خبریں

دہلی فسادات کے دوران عام کی گئی فیک نیوز کا سچ

فیک نیوز راؤنڈ اپ: دہلی فسادات کے وقت سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہوا۔ یہ ویڈیو پاکستان کا تھا جس میں کچھ پولیس اہلکار پاکستانی خواتین کو بری طرح پیٹ رہے ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر اس ویڈیو کو عام کرتے ہوئے دعویٰ کیاگیا کہ یہ خواتین اقلیت طبقے کی ہیں اور اُن کے ہندو ہونے کی وجہ سے اُن پرظلم کیا جا رہا ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان دورے کے دوران دہلی میں مسلم مخالف فسادات جاری رہے جس میں جعفرآباد، مصطفیٰ آباد اور موج پور جیسے علاقوں میں ہندوتوا کے غنڈوں نے جان و مال کو بہت نقصان پہنچایا۔ یہ فسادات مبینہ طور پر اس وقت منظر عام پر آئے جب بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے فسادات سے کچھ روز قبل اپنے عوامی خطاب میں دہلی پولیس کو آگاہ کیا تھا کہ اگر تین روز میں شہریت قانون مخالف مظاہروں کوختم نہ کیا گیا تو تین روز بعد برا انجام ہوگا جس کی ذمہ دار دہلی پولیس ہوگی۔یہ تین روز کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی دہلی فسادات کی آگ میں جلنےلگی۔ فسادات کے دوران سوشل میڈیا میں کثیر تعداد میں فیک نیوز کی اشاعت ہوئی۔ کچھ خبریں اور اُن کی حقیقت یہ ہے؛

جعفرآباد شوٹر کی شناخت

24 فروری کو ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک نوجوان شخص کھلے سڑک پر بندوق سے گولیاں چلا رہا ہے اور اُس نے بندوق کارُخ دہلی پولیس کے ایک سپاہی کی جانب کر رکھا ہے۔ سوشل میڈیا میں اس شخص کے تعلق سے عام کیا گیا جعفرآباد علاقے میں گولیاں چلانے والا یہ شخص شہریت قانون کا حمایتی ہے اور اس گروپ کا حصہ ہے جس نےفسادات میں مسلمانوں پر حملہ کیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان نے ٹوئٹ کیا کہ گولی چلانے والے یہ شخص بی جے پی کا رکن ہے۔

اس کے علاوہ دیگر ٹوئٹر ہنڈلز پر دعویٰ کیا گیا کہ یہ شخص جس بھیڑ کاحصہ ہے، اس بھیڑ میں لوگو کے پاس بھگوا اور زعفرانی رنگ کے جھنڈےنظر آرہے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص بی جے پی کی انتہا پسندسیاست کا رکن ہے۔ آلٹ نیوز نے ان دعووں کی حقیقت جاننے کے لیے تفتیش کی اور انکشاف کیا کہ جعفرآباد میں شوٹنگ کرنے والا شخص شہریت قانون کی حمایت کرنے والی بھیڑ کا حصہ نہیں تھا اور یہ کہ اس بھیڑ کے ہاتھ میں بھگوا جھنڈے نہیں تھے۔

آلٹ نیوز نے دی ہندو کے صحافی سوربھ ترویدی اور دی کوئنٹ کی صحافی ایشوریہ ائیر سے رابطہ قائم کیا تو اس وقت موقع پر موجود تھے اور اس تماشے کے گواہ بھی تھے۔ یہ دونوں صحافی اپنے اخبارات کے لیے رپورٹنگ کر رہے تھے۔سوربھ ترویدي نے واضح کیا کہ یہ شخص اس سمت سے بندوق لیے ہوئے آیاتھا جہاں شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ شخص ہاتھ میں بندوق لیے جعفرآباد سے موج پور کی جانب جا رہا تھا۔موج پورکی جانب وہ بھیڑ کھڑی تھی جو شہریت قانون کی حمایت میں تھی اور جس کے ساتھ پولیس تھی۔

اسی طرح ایشوریہ ائیر نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا جس میں وہ جعفرآباد کی طرف سے موج پور کی جانب جا رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں واضح کیا کہ ایک طرف شہریت قانون خلاف مظاہرہ کرنے والے لوگ تھے تو دوسری جانب شہریت قانون کے حمایتی تھے۔ ویڈیو سے واضح ہوتا ہے کہ پولیس موج پور کی جانب سے آرہی ہے اور جعفرآباد کی طرف گولیاں چلا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں :فیکٹ چیک: کیا دہلی پولیس نے زخمیوں کوپیٹا اور ان کو قومی ترانہ گانے کے لیے مجبور کیا؟

جعفرآباد کا شوٹر شخص بلا شبہ دوسری جانب سے آیا تھا۔ وہ شہریت قانون کی حمایتی بھیڑ کا حصہ نہیں تھا۔

ائیر کی ٹوئٹ کردہ ویڈیو سے یہ بھی انکشاف ہو جاتا ہے کہ شوٹر کے پیچھےموجود بھیڑ میں لوگوں کے ہاتھ میں بھگوا يا زعفرانی جھنڈے نہیں تھے بلکہ وہ پلاسٹک کی کریٹ تھیں جن کا استعمال دودھ، دہی، ٹماٹر وغیرہ کو حفاظت کے ساتھ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ وہ ٹرانسپورٹ کے وقت اپنے ہی وزن سے خراب نہ ہو جائیں۔ مظاہرین ان کریٹوں کا استعمال پتھروں اورگولیوں سے بچنے کے لیے کر رہے تھے۔

پاکستان میں اقلیت خواتین کی پٹائی کی حقیقت۔

دہلی فسادات کے وقت سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہوا۔ یہ ویڈیو پاکستان کا تھا جس میں کچھ پولیس اہلکار پاکستانی خواتین کو بری طرح پیٹ رہے ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر اس ویڈیو کو عام کرتے ہوئے دعویٰ کیاگیا کہ یہ خواتین اقلیت طبقے کی ہیں اور اُن کے ہندو ہونے کی وجہ سے اُن پرظلم کیا جا رہا ہے۔دہلی فسادات سے قبل ہی یہ ویڈیو ٹوئٹر پر عام کر دیا گیا تھا۔ پشپیندر کلشرشتھنامی ہینڈل سے اس ویڈیو کو 13 فروری کو اپلوڈ کیا گیا تھا۔

آلٹ نیوز نے اس ویڈیو کو آن لائن ساف ٹویئر کے مدد سے مختلف فریمز میں تقسیم کیا اور اچھے فریمز کو گوگل امیج سرچ کیا۔ اپنی طویل تفتیش کےمختلف مراحل سے گزرنے کے بعد آلٹ نیوز اس ویڈیو کو حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

اس ویڈیو میں پاکستانی نیوز چینل نے بتایا کہ پولیس اہلکار آپے سے باہر ہوگئے اور خواتین کی پٹائی کی۔ آلٹ نیوز نے اس سے متعلق خبر کو معروف اخبار Dawn پر تلاش کیا جہاں معلوم ہوا کہ یہ خواتین مسلم تھیں جن کا نام حلیمہ بی بی اور انور بی بی تھا۔ Dawn نے یہ خبر 6 جنوری 2019 کوشائع کی تھے اور واضح کیا تھا کہ یہ معاملہ رحمان آباد کا تھا۔مقامی صحافی طیب احمد جٹ کے ٹوئٹر سے مزید یہ معلومات حاصل ہوئی کہ ملزم اہلکاروں کو حکومت نے معطل کر دیا تھا۔

لہٰذا یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستانی ویڈیو کا سہارا لے کر یہاں مسلم اقلیتوں کے خلاف فرقہ ورانہ ماحول بنانے کی کوشش مسلسل جاری ہے۔

دہلی میں ہندو بس ڈرائیور کی پٹائی کا معاملہ۔

فسادات کہ دوران کئی ذمہ دار ہنڈلز سے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا گیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک مسلم شخص کسی بس ڈرائیور کو پیٹ رہا تھا۔ یہ بس ڈرائیور مبینہ طور پر ہندو تھا۔ ویڈیو کے ساتھ دعویٰ کیا گیا تھا کہ دہلی میں مسلم دنگائی ہندوؤں کو بہت پیٹ رہے ہیں۔

آلٹ نیوز نے اس ویڈیو کو مختلف فریمز میں تقسیم کیا اور اُن کو گوگل میں ریورس امیج سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ویڈیو دہلی کا نہیں ہے۔ آلٹ نیوز نےانکشاف کیا کہ:

  • یہ معاملہ اورنگ آباد مہاراشٹر کا تھا جو 21 فروری کو واقع ہوا تھا۔
  • بس ڈرائیور سدھاکر کو اس لیے پیٹا گیا کیوں کہ اس نے مبینہ طور پرملزم کی کار میں بس کی ٹکر ماری تھی۔
  • پولیس انسپکٹر بی پی راوت کے مطابق یہ فرقہ وارانہ معاملہ نہیں ہے۔
  • مہاراشٹر پولیس کی آفیشل ویب سائٹ پر ڈرائیور سدھاکر کی FIR بھی موجود ہے جس میں کسی بھی طرح کے فرقہ وارانہ معاملات کا ذکرنہیں ہے۔

لہٰذا، دہلی فسادات کے نام سے عام کیا گیا ویڈیو دراصل مہاراشٹر کا ویڈیو ہے۔اس معاملے کو دی ٹائمز آف انڈیا میں 21 فروری کو رپورٹ کیا گیا تھا۔

عآپ کونسلر طاہر حسین کی ویڈیو کی اصل تاریخ

عام آدمی پارٹی کے میونسپل کونسلر طاہر حسین پر دہلی میں فسادات بھڑکانےکا الزام لگا ہے۔ پارٹی نے اُن کو سسپنڈ کر دیا ہے۔ اسی درمیان سوشل میڈیامیں اُن کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ فسادات کے دوران پولیس سے مدد مانگتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

اس ویڈیو کو بھگوا ہینڈلوں نے یہ کہہ کر کر بدنام کرنا شروع کر دیا کہ یہ ویڈیوفسادات کے وقت 24 فروری کا نہیں ہے بلکہ یہ 27 فروری کا ہے۔ فیکٹ چیک ویب سائٹ فیکٹ ہنٹ کے بانی ششانک سنگھ اُن لوگوں میں سب سے پہلےتھے جنہوں نے یہ الزام لگایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ویڈیو کہ EXIF ڈیٹا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ ویڈیو 27 فروری کو شوٹ کیا گیا تھا۔

آلٹ نیوز نے عام آدمی پارٹی کے ترجمان دیپک باجپائی سے رابطہ قائم کیا۔انہوں نے بتایا کہ طاہر حسین نے یہ ویڈیو اُن کو 24 فروری کو شام 6:44 پربھیجا تھا۔ باجپائی نے بتایا کہ طاہر حسین نے یہ ویڈیو آج تک کے رپورٹرسشانت مہرا کو ارسال کرنے کے لیے بنایا تھا تاکہ اُن کے اس ویڈیو کو چینل پر نشر کیا جا سکے۔ آلٹ نیوز کے مطابق، طاہر حسین نے یہ ویڈیو 24 فروری کو ہی شوٹ کیا تھا۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ طاہر حسین کی اس ویڈیو پر 24 فروری کو انڈیا ٹوڈے نے خبر شائع کی تھی۔

آلٹ نیوز نے یہ بھی واضح کیا کہ فیکٹ ہنٹ کے EXIF ڈیٹا میں ویڈیو کی تاریخ 27 فروری اس لیے موجود ہے کیوں کہ اُنہوں نے ترمیم شدہ یا ترسیل شدہ ویڈیو کو استعمال کیا ہی، اصل ویڈیو کو نہیں۔ لہٰذا، یہ واضح ہے کہ طاہرحسین کا ویڈیو 24 تاریخ کا ہے، 27 تاریخ کا نہیں۔

پولیس پر پتھر پھینکتی بھیڑ کا معاملہ

میجر سریندر پونیا نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک ہجوم پولیس کی گاڑیوں پر پتھر پھینک رہی ہے۔ میجر پونیا نے اس بھیڑکو مسلم بھیڑ تصور کرتے ہوئے لکھا کہ یہ لوگ کشمیر کو دہلی لے آئے ہیں،یہ لوگ پتھر نہیں پھینک رہے ہیں بلکہ ہندوستان کو توڑ رہے ہیں۔ پونيا نےافسوس ظاہر کیا کہ پروگریسیو میڈیا اس کو نشر نہیں کرےگا۔

لہٰذا، واضح ہو جاتا ہے کہ موجودہ فسادات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔