فیک نیوز راؤنڈ اپ: سواتی نامی غیر مسلم خاتون نے اپنے احتجاج سے یہ پیغام دیا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت کا تعین آئین کے خلاف ہے اور آئین کی خلاف ورزی میں اس ملک کے شہری بلا تفریق مذہب و ملت شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ لیکن سواتی کی تصویر کو بھی بھگوا ہنڈلز نے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔
ملک بھر میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کا دور ہے اور ملک کے تمام شہری بلا تفریق مذہب آئین کے سیکولر تصور کو بچانے کے لئے سڑکوں پر مودی حکومت کے خلاف ہیں۔ لیکن اس میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو مودی حکومت اور ان کی بھگوا فکر کے حامی ہے۔ اس کے برعکس ان لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ کس طرح شہریت ترمیم قانون کے خلاف اس عوامی تحریک کو کمزور کیا جائے۔ بلاشبہ،ان لوگوں کاپہلاہتھیارفیک نیوز کی اشاعت ہے۔
گزشتہ ہفتے کچھ ٹوئٹر ہینڈلوں اور فیس بک پروفائلوں سے دو تصویروں کو عام کیا گیا۔ یہ تصویریں بندوق، رائفل، پستول جیسے ہتھیاروں کی تھیں۔ ان تصویروں کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تصویریں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں چل رہے مظاہروں اور احتجاج سے حاصل ہوئی ہیں۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ اس طرح کی تمام پوسٹس مبنی بر جھوٹ ہیں جن کا جامعہ سے نہیں بلکہ ملک سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان تصویروں میں پہلی تصویر پاکستان کی ہے اور پاکستان کے معروف اخبار Dawn کی ویب سائٹ پر یہ دستیاب ہے۔2017 میں مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو ایک جذباتی بھیڑ نے رسول الله کی توہین کے الزام میں لنچ کر دیا تھا۔ مشال خان کی افسوس ناک موت کے بعد یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا تھا۔ یونیورسٹی دوبارہ کھلنے پر ڈان اخبار میں پرویز خان نامی صحافی کی اسٹوری میں ان اس تصویر کو استعمال کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ ہتھیار یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل سے برآمد ہوئے تھے۔ پرویز خان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پولیس نے تقریباً 53 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
آلٹ نیوز نے واضح کیا کہ سوشل میڈیا میں عام کی جا رہی دوسری تصویر بھی پاکستان کی ہی ہے۔ یہ تصویر اسی سال فروری ماہ کی ہے جب پاکستان کی مقامی عدالت میں کچھ لوگوں نے فائرنگ کر دی تھی۔ پاکستان کے مشہور سماء ٹی وی کی ویب سائٹ نے اس خبر کو شائع کیا تھا۔
اسی طرح، کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے تین تصویروں کو وائرل کیا گیا۔ یہ تصویریں پولیس کی تھیں جن میں دکھایا گیا تھا کہ پولیس کے کچھ سپاہی زخمی ہیں اور ان کی وردی پر زخموں کی وجہ سے خون ہے۔ بھگوا فکر کے فلم ڈائریکٹر اور فیک نیوز کی اشاعت میں معروف نام وویک اگنی ہوتری نے دو تصویروں کو عام کرتے ہوئے لکھا:
نیو انڈیا میں… سنگساری تا مرگ
جس کو منظور، پرورش اور فروغ دے رہے ہیں:
دانشور
بالی ووڈ ہستیاں
اسٹینڈ اپ کامیڈینز
این جی او
اربن نکسل
اگنی ہوتری نے اربن نکسل کا ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے لکھا تھا۔ اربن نکسل کی اصطلاح بھگوا فکر کی ایجاد ہے۔ بی جے پی اور اس کی ہم خیال تنظیمیں اس لفظ کا استعمال سول سوسائٹی اراکین، ملک کے دانشوروں، یونیورسٹی کے طلبا اور ان لوگوں کے خلاف کرتی ہیں جو سنگھ اور بی جے پی کی فکر کے مخالف ہیں۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ تصویریں موجودہ احتجاج سے غیر متعلق ہیں۔
پہلی تصویر جس میں پولیس کے سپاہی ایک دیوار کے سائے میں بیٹھے ہیں اورزخمی سرپرسفیدکپڑاباندھےہوئےہیں،وہ تصویرگزشتہ سال اپریل سےہی سوشل میڈیاپرگردش میں ہے۔ ہیمنت پانڈے نامی ٹوئٹر ہینڈل نے اس تصویر کو گزشتہ سال ٹوئٹ کیا تھا۔ اس کے علاوہ عام کی گئی باقی دو تصویریں موجودہ احتجاج کی ہی تھیں۔ اور یہ دونوں تصویریں احمدآباد کے شاہ عالم علاقے کی تھیں۔
شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کو کمزور کرنے کی ایک کوشش اس وقتہوئی جب سوشل میڈیا پر اتحاد المسلمین پارٹی کی سابقہ لیڈر صبیحہ خان کی تصویر کو ایک دوسری تصویر سے غلط طور پر منسوب کیا گیا۔ سوشل میڈیا کے متعدد پروفائلوں پر دو تصویروں کو ایک ساتھ اپلوڈ کرتے ہوئے دعوے کئے گئے کہ ان دو تصویروں میں جو خاتون موجود ہیں وہ ایک ہی ہے جس نے دوسری تصویر میں اپنی پوشاک بدل کر اپنا نام بھی تبدیل کر لیا ہے اور قانون کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ غور طلب ہے کہ صبیحہ خان کی تصویر کے علاوہ دوسری تصویر میں ایک خاتون پلےکارڈ لئے ہوئے ہے جس میں اس نے لکھا تھا کہ اس کا نام سواتی ہے اور وہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔
اس خاتون نے اپنے احتجاج سے یہ پیغام دیا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت کا تعین آئین کے خلاف ہے اور آئین کی خلاف ورزی میں اس ملک کے شہری بلا تفریق مذہب و ملت شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ بوم لائیو نے جن ٹوئٹزکا حوالہ دیا تھا ان میں ایسے نام بھی تھے جو مسلم یا شیڈیول ٹرائب کے لوگوں کے بھی تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کے ایسے فرضی ہینڈل اکثر بھگواا ٓٓئی ٹی سیل کی ایجادہوتے ہیں۔
تصویروں کے ذریعے شہریت قانون مخالف احتجاج کو کمزور کرنے کی ایک اور سازش سامنے آئی۔ سوشل میڈیا میں ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں ایک لڑکا زنانے لباس میں کھڑا ہے اور اس کے سر پر حجابی اسٹال بھی بندھا ہوا ہے۔ اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے بھگوا پروفائلوں سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وہ خاتون ہے جو احتجاج کر رہی تھی، یہ پتھربازی اور آگ زنی کر رہی تھی، جب اس کو پکڑا گیا تو اندر سے ایسی نکلی۔
سپنا نامی ایک صارف نے لکھا کہ جو سلما بن کر جامعہ دہلی میں دنگے کروا رہی تھی وہ اندر سے سلیم چاچا نکلے۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ اس تصویر کا جامعہ احتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ تصویر مصر کی ہے جہاں 2017 میں اس لڑکے کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ یہ بھیس بدل کر بچے چوری کرتا تھا۔ اس خبر کو شرقیہ ٹوڈے نے شائع کیا تھا۔