دہلی میں ہوئے حالیہ تشدد میں جان گنوانے والوں میں ایک حاملہ خاتون کے آٹو ڈرائیور شوہر، ایک نوشادی شدہ جوان، ایک الیکٹریشن، ایک ڈرائی کلینرجیسے لوگ شامل ہیں۔
نئی دہلی: دہلی کے جی ٹی بی ہاسپٹل میں غم اور تکلیف کا خوفناک منظر ہے۔ چاروں طرف آنکھوں میں آنسو لئے اداس چہرے اور روتے-بلکتے لوگ کھائی دیتے ہیں۔ سوموار سے ہی یہاں پر شمال مشرقی دہلی میں ہوئے وحشیانہ تشدد میں زخمی اور مارے گئے لوگوں کو لایا جا رہا ہے۔ کیا ہندو اور کیا مسلمان، نفرت کی اس آگ نےکسی کو بھی نہیں چھوڑا۔’اس کو نہیں پتہ تھا کہ ماحول اتناخراب ہو گیا ہے۔ وہ اپنے گھر سے تقریباً50 میٹر ہی دوری پر تھا کہ تبھی ایک بھیڑ اس کی طرف دوڑتی ہوئی آئی۔ کسی نے گولی چلائی، جو جاکر اس کے گلے میں لگی۔ ‘جی ٹی بی ہاسپٹل کا مردہ خانہ (مورچری)کے باہر اپنے دوست راہل سولنکی کی لاش کا انتظار کررہے شہباز نے کہا۔
شہباز کے گلے لگکر وکاس رو رہے تھے۔ دوست کے گزر جانے کی تکلیف اس قدر تھی کہ وکاس بےہوش ہو گئے۔ دوسری طرف راہل کی بہن رو رہی تھیں۔ دہلی کےبابو نگر کے رہنے والے سولنکی سوموار کو دودھ لینے گئے تھے۔ تبھی ان کو گولی لگی۔شہباز نے بتایا کہ ان کو فوراً ہاسپٹل لے جایا گیا تھا لیکن پہلےتین ہاسپٹل نے ایڈمٹ کرنے سے منع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں سولنکی کی لاش مورچری سےباہر لائی گئی۔ اس بیچ رونے کی آواز بہت تیز ہو جاتی ہے۔ شہباز نے کہا، ‘ ہم پچھلے تین دن سے انتظار کر رہے تھے۔’
مصطفیٰ آباد کے آٹو ڈرائیور 22 سالہ محمد شاہد کی چار مہینے پہلےشادی ہوئی تھی۔ ان کی بیوی اس وقت حاملہ ہیں لیکن ان کا بچہ اس دنیا میں آئےگاتو وہ اپنے والد کو نہیں دیکھ سکےگا۔ دہلی میں ہوئے تشدد میں شاہد کا گولی مارکرقتل کر دیا گیا۔ بیوی کے پاس گھر چلانے کا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔شاہد کے چچا زاد بھائی محمد راشد نے دی وائر کو بتایا،’ہمیں تواس واقعہ کے بارے میں پتہ بھی نہیں تھا۔ شاہد کی ایک فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس کے بعد ہمیں اس کے بارے میں پتہ چلا۔ بھائی کو سوموار کو 3:30 شام میں گولی لگی تھی۔ ہمیں شام 6:30 بجے پتہ لگا۔ ‘
راشد نے بتایا کہ گولی شاہد کو آرپار کر گئی تھی۔ انہوں نے کہا، ‘ہمیں نہیں پتہ کہ یہ کیسے ہوا۔ اس وقت میں جعفر آباد میں گھر پر تھا۔ وہاں حالات ابھی بھی کشیدہ ہیں۔’
اتنا بڑے واقعہ سے گزرنے کے بعد بھی کئی دنوں سے لوگوں کو اپنےرشتہ داروں کی لاش کو لینے کے لئے مورچری کے باہر انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ ہاسپٹل کے ملازم کہتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم کرنے میں وقت لگ رہا ہے۔ بدھ تک دہلی تشدد میں مارے گئے تقریباً پانچ لوگوں کا پوسٹ مارٹم ہوا تھا۔راشد نے بتایا کہ وہ سوموار سے ہی انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نےکہا، ‘یہ لوگ کہتے رہتے ہیں کہ ایک گھنٹہ اور لگےگا، دو گھنٹہ اور لگےگا، لیکن ابھی تک پوسٹ مارٹم نہیں ہوا ہے۔ وہ نے ہم سے یہ کہہکر 4000 روپے مانگ رہےتھے کہ ان کو پوسٹ مارٹم کی ویڈیو رکارڈنگ کرنی ہے۔ ہم کیوں ان کو پیسہ دیں؟
‘برج پوری کے رہنے والے 23 سالہ راہل ٹھاکر کو منگل کو پیٹ میں گولی لگی تھی۔ ان کے دوست اور پڑوس کے لوگوں نے بتایا کہ علاقے میں کافی پتھربازی ہورہی تھی اور پولیس موجود نہیں تھی۔بنیادی طور پر راجستھان کے رہنے والے پورن سنگھ اپنے چچا زاد بھائی ویر سنگھ کی لاش لینے ہاسپٹل آئے تھے۔ 48 سالہ ویر سنگھ ڈرائی کلیننگ کا کام کرتےتھے اور منگل کو کراول نگر میں شام چار بجے ان کو گولی ماری گئی تھی۔
سنگھ نے کہا، ‘کراول نگر میں ابھی بھی حالات کافی خراب ہیں۔ میں بہت مشکل سے یہاں تک آیا ہوں۔ ویر کھانے کی دکان سے لوٹ رہے تھے کہ تبھی ان کے سر میں گولی مار دی گئی۔ ‘ویر سنگھ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔پورن سنگھ اپنے بھائی کی موت کے پیچھے کی وجہ شہریت ترمیم قانون کےخلاف ہو رہے مظاہرہ کو بتاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تشدد اس لئے ہوا کیونکہ لمبے وقت سے روڈ بند کر دیا گیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد پڑوسیوں کے ساتھ مونو کمار اپنے 51 سالہ والد ونودکمار کی لاش لینے آئے تھے۔ ان کا پورا سر سفید موٹی پٹیوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ مونوکی ایک آنکھ سرخ لال تھی اور آنکھ کے نیچے کالاپن تھا۔ ان کی یہ حالت اس لئے تھی کیونکہ دہلی تشدد میں شرپسندوں نے وحشیانہ طریقے سے ان کو تب پیٹا، جب وہ اپنےوالد کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔سر پر گہری چوٹ کی وجہ سے مونو زیادہ دیر تک بول نہیں پاتے ہیں۔انہوں نے اپنی آنکھوں میں آنسو لئے ہلکی آواز میں بتایا،’ہم دوا لینے کے لئےبائیک سے جا رہے تھے۔ اسی بیچ ‘اللہ اکبر ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک بھیڑ نے ہم پرحملہ کر دیا۔ بائیک کو آگ لگا دی گئی۔ ‘
مونو نے بتایا کہ ان پر پتھروں سے حملہ کیا گیا تھا اور ان کے والدونود پر تلوار سے حملہ کیا گیا، جن کی اسی وقت موت ہو گئی۔ انہوں نے ہمیں اپنےوالد کی تصویر دکھائی جس میں ان کے سر اور آنکھ میں گہری چوٹ لگی تھی۔ فیملی اس وقت ونود کی لاش کا انتظار کر رہی تھی۔
تقریباً دس دن پہلے ہی 14 فروری کو اشفاق حسین کی شادی ہوئی تھی، لیکن وہ اپنی نئی زندگی شروع کر پاتے، اس سے پہلے ہی تشدد کی آگ نے ان کی جان لے لی۔پیشے سے الیکٹریشن اشفاق کو منگل کی شام پانچ بجے کے قریب مصطفیٰ آباد میں پانچ گولی ماری گئی تھیں۔ تین گولیاں ان کے سینے میں لگی تھیں اور دو بغل میں۔ اشفاق کے چچا سلیم بیگ نے بتایا کہ ان کی لاش مصطفیٰ آباد میں الہند ہاسپٹل میں ہی رکھی گئی کیونکہ پولیس نے جی ٹی بی ہاسپٹل لے جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
بیگ نے اپنے 24 سالہ بھتیجے کی موت کے پیچھے بی جے پی رہنما کپل مشرا کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ تشدد شروع ہونے سے کچھ گھنٹے پہلے مشرا نے دہلی پولیس کو’الٹی میٹم’دیا تھا کہ وہ شہریت ترمیم قانون کےخلاف سڑک پر مظاہرہ کر رہےلوگوں کو ہٹا لیں، نہیں تو وہ ان کی بھی نہیں سنیںگے۔مردہ خانہ کے باہر اشفاق حسین کی چاچی کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ وہ رو-روکر کہہ رہیں تھیں کہ دو دن سے میرے بچےکی لاش یہاں پڑی ہے لیکن کوئی پوسٹ مارٹم نہیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘تشدد کی وجہ سے وہ جلدی کام سے واپس آ رہاتھا۔ راستے میں مصطفیٰ آباد کے پلیا پر شرپسندوں نے پانچ گولی اور دو تلوار ماردی۔ گھر پر بھی نہیں پہنچ پایا وہ۔’
ہم سے بات کرتے-کرتے وہ بےہوش ہو جاتی ہیں۔ ہوش میں آکر پھر سے وہ بات کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ہم نے اپنا بچہ کھویا ہے۔ ہمیں درد پتہ ہے۔ ہندوہو یا مسلمان، ہرکوئی کسی نہ کسی کا بچہ ہے۔ ہم سب ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہمیں یہ کیا ہو گیا۔’
Categories: خبریں