مودی حکومت جمہوریت کی جن علامتوں کو سنجونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ ان کوختم کر چکی ہے۔
ان دنوں سنگھ پریوار جشن منانے کے موڈ میں ہے اور موقع ہے وزیر اعظم نریندر مودی کی دوسری مدت کار کے پہلے سو دنوں کی حصولیابیوں کا جائزہ لینے کا۔اپنے معروف فیصلہ کن فطرت کے ساتھ پریوار مطمئن ہے کہ مودی نے ہندوستان کو عظمت کے راستے پر ٹھوس طریقے سے لا کھڑا کیا ہے۔اور اپنی حصولیابیوں کے بارے میں بول تو وزیر اعظم بھی رہے ہیں۔ انہوں نےناسک میں ہوئی مہاجنادیش ریلی میں کہا، ‘ پہلے سو دنوں میں ہی ہم نے ایک صاف تصویردکھا دی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں کیا ہونے والا ہے۔ ‘
انہوں نے کشمیرکا مسئلہ ‘حل ‘کر دیا ہے، آسام سے غیر قانونی مہاجروں سےنجات پانے کا انتظام کر دیا ہے اور باقی ہندوستان کو بھی’ ن دیمکوں ‘ سے ‘چھٹکارے’ کا کام شروع کیا جانا ہے۔ اور 2025 تک ہندوستان کو 5 ٹرلین ڈالر کی اکانومی بنائیںگے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سو دن تباہ کن رہے ہیں۔ عظیم ملک بنانا تو دور کی بات ہے، اگر حال میں لی گئی سرکاری پالیسیاں بہت جلد بدلی نہیں گئیں، تو بہت ساری اٹھا پٹک، استحصال ، بغاوت کے ساتھ-ساتھ ملک کے ہی بکھر جانے کا خطرہ ہے۔
ان حالات کے پیچھے آرٹیکل 370 کو کمزور کرنے، جموں و کشمیر کی ریاست کے درجے کو ختم کرنے، آسام میں این آر سی بنانا، انفورسمنٹ ایجنسیاں، پولیس اورکمزور عدلیہ کا سوچا-سمجھا غلط استعمال ایک ایسا تانا-بانا بن رہے ہیں، جس سے ملک میں اپوزیشن کا موجودہ اور ممکنہ فوکس ہی ختم ہو جائے۔
کہنے اور کرنے میں سب سے زیادہ فرق کشمیر کی پالیسی میں دکھائی پڑ رہی ہے۔ مودی نے ناسک والی ریلی میں دعویٰ کیا، ‘ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ جموں، کشمیر اور لداخ کو متاثر کرنے والے مدعوں کو سلجھانے کے لئے ہم نئی کوشش کریںگے ہمیں اب پھر سے وہاں جنت بنانی ہے مجھے یہ کہنے میں خوشی ہے کہ ملک ان خوابوں کی تعبیر کی طرف گامزن ہے۔ ‘
انہوں نے یہ تب کہا جب امت شاہ کشمیر میں بند کو 25 دن اور جاری رکھنے کا اعلان کر رہے تھے اور ڈل جھیل کے بغل میں امن کے دنوں میں بنے ایئر انڈیا کے سینٹار ہوٹل کو عارضی جیل بناکر وہاں کشمیر کی تقریباً پوری قیادت کو بند کر دیا گیا تھا۔ کشمیر کو پھر جنت میں بدلنے کے لئے اکتوبر میں ہونے والی سرمایہ کاروں کی کانفرنس اسی وقت غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی گئی تھی کیونکہ کوئی اس میں حصہ لینے کو تیار ہی نہیں تھا۔ تو وزیر اعظم جی، آپ کیسے ہر کشمیری کو ‘گلے لگانے ‘ اورکشمیر کو ‘ اس سرزمین کی اس جنت میں بدلنے والے تھے، جو وہ کبھی ہوا کرتی تھی؟
کیا ایسا کشمیریوں کی زبان بند کرکے، ان کی بات چیت اور ملنے-جلنے کی سہولیت چھینکر اور ان کو مویشیوں کی طرح ہانککر کیا جا سکتا تھا؟ مانتا ہوں، یہ تھوڑا تلخ لہجہ ہے، پر کوئی اور تفصیل اس کارروائی پر فٹ ہی نہیں ہوتی، جو حکومت نےوادی میں کشمیریوں کے ساتھ کی ہے۔پیدائشی طور پر ، جانوروں کی دنیا میں ہمارے قریب ترین بھائی چمپنزی ہیں۔انہی کی طرح ہم بھی کمیونٹی میں میل جول کے ساتھ رہتے ہیں اور انہی کی طرح ہم اپنا ہونا آپس میں بےروک ٹوک بات چیت کے ذریعے دکھاتے ہیں۔ کشمیریوں سے یہ بنیادی حق مودی حکومت نے چھین لیا اور ایسا کرکے ان کو ان کی انسانیت سے محروم بھی کیا۔
اور یہ ایک ایسی بات ہے، جو کسی بھی اور انسانی کمیونٹی کی طرح، کوئی بھی کشمیری نہ لمبے وقت کے لئے برداشت کرےگا، نہ بھول سکےگا۔ ہندوستان میں کشمیر کولےکر بحث اس تنازعہ میں الجھاکر پٹری سے اتار دی گئی کہ کشمیریوں کی آزادی کس حدتک چھینی گئی ہے۔اس سے حکومت نے میڈیا میں اپنے حزب میں دنیا بھر کی باتوں سے بھر دیا اورجو جہاں بھی اس سے متفق نہیں ہوا، ان کو پہلے تو ملک مخالف کہا گیا اور پھر حیرت انگیز طور پر پاکستان حامی بھی۔
ہیومن رائٹس کمیشن اس دوران لگاتار خالی اسکولوں، بند دکانوں، رات بے رات لوگوں کے گھروں میں چھاپوں، نوجوان اور نوعمر لڑکوں کی گرفتاریوں، نوجوان طبقے میں ذہنی کشیدگی بڑھنے کے معاملوں اور بیمار لوگوں کو ضروری صحت خدمات نہ مل پانے کےبیسیوں ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ سب جتنا بھی خوفناک ہو، کشمیریوں سے انسان ہونے کا درجہ ہی چھین لینےکے سامنے بونا ہے۔ ایسا کرکے مودی نے وہ بنیادی تار ہی کاٹ دیا، جو کشمیر کوہندوستان سے جوڑکر رکھتا ہے۔ ان کی اور ہماری انسانیت کی۔
ان کی حکومت اسی غفلت میں اگر لگی رہی تو ظاہر ہے ایسا کرنے میں وہ کامیاب ہو جائےگی، جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور وہ ہے ہر کشمیری کو ہندوستان سےالگ ہونے کے فیصلے کو اور پکا اور منظم کرنا، بھلےہی اس کی جو بھی قیمت ہو، اوراس میں جتنا بھی وقت لگے۔ حکومت کی دوسری منصوبہ بند کوشش یہ بھی ہے کہ ملک کو ایسے حالات کی طرف لےجائے، جس سے نپٹا ہی نہ جا سکے۔ اور وہ ہے ہندوستان سے سارے غیرکانونی مہاجروں کوباہر کرنے کا فیصلہ۔
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حکومت کو دوسرے ممالک سے آئے غیر قانونی مہاجروں کی طرف سے آنکھ بند کر لینی چاہیے۔ ساتھ ہی، کوئی اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پچھلے 70 سالوں میں آسام میں باہر سے بہت سے مہاجر آئے ہیں، نہ صرف بنگلہ دیش سے،بلکہ بنگال اور نیپال سے بھی۔
دھماکہ خیز حالت بننے تک کانگریس کی حکومتیں بھی ہاتھ پر ہاتھ تھامے لمبےوقت تک بیٹھی رہیں۔ تب کہیں جاکر راجیو گاندھی کی عقل مند پہل سے اس کے بےقابو ہونےسے روکا جا سکا۔لیکن جس مسئلہ سے ساری سرکاری جوجھتی رہی ہیں، اس کا حل این آر سی سے نہیں نکالا جا سکتا۔اور وہ مسئلہ ہے کہ آپ ان مہاجروں کے ساتھ کیا کریںگے، جو آپ کے ملک میں کافی پہلے آئے اور اپنی زندگیاں بنا اور دنیا بسا چکے ہیں۔ امریکہ میں ایک کے بعد ایک حکومتوں نے ان کو شرطوں کے ساتھ قانونی پہچان دی، موجودہ صدر ٹرمپ کے آنے تک، کسی نے یہ نہیں سوچا کہ امریکہ میں پیدا ہوئےمہاجروں کے بچوں کو تعلیم اور روزگار کے ان حقوق سے محروم کر دیا جائے، جو باقی امریکیوں کے ہوتے ہیں۔اس مسئلہ کی تشخیص اندرا گاندھی نے 1983 میں غیر قانونی مہاجر شناختی قانون لاکر کی تھی۔ اس سے قانون میں ایک بڑی رکاوٹ کو ٹھیک کیا گیا تھا۔ اس کےمطابق شہریت کے ثبوت کی ذمہ داری ملزم کی نہیں بلکہ الزام لگانے والے پر تھی۔
اس کے ذریعے اس زمرہ کے مہاجروں کو پریشان کرنے پر بھی کئی طرح کی روک لگائی گئی تھی، جیسے الزام لگانے کے لئے ضروری تھا کہ الزام لگانے والا ملزم سےتین کیلومیٹر کے دائرے میں ہو اور ملزم اپنے قانونی ہونے کا ثبوت راشن کارڈ دکھاکردے سکتا تھا۔ یہ قانون سپریم کورٹ نے 2012 میں جس اپیل پر رد کیا، اس کو اور کسی نے نہیں بلکہ آسام کےموجودہ وزیراعلیٰ سربانند سونووال نے داخل کیا تھا۔ اسی کے اگلےسال کورٹ نے 1951 میں پہلی باربنائے گئے این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کا حکم بھی سنا دیا۔
اس ہتھیار سے لیس ہوکر مودی حکومت نے آسام میں این آر سی کو اپ ڈیٹ کرناشروع کیا۔ اور جو طریقہ اپنایا گیا، وہ تباہ کن تھا۔ 1983 کے قانون کو ختم کرنے کے بعدبنگلہ دیش کے بننے کے وقت وہاں سے آئے لوگوں کو روکنے کے لئے حکومت نے تقسیم سےپہلے انگریزوں کے ذریعے 1946 میں بنائے گئے فارنرس ایکٹ کا سہارا لیا تھا۔ اس قانون میں اپنی شہریت ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم کی تھی۔ نتیجتاً آسام کے 3.3 کروڑ لوگوں کو ایک یا زیادہ کاغذات پیش کرکے یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ ریاست کے غیر قانونی باشندے نہیں ہیں۔ ریاست کی تقریباً آدھی آبادی پر یہ تلوار لٹکی۔
آسام میں این آر سی کا پہلا ڈرافٹ 2014 میں آیا۔ اس میں 3.2 کروڑ آبادی میں سے 1.3 کروڑ (پانچ میں سے دو لوگ)اس فہرست میں نہیں تھے۔ ان 1.3 کروڑ لوگوں کےلئے پچھلے چار سال کشیدگی اور تکلیف سے بھرے رہے۔ ان کاغذ کے ٹکڑوں کی تلاش کرتے ہوئے جو گم یا خراب ہو گئے، سرکاری دفتروںمیں دوڑ بھاگ کرتے ہوئے، وقت اور پیسہ خرچ کرتے ہوئے اور بے چین-پریشان ہوتے ہوئے۔آخری رجسٹر اس تعداد کو 40 لاکھ تک لےکر آیا یعنی آسام کا ہر آٹھواں شخص باہری ہے۔ گزشتہ سال اپیلوں کی سماعت کے بعد یہ تعداد 19 لاکھ پر کھسکی۔ اس پوری کارروائی میں آسام کے لوگ، خاص طور پر غریب جس کشیدگی سے گزرے ہیں، اس کے بارے میں سوچ پانابھی مشکل ہے۔ رجسٹر میں نام نہ آنے پر درجن سے زیادہ لوگوں نے خودکشی کی اور بہت سے لوگ ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔
اتنے لوگوں کو ہندوستان سے باہر کرنا تب ناممکن لگنے لگا جب بنگلہ دیش نےان کو واپس لینے سے صاف منع کر دیا۔ ایسے میں کسی بھی ذمہ دار حکومت شاید ایک بارسوچتی کہ کیا شہریت متعین کرنے والے قانون پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے، تاکہ یہ پوری کاروائی عملی اور منصفانہ دونوں ہو سکے۔لیکن مودی حکومت کا رویہ ٹھیک برعکس رہا۔ بجائے 1983 کے قانون کو تھوڑا ردو بدلکرواپس لانے کے، ہندوستان کے نئے وزیر داخلہ امت شاہ نے این آر سی کو پورے ہندوستان میں ہی نافذ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ساتھ ہی ملک کے سارے کلکٹروں کو یہ فرمان بھی جاری کر دیا کہ مستقبل میں ڈٹینشن سینٹر بنانے کی جگہ ڈھونڈنی شروع کر دی جائے۔
ایک خطرناک کھیل شروع کر دیا گیا ہے۔ ابھی تو صرف آسام میں این آر سی کااستعمال اس کی مسلم آبادی میں سے کچھ سے چھٹکارا پانے کے لئے ہونا تھا، دوسری ریاستوں میں باہری لوگوں اور ناقلیتوں کے لئے شکایتوں کی کمی نہیں۔ شاہ صاحب کیا کریںگے جب کنڑ لوگ این آر سی کے ذریعے بنگلور میں آئی ٹی، بی پی او اور دوسرے صنعتوں میں کام کر رہے شمال مشرق کے لوگوں کو باہر کرنے کی مانگ رکھیںگے؟ کیا کریںگے جب شیوسینا کہےگی ممبئی سے اتر پردیش اور بہار کےلوگوں کو باہر کرو؟
بیسویں صدی میں یورپ کی نسلی تباہی کی تاریخ نہ جاننے والے ہی ایسا سوچ سکتے ہیں کہ ایک بار شروع کر دینے کے بعد نسلی چھٹائی جب چاہے روکی جا سکتی ہے۔سرکاری پالیسی کے یہ دو پہلو ہی کافی انوکھے ہیں، لیکن جب ان کے ساتھ تیسرے کو جوڑتےہیں، تو اس سے اتنا دھماکہ خیز مکس بنتا ہے، جو ملک کو توڑنے کے لئے کافی ہے۔
اور یہ ہے مودی حکومت کے نظم و نسق اور بنیادی شہری حقوق کی کھلی توہین ۔ 2014 میں اقتدارملنے کے پہلے دن سے ہی مودی ایک سوچے-سمجھے طریقوں سے جمہوریت کے تمام اداروں کوکمزور کرتے رہے ہیں-پارلیامنٹ، ایگزیکٹیو اور عدلیہ، تاکہ سنگھ پریوار سے متفق نہیں رہنے اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو تباہ کیا جا سکے۔ اس معاملے میں یہ مصر میں محمد مورسی اور مسلم برودرہڈ سے بالکل بھی الگنہیں، جن کو بعد میں فوجی بغاوت کے ذریعے ہٹاکر عبدالفتح سیسی کو اقتدار میں لایاگیا تھا۔ ہندوستانی جمہوریت کی کمزور کڑی کو بھنانے کے لئے سرکاری حکمت عملی کاایک حزب رہا-بد عنوانی کی آڑ میں سیاسی حزب مخالف پر حملہ کرنا۔
ایسا انہوں نے اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کے خلاف کیا، پر کامیابی نہیں ملی۔ لیکن جب یہی بنگال میں ترنمول کانگریس اور آسام میں کانگریس کے خلاف کیاتو تھوڑی کامیابی ملی، جہاں کارروائی کی دھمکی اور دھونس کی وجہ سے حزب مخالف کےاہم رہنماؤں کو بی جے پی نے اپنی پارٹی میں شامل کروایا۔عآپ حکومت کو غیرمؤثر کرنے کے لئے دہلی ہائی کورٹ کی سنگل بنچ جج سے دہلی کا خصوصی درجہ ہٹوا (اور پدوچیری کو دلوا)دیا گیا۔ اس کے مطابق دہلی منتخب حکومت کے ساتھ یونین ٹریٹری ریاست کا درجہ رکھتی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو پلٹا،پر تین سال لگے۔
مودی حکومت کے پہلے پانچ سالوں میں سی بی آئی کی محدود، پر ٹھیک ٹھاک آزادی بھی چھین لی گئی۔ اس آزادی کو متعین کرنے کے لئے 1997 میں سپریم کورٹ نے سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری کو دو سال کی کم از کم مدت کار دی تھی اور اس عہدے سے تبادلہ تب تک نہیں ہو سکتا تھا جب تک سنٹرل ویجلنس کمشنر کے ساتھ بنی خصوصی کمیٹی اجازت نہ دے۔ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس آزادی کو اور مضبوط کرنے کے لئے یہ طاقت وزیراعظم، حزب مخالف کے رہنما اور چیف جسٹس کی کمیٹی کو دی تھی۔ مودی نے ان دونوں احتیاطی تدابیر کو مسترد کرتے ہوئے یہ حق کابینہ یعنی خود کو دے دئے۔
اسی کے ساتھ پہلے سو دنوں میں مودی نے دوسری مدت کار میں آرٹی آئی کوکمزور کیا۔سینٹرل انفارمیشن کمشنر کی آئینی آزادی قانون سازمجلس میں منظور بل کےذریعے ختم کر دی گئی اور حکومت کی تنقید کرنے پر سیڈیشن کا مقدمہ دائر کرنے کاقانون پاس کر دیا۔یو اے پی اے کو ترمیم کرتے ہوئے حکومت نےاین آئی اے کو یہ حق بھی دے دیا کہ کسی بھی شخص کو دہشت گردہونے کے شک میں دو سال تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔ پہلے یہ حق این آئی اے کےسینئر افسروں کے پاس تھے، اب یہ انسپکٹر اور ان سے اوپر کے درجے والوں کو دے دئےگئے ہیں۔
پولیس کو ملا گرفتاری اور حراست کا حق، انصاف میں دیری، چھوٹی عدالت کےججوں کے ذریعے ملزمین کو سرکاری خواہش کے مطابق لمبے مدت کے لئے حراست میں بھیجنا، اہم حزب مخالف رہنماؤں کو عدالتوں تک گھسیٹنا، مہربان ججوں سے ان کی پیشگی ضمانت نامنظور کروانے، ان کی جائیداد ضبط کرنے اور مہینوں ان کو جیل میں رکھنا-جیسے کاموں میں یہ حکومت اپنی وسیع طاقتوں کا استعمال کرتی رہی ہے اور یہ سب اس الکٹرانک میڈیا کے سامنے، جو بنا پرواہ کے 100 کروڑ لوگوں کو بنا سوال کئےیہ دکھاتی رہتی ہے۔ہیبیس کارپس جو جمہوریت میں کسی بھی شہری کا سب سے بنیادی حق ہوتا ہے کمزور کیا جا چکا ہے۔ اب وہ محض کاغذپر ہے۔ اس کے پیچھے قانون کی حفاظت نہیں ہے، بلکہ ان تمام لوگوں کو شرمندہ اور بےعزت کرنے، مشتبہ بنانے اور ڈرانے کا ہے، جو ہندوتوا کے راستے میں رکاوٹ بن رہےہیں۔
حکومت کو اچھے سے پتہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر معاملے عدالتوں میں ٹک نہیں پائیںگے، کیونکہ اس طرح کے مجرمانہ معاملوں میں آدھا فیصد الزام بھی ثابت نہیں ہو پاتے۔اس طرح کے بیسیوں میں سے تین معاملے یہ دکھانے کے لئے کافی ہیں۔ 2013 میں تہلکہ کےبانی مدیر ترون تیج پال پر جنسی استحصال، ریپ کی کوشش اور اس سے دیگر متعلقہ الزام لگائے گئے تھے، جن کو سپریم کورٹ سے ضمانت ملتے تک سات مہینہ جیل میں کاٹنےپڑے۔ بی جے پی کے لئے تیج پال کا جرم یہ بھی تھا کہ ان کے نامہ نگاروں نے احمدآباد میں 2002 کے نرودا پاٹیا فسادات میں حصہ لینے والے بجرنگ دل کے قاتلوں کا ویڈیواسٹنگ کیا تھا، جس کی وجہ سے ان پر الزام ثابت ہوئے اور سزا ہوئی۔
تیج پال کے الٹ، این ڈی ٹی وی کے بانی-مالک پرنیہ اور رادھیکا رائے منی لانڈرنگ کے معاملے میں تین سال سے زیادہ وقت سے ضمانت پر ہیں، ان کی جائیداد ای ڈی کے ذریعے ضبط کی گئی ہے، جبکہ مہربان ججوں سے 21بار پیشی ٹلوانےکے بعد بھی سرکاری وکیل ابھی تک ثبوت پیش نہیں کر پائے ہیں۔ اور آخر میں سب سے جارحانہ طریقے سے سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کو بہت ہی سطحی بنیاد کی منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار کیا گیا، پیشگی ضمانت نہیں دی گئی اور دہلی ہائی کورٹ کے جج سنیل گوڑ نے اپنی سبکدوشی سے دو روز پہلے ان کو تہاڑجیل بھجوا دیا۔
سبکدوشی کے پانچ دن بعد ہی مودی حکومت نے گوڑ کو منی لانڈرنگ انسدادیٹریبونل کے چیئر مین بنا دیا ۔ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا تھا۔ 2014 میں آئینی روایت کو توڑتے ہوئے مودی نے ریٹائر ہو رہے سپریم کورٹ کےچیف جسٹس پی سداشوم کو کیرل کا گورنر بنا دیا تھا۔اس کے تین سال بعد احمد آباد فسادات میں مودی کو کلین چٹ دینے والے اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کے صدر آر کے راگھون کو عہدہ چھوڑنے کے کچھ ہفتے بعد ہی سائپرس میں ہندوستان کا سفیر بنایا تھا۔
چھوٹی عدالتوں میں کانگریس اور اس کے اخبار نیشنل ہیرالڈ کے خلاف فیصلہ سنانے کا جسٹس گوڑ کا ریکارڈ رہا ہے، جس کے بعد ان کو ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا،جن کو چدمبرم کی ضمانت عرضی پر سماعت کرنی تھی۔ چدمبرم اب ڈیڑھ مہینے سے زیادہ سےتہاڑ جیل میں بند ہیں۔اس بات کی اس روشنی میں دیکھیے کہ ابھی تک نام نہاد گئورکشکوں کے ذریعےمسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے 72 واردات میں نہ تو کوئی مقدمہ شروع ہوا ہے، نہ ہی کوئی الزام ثابت۔
وپن، جس نے پہلو خان کے قتل کا اقبالیہ بیان دیا تھا، ان بہتوں میں سے ایک ہے، جن کو پولیس کے جان بوجھ کر اہم ثبوت پیش نہ کرنے کے چلتے بری کیا گیا۔سمجھوتہ ایکسپریس بم بلاسٹ معاملے میں ملزم رہے ‘ ابھینو بھارت ‘ تنظیم کے سارےممبر اسی وجہ سے بری کر دئے گئے۔ اس سے صاف لگتا ہے مودی کے ہندوستان میں قانون اور انصاف کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ممکن ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندوستان کو ایک لاقانونیت کا ملک بنانےمیں کوئی سیدھا ہاتھ نہ ہو، پر اس بات پر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ جس طرح سے اس نےاپنا نظریہ کو آگے بڑھایا ہے، جس طرح سے مودی نے اس نظریہ کے نام پر کئے گئے جرائم کو غلط بتانے یا مذمت کرنے سے ہی انکار کر دیا ہے، اس سے ہندوستان آج ایک جابرانہ اور افراتفری والے ملک میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تاریخ، خاص طور پر بیسویں صدی کی، یہ دکھلاتی رہی ہے کہ وہ ملک جو نظم ونسق، انسانیت اور انصاف کی طرف سے منھ پھیر لیتے ہیں، بہت زیادہ چل نہیں پاتے۔ کچھ-جیسےجرمنی خود کو ولہلا کی طرح جنگ اور تباہی کی چتا میں خودسوزی کرتے ہیں، دوسری بغاوت کے شکار ہوتے ہیں اور تیسرے-جیسے سوویت یونین ٹوٹکر بکھر جاتے ہیں۔ ہندوستان کے پاس پھر بھی ایک چوتھا اختیار ہوگا-جمہوریت کی بحالی۔ پر اس کے لئے بی جے پی کو پہلے یہ سمجھنا پڑےگا کہ حزب مخالف کو کچلنے کی اس کی پالیسی نہ صرف نقصان نہ پہنچائےگی، بلکہ اس ملک کو برباد بھی کرےگی، جسے وہ پیار کرنے کادعویٰ کرتی ہے۔
(پریم شنکر جھا سینئر صحافی ہیں)
Categories: فکر و نظر