خبریں

سی اے اے مخالف مظاہرین کی ہورڈنگس ہٹانے کے معاملے کو سپریم کورٹ نے بڑی بنچ کے پاس بھیجا

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کی یوگی حکومت کو حکم دیا تھا کہ لکھنؤ میں سی اے اے  مخالف مظاہرین کے نام، فوٹو اور ان کے پتے کے ساتھ لگائی گئی تمام ہورڈنگس فوراً ہٹائی جائیں۔ سپریم کورٹ نے اس حکم پر روک نہیں لگائی ہے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کی ایک  بنچ نے جمعرات کو لکھنؤ سےسی اے اے  مخالف مظاہرین کی ہورڈنگس ہٹانے کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر کی گئی عرضی کو تین ججوں کی بنچ کے پاس بھیج دیا۔گزشتہ 9 مارچ کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کی یوگی حکومت کو حکم دیا تھا کہ لکھنؤ میں سی اے اے مخالف مظاہرین کے نام، فوٹو اور ان کے پتے کے ساتھ لگائی گئی تمام ہورڈنگس فوراً ہٹائی جائیں۔

ہائی کورٹ نے مانا کہ ریاستی حکومت کے ذریعے اس طرح کی ہورڈنگس لگانا لوگوں کی پرائیویسی میں دخل اور آئین کے آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی ہے۔ اتر پردیش حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

لائیو لاء کے مطابق، جسٹس یو یو للت اور انیرودھ بوس کی بنچ نے کہا کہ اس معاملے میں ایسے مدعے ہیں جس پر مناسب بنچ کے ذریعہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلے ہفتے تین ججوں کی بنچ اس معاملے کو دیکھے‌گی۔خاص بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کی ہدایتوں کو نافذ کرنے پر روک لگانے کو لےکر کوئی حکم پاس نہیں کیا۔

اتر پردیش حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ 95 لوگوں کی سماعت ہوئی تھی اور یہ پایا گیا کہ 57 لوگ تشدد کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے بعد یہ ہورڈنگس لگائی گئی تھیں۔مہتہ نے کہا کہ پٹاسوامی فیصلے کے مطابق اگر وہ شخص عوامی ہستی  ہے تو پرائیویسی کے حق پر چھوٹ ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عوامی مقامات پر تشدد کرتے ہوئے شخص کی ویڈیوگرافی کی جاتی ہے تو وہ پرائیویسی  کے حق کے تحت بچاؤ نہیں کر سکتا ہے۔

اس بنچ نے سالیسٹر جنرل سے کہا کہ آپ اس قانون کے بارے میں بتائیے جو ملزمین کے نام کے ساتھ ہورڈنگس لگانے کی حمایت کرتا ہو۔حالانکہ جسٹس للت نے کہا کہ توڑ-پھوڑ کی مذمت کی جانی چاہیے، لیکن انہوں نے پوچھا کہ کیا مجرموں کو’ ہمیشہ حقیر سمجھا جاسکتا ہے؟ ‘ بنچ نے اس جانب دھیان دلایا کہ ادائیگی کرنے کے لئے ملزمین کے پاس وقت بچا ہوا ہے اور حرجانہ  کی بھرپائی کے خلاف ان کی عرضیاں ابھی بھی زیر التوا ہے۔

اس بارے میں کورٹ نے پوچھا کہ کیا اس طرح کی ‘ سخت کارروائی ‘ کسی قانون کے دائرے میں ہے۔