی ہے۔ اس تجویز میں ان ملازمین کو تقرری دینے والے اداروں کو ان کی اموات کے لئے ذمہ دار ٹھہرائے جانے کی بات کہی گئی ہے۔کمیشن کی رپورٹ میں ریلوے کو تنقید کا نشانہ بناکر کہا گیا ہے کہ ریلوے ہی سب سے زیادہ صفائی ملازمین کو کام پر رکھتا ہے اور مینول اسکیوینجنگ کا مسئلہ ریلوے میں سب سے زیادہ ہے۔
Categories: خبریں