خبریں

رویش کا بلاگ: کشمیر اندرونی مسئلہ ہے تو غیرملکی رکن پارلیامان کو پچھلے دروازے سے کیوں بلایا گیا؟

ہندوستان کو ایک انٹرنیشنل بزنس بروکر کے ذریعے غیر ملکی رکن پارلیامان کے کشمیر آنے کی تمہید  تیار کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ جو رکن پارلیامان بلائے گئےہیں وہ شدید طور پر رائٹ ونگ جماعتوں کے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسی پارٹی سے نہیں ہے جن کی حکومت ہو یا نمایاں آواز رکھتے ہوں۔ تو ہندوستان نے کشمیر پر ایک کمزور وفد کوکیوں چنا؟ کیا اہم جماعتوں سے من مطابق ساتھ نہیں ملا؟

سرینگر میں ڈل جھیل کے کنارے یورپی وفد(فوٹو : پی ٹی آئی)

سرینگر میں ڈل جھیل کے کنارے یورپی وفد(فوٹو : پی ٹی آئی)

انٹرنیشنل بزنس بروکر کا کشمیر سے کیا لینا-دینا؟ حکومت ہند کو کشمیر کےمعاملے میں انٹرنیشنل بروکر کی ضرورت کیوں پڑی؟ ہندوستان آئے یورپی یونین کے رکن پارلیامان کو کشمیر لے جانے کا منصوبہ جس نامعلوم این جی او کے ذریعے تیار ہوا اس کا نام-پتہ سب باہر آ گیا ہے۔ یہ سمجھ سےپرے ہے  کہ رکن پارلیامان کو بلاکر کشمیر لے جانے کے لئے ہندوستان نے غیررسمی چینل کیوں چنا؟ کیا اس لیے کہ کشمیر کے مسئلے میں تیسرے فریق کو دعوت‌دینے کی رسمی شروعات ہو جائے‌گی؟ لیکن خود کو انٹرنیشنل بزنس بروکر کہنے والی مادی(مدھو)شرما کے ذریعے رکن پارلیامان کا دورہ کراکر کیا ہندوستان نے کشمیر کے مسئلے میں تیسرے فریق کےغیررسمی رول کو منظور نہیں کیا؟

برٹن کے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن پارلیامان کرس ڈیوس کو مادی شرما نےای میل کیا ہے۔ سات اکتوبر کو بھیجے گئے ای میل میں مادی شرما کہتی ہیں کہ وہ یورپ بھر‌کی جماعتوں کا ایک وفد لے جانے کے ایک پروگرام کو آرگنائز کر رہی ہیں۔ اس وی آئی پی وفد کی  وزیر اعظم مودی سے ملاقات کرائی جائے‌گی اور اگلے دن کشمیر کا دورہ ہوگا۔ ای میل میں وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی تاریخ 28 اکتوبر ہے اور کشمیر جانے کی تاریخ 29 اکتوبر ہے۔ ظاہر ہے ای میل بھیجنے سے پہلے ہندوستان کے وزیر اعظم مودی کی رضامندی لی گئی ہوگی۔ تبھی تو کوئی تاریخ اور ملاقات کا وعدہ کر سکتا ہے۔ بغیرحکومت کے کسی نامعلوم پارٹی کی سرگرمی کے یہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔

 یہ ای میل کبھی باہر نہیں آتا، اگر رکن پارلیامان کرس ڈیوس نے اپنی طرف سےشرط نہ رکھی ہوتی۔ ڈیوس نے مادی شرما کو رضامندی دیتے ہوئے لکھا کہ وہ کشمیر میں بغیر حفاظتی گھیرے کے لوگوں سے بات کرنا چاہیں‌گے۔بس دس اکتوبر کو مادی شرما نے ڈیوس کو لکھا کہ بغیر سکیورٹی کے ممکن نہیں ہوگا کیونکہ وہاں ہتھیاربند دستہ گھومتا رہتا ہے۔ یہی نہیں اب اور رکن پارلیامان کو لے جانا ممکن نہیں۔ اس طرح ڈیوس کا پتہ کٹ جاتا ہے۔

 7 اکتوبر کو کرس ڈیوس کو مادی شرما کےذریعے بھیجا گیا ای میل۔

7 اکتوبر کو کرس ڈیوس کو مادی شرما کےذریعے بھیجا گیا ای میل۔

 کرس ڈیوس نارتھ ویسٹ برٹن سے یورپی یونین میں رکن پارلیامان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے علاقے میں کشمیر کے لوگ رہتے ہیں جو اپنے رشتہ داروں سے بات نہیں کر پا رہے۔ ڈیوس نے میڈیا سے کہا ہے کہ وہ مودی حکومت کےپی آر اسٹنٹ  کا حصہ نہیں بننا چاہتے کہ کشمیر میں آل از ویل ۔مادی شرما کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہے۔ وزیر اعظم مودی کے ساتھ ان کی تصویریں ہیں۔ان کی آزاد حیثیت بھی ہے۔ ان کی پروفائل بتاتی ہے کہ وہ میانمار میں روہنگیا سےلےکر چین میں ویگر مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی ناانصافی سے فکرمند ہیں اور غلط مانتی ہیں۔

ایسی سوچ رکھنے والی مادی شرما ایسے رکن پارلیامان کو کیوں بلاتی ہیں جواسلام سے نفرت کرتے ہیں اور کٹر عیسائی ہیں؟ جو مائگرنٹ کو کوئی حق نہ دیے جانےکی وکالت کرتے ہیں۔ مادی شرما خود کو گاندھیائی بتاتی ہیں۔ ان کی سائٹ پر گاندھی کی باتیں ہیں۔ مادی شرما کا ایک این جی او ہے۔ ویسٹ [WESTT] یعنی وومینس اکانومک اینڈ سوشل تھنک ٹینک۔ اس این جی او کی طرف سے وہ رکن پارلیامان کو ای میل کرتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ آنے-جانے کا کرایہ اور ٹھہرنے کا انتظام کوئی اور ادارہ کرے‌گا، جس کا نام ہے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار نان-الائنڈ اسٹڈیز۔

 اس ادارہ کا دفتر دہلی کے صفدرجنگ میں ہے۔ 1980 میں بنا یہ ادارہ غیر وابستہ ممالک کی تحریک کو لےکر جلسہ و سیمینار کرانا ہے۔ اس دور میں آپ نے کب غیر وابستہ ممالک کے بارےمیں سنا ہے؟ غیر وابستہ ممالک کی تحریک کے لئے بنا یہ ادارہ یورپی یونین کے 27 رکن پارلیامان کا کرایہ کیوں دے‌گا؟ اس کی ویب سائٹ سے پتہ نہیں چلتا کہ اس کا صدر کون ہے؟اب سوال ہے ہندوستان نے مادی شرما کا سہارا کیوں لیا؟ کئی دفعہ امریکی صدرٹرمپ نے کہا کہ اگر ہندوستان پاکستان چاہیں تو وہ بیچ-بچاؤ کے لئے تیار ہیں۔ہندوستان نے ٹھکرا دیا۔

 28 اکتوبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کےساتھ یورپی رکن پارلیامان کی ملاقات کے وقت مادی شرمابھی موجودتھیں(فوٹو : پی ٹی آئی)

28 اکتوبر کو وزیر اعظم نریندر مودی کےساتھ یورپی رکن پارلیامان کی ملاقات کے وقت مادی شرمابھی موجودتھیں(فوٹو : پی ٹی آئی)

اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر سے ہندوستان متاثر نہیں ہوا۔ کشمیر پرترکی اور ملیشیا کی تنقید سے ہندوستان نے ایسے جتایا جیسے فرق نہ پڑا ہو۔ جب امریکی کانگریس کے غیرملکی معاملوں کی کمیٹی میں کشمیر کو لےکر سوال اٹھے، تب بھی ہندوستان نے ایسے جتایا کہ اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہندوستان کی طرف سے جتایا جاتا رہا کہ کئی ممالک کو بریف کیا گیا ہے اوروہ ہندوستان کے ساتھ ہیں۔ اوپراوپر زیادہ تر ممالک نے ہندوستان سے کچھ خاص ایسانہیں کہا جس سے زیادہ پریشانی ہو۔ بلکہ جب پاکستان نے غیر ملکی سیاسی رہنما اورصحافیوں کو اپنے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرایا تو ہندوستان میں مذاق اڑایا گیا۔

 اتنا سب ہونے کے بعد ہندوستان کو کیا پڑی کہ ایک انٹرنیشنل بزنس بروکر کےذریعے غیر ملکی رکن پارلیامان کو کشمیر آنے کے لیے تمہید باندھنی پڑھی؟ جو رکن پارلیامان بلائے گئے ہیں وہ شدید رائٹ ونگ  کے ہیں۔ ان میں کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے جن کی حکومت ہو یانمایاں آواز رکھتے ہوں۔ یورپی یونین کے 751 سیٹوں میں سے ایسے رکن پارلیامان کی تعداد 73 سے زیادہ نہیں ہے، توہندوستان نے کشمیر پر ایک کمزوروفد کو کیوں چنا؟ کیا اہم جماعتوں سے من مطابق ساتھ نہیں ملا؟

 امریکی سینیٹر کو کشمیر جانے کی اجازت نہ دےکر ہندوستان نے اس معاملے میں امریکی دباؤ کو خارج کر دیا، پھر ہندوستان کو ان رکن پارلیامان کو بلانے کی تمہید کیوں تیار کرنی  پڑی؟کیا ڈیوس نے مادی شرما کے ای میل کو عوامی کرکے ہندوستان کےحزب  کو کمزورنہیں کر دیا؟ کیا یہ سب کرنے سے کشمیر کے مسئلے کی  عالمگیریت نہیں ہوتی ہے؟ کیاکشمیر کی پہلے سے زیادہ عالمگیریت نہیں ہو گئی ہے؟

 اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ ہندوستان کے لئے کشمیر غیرمنقسم حصہ ہے۔ اندرونی معاملہ ہے تو پھر ہندوستان غیر ملکی رکن پارلیامان کو بلانے کے معاملے میں پچھلے دروازےسے کیوں تیاری کرتا ہے؟اس کا صحیح جواب تبھی ملے‌گاجب پریس کانفرنس ہوگی۔ ابھی تک کوئی بیان بھی نہیں آیا ہے۔ فکر کی بات ہے کہ ان سب اطلاعات  کو کروڑوں ہندی قارئین  سے دور رکھاجا رہا ہے۔ ان کو کشمیر پر اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں؟

 آپ کشمیر کو لےکر ہندی اخباروں کی رپورٹنگ پر نظر رکھیں۔ بدھ کے اخبار میں یورپی یونین کے رکن پارلیامان کے دورے کی خبر کو غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ کیایہ سب جانکاری دی گئی ہے؟ کشمیر پر سیاسی کامیابی تبھی ملے‌گی، جب یوپی بہار کواندھیرے میں رکھا جائے‌گا۔جو چینل کل تک کشمیر پر لکھے مضمون کے کسی دوسرے ملک میں ری ٹوئٹ ہو جانےپر مضمون نگار یا رہنما کو غدار وطن بتا رہے تھے، جو چینل دوسرے ملک میں کشمیر پربولنے کو غدار وطن بتا رہے تھے آج وہی ان غیر ملکی رکن پارلیامان کے سرینگر دورےکا استقبال کر رہے ہیں۔ کیوں؟

(یہ مضمون رویش کمار کےفیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)